کشمیر سیاسی، معاشی اور سماجی طور افراتفری اور بے چینی کا شکار ہے جس کی فوری اصلاح اور دُرستگی لازم بنتی ہے ۔ارباب حل و عقد کو چاہیے کہ یہاںکے زمینی حقائق کے عین مطابق اصلاحِ احوال کی امن پسندانہ حکمت علمی بلا تاخیر وضع کر یں ۔ اسی طرح کثیر المذاہب ملک ہند میں بھی فرقہ وارانہ اتحاد اور قومی یک جہتی اپنانا بے حد ضروری ہے،اس کے بغیر کثرت میں وحدت کا لطف نہ تولیا جاسکتا ہے اور نہ ہی جمہوریت ثمر بارہو سکتی ہے ۔ یاد رکھئے کشمیر ہو یا ہندجمہوریت کے تقاضوں پر عمل درآمد سے ہی امن کی بحالی آئینی اور دستوری راستوں سے ممکن ہوسکتی ہے ۔ اسی مضـبوط قومی اتحاد ویگانگت سے بیرونی طاقتیں ہمارے اوپر اثر انداز ہونے میں ناکام رہ سکتی ہیں ۔میں ریاست بہار کے ضلع سیتامڑھی کی باشندہ ہوں ، سری نگر کشمیر میں بچپن سے اپنے والدین کے ساتھ مقیم ہوں اور شہر کے ایک معتبر و مشہور تعلیمی ادارہ میں زیر تعلیم ہوں۔میں نے اپنی چھوٹی سی عمر سے ہی کشمیر میں انسانیت پر ہورہے ظلم وستم کے وہ خونین منظر دیکھے ہیں کہ اکیسویں صدی کے انسانوں کی سوچ اور اس کی ظالمانہ سیاست سے مجھے گھن آتی ہے ۔ مرکزی حکومت اور ریاستی سرکار دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کااحسا س کر کے یہاں سیاسی بدعنوانیاںاور وردی پوشوں کے ظلم وستم کو ختم کریں ۔ یہاںآئے دن اسکول بند ہو جاتے ہیں اور جب بھی پڑھا ئی اپنی رفتار میں ہوتی ہے ، عین اسی وقت کوئی نہ کوئی خونی جھڑپ واقع ہو جاتی ہے کہ پھر سارا امن غارت ، ساراسکون سلب اور زندگی کا سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتاہے ۔ اس موقر اخبار کے ذریعے میںمرکزی اور ریاستی نمائندوں سے کہنا چا ہوں گی کہ آپ قوم کے قائد اور سیاست کے لیڈر ہیں ،آپ کے بچے ملک کے محفوظ مقامات پر تعلیم حاصل کرتے ہیں یا پھروہ بیرونی ممالک زیر تعلیم ہیں ، بہت اچھے لیکن ہم متوسط اور غریب گھرانوں کے طلباء وطالبات کے بارے میں بھی کبھی سوچئے کہ ہماری تعلیم وتربیت میں ڈالی جارہی بے جا خلل اور رکاوٹ ہمارے کیرئر پر کتنی بھاری پڑتی ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھی تعلیم وتدریس کی شمعیں فروزاں کر کے امن اور عافیت کے ساتھ ایک مستند ، باوقار اور بامراد زندگی جی سکیں ۔