Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

وقت ہی انمول اثاثہ!

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: August 11, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
19 Min Read
SHARE
اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار اور لاثانی (نعمتوں سے ہمیں نوازا ہے۔ سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اپنی لاتعداد مخلوقات میں ہمیں ایک باشعور، فہیم، عقلمند اور مکرم و معزز مخلوق بصورت انسان بنا کر تخلیق فرمایا اور اشرف المخلوقات ہونے کا عظیم درجہ عطا فرمایا۔ الحمد اللہ علی ذلک ۔ اللہ تعالی نے اِن نعمتوں میں اضافہ اور برکت کا وعدہ فرمایا ہے اگر ہم اُس کے شکر گذار بندے بن کر رہیں اور ناشگر گذاری اور کفرانِ نعمت کی وجہ سے ہم اُس کے عذاب و عتاب کے مستحق ٹھہریں گے ۔ فرمانِ الٰہی ہے: ’’اگر تم شکر ان نعمت کرو گے تو اِن نعمتوں میں اضافہ ہوگا  اور اگر تم نے کفرانِ نعمت کیا تو میرا عذاب سخت ہوگا۔‘‘ شکران نعمت یہ ہے کہ اِن نعمتوں کو صحیح ڈھنگ سے استعمال کرکے منعم حقیقی کی عبادت کی جائے اور کفرانِ نعمت یہ ہے کہ اِن نعمتوں کو ضائع کرکے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جائے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی متعدد نعمتوں میں سے ایک نعمت کا خاص طور پر قرآن مجید کی بیش تر آیات میں ذکر فرمایا ہے اور وہ ہے’’وقت‘‘ جس کی بہت سارے لوگ قدر نہیں کرتے ہیں بلکہ اُسے فضول کاموں اور لایعنی باتوں میں ضائع کردیتے ہیں۔ غور سے دیکھا اور سوچا جائے تو معلوم ہوگا کہ کارِ دنیا اور حیات مستعار کا لمحہ لمحہ ’’وقت‘‘ کے دائرے میں ہی گزرتا ہے۔ وقت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بارہا ’’وقت‘‘ کی قسم اُٹھائی ہے اور پھر جواب قسم بھی ہے۔ مثلاً: 
۱۔’’چاشت کے وقت کی قسم اور رات کی قسم جب وہ سنسان ہوجائے۔‘‘
اور جواب قسم یہ ہے : آپﷺ کے رب نے نہ تو آپ ﷺ کی چھوڑا ہے اور نہ آپ ﷺ سے ناراض ہے‘‘ ۔فترۃ الوحی ( یعنی نزول وحی میں وقفہ ) کی وجہ سے مشرکین کہنے لگے کہ محمد ﷺ کو اپنے رب نے چھوڑا ہے۔
ب۔ زمانہ کی قسم یا عصر کے وقت کی قسم ۔ پھر جوابِ قسم ہے کہ انسان خسارے میں ہے سوائے اُس شخص کے جس میں چار چیزیں پائی جاتی ہوں یعنی ایمان ، عمل صالح، دعوت الی اللہ اور صبر۔( سورہ ٔ العصر) 
غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وقت کی قسم کھا کر ہر ذی حس اور ذی فہم کو باور فرماتا ہے کہ وقت انتہائی قیمتی شئے ہے جس کی قدر کی جائے اور اس کے ضیاع سے بچنا چاہئے۔
ج۔رات کی قسم جب وہ چھا جائے اور دِن کی قسم جب وہ روشن ہوجائے۔دن اور رات کی قسم اٹھا کر وقت کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ 
دن اور رات کی انسان کے لئے مسخر کرنے میں اس بات کا عندیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی نعمتیں ہیں وہ دِن اور رات میں ہی ظہور پذیر ہوجاتی ہیں۔ دن اور رات میں ہی تمام واقعات رونما ہوجاتے ہیں۔ دن اور رات ہی کانام ’’وقت‘‘ ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:’’اور تمہارے لئے آفتاب و مہتاب کو مسخر کیا ہے جو پابندی سے چلتے رہتے ہیں اور تمہارے لئے رات اور دِن مسخر کیا ہے۔‘‘سورج اور چاند کو انسان کے لئے مسخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اِن سے روشنی اور گرمی ملتی ہے۔ زمین پر پودے اور فصلیں ان سے مستفید ہوتے ہیں اور زندگی پاتے ہیں ، اِن ہی کے بدولت ’’وقت‘‘ کے اہم جز دِن اور رات ، موسموں کی تبدیلی ، مہینوں کی ابتداء و انتہا معلوم ہوتی ہے۔ اللہ کی رحمت سے رات اور دِن بن جاتے ہیں۔ تاکہ انسان کو آرام و سکون بھی ملے اور اپنے لئے معاش؍ روزی کی تلاش بھی کرے۔
’’وقت‘‘ کی قدر و قیمت سے کون بے خبر ہے؟ کون انکار کرسکتا ہے؟ لیکن یہ جانتے ہوئے بھی انسان اُس وقت تک خسارے سے بچ نہیں سکتا ہے جب تک کہ اُس میں چار چیزیں نہ ہوں ۔ جن کاذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ العصر میں کیا ہے، ایمان ، عمل صالح، حق کی تبلیغ اور صبر۔ جس میں یہ چار چیزیں ہوں وہ خسارے سے بچ پاتا ہے۔وقت کا پابند رہنا ہر اسلام ی عبادت کا تقاضا ہے۔ نماز جو ایک شاہکار عبادت ہے سے متعلق ارشادِ ربانی ہے: بے شک نماز مومنین پر فرض کی گئی ہے اپنے اپنے وقت پر‘‘ ۔ نماز سے جہاں اللہ کی عبادت کا حق ادا ہوتا ہے وہاں ہی ایک مسلمان کو وقت کی پابندی اور حفاظت کا انمول درس ملتا ہے۔
مومنین پر رمضان کے روزے فرض کئے گئے ہیں اور رمضان کے بغیر فرض روزے کسی اور مہینے میں ادا نہیں ہوسکتے ہیںاور پھر روزوں کے لئے وقت کی تعین بھی ہے، طلوع فجر سے غروبِ آفتاب تک ۔ یہ وقت کی اہمیت کا بہترین سبق ہے۔ حج کی ادائیگی کے لئے ذوالحج کا پہلا عشرہ مقرر ہے اور اُس میں بھی 8 ، 9 اور 10 تاریخ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ سال کے کسی دوسرے مہینے میں حج ادا نہیں ہوسکتا ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے بھی صرف اُس مال پر یا دولت پر زکوٰۃ فرض ہے جس پر ایک سال گذر گیا ہو۔ یہ شاہ کار عبادات وقت کی اہمیت و حفاظت پر دال ہیں۔ اگر ان عبادات کے مقررہ اوقات میں تغیر و تبدیل کیا جائے تو یہ عبادات کارِ ثواب نہیں بلکہ باعث وبال ہیں۔ دیکھئے کیسے؟ یہودیوں کی سنیچروار (یوم السبت) کو مچھلی کا شکار کرنے سے منع کیا گیا جس کی انہوں نے پابندی نہیں کی۔ نتیجتاً اُن پر عذابِ الٰہی نازل ہوا۔ ورنہ مچھلی حلال ہے حرام نہیں ہے۔عید کے روز نماز عید سے قبل کوئی نفل نماز نہیں ہے۔ ایک شخص نے نفل نماز پڑھنا چا ہا تو سیدنا علی ؓ نے روکا اور عذاب الٰہی سے ڈرایا کیونکہ نماز عید کے لئے وقت مقرر ہے اور اُس وقت سے پہلے کوئی نفل نہیں جو سنت سے ثابت ہو۔ اسلئے وقت مقررہ اور سنت رسول ﷺ کی خلاف ورزی پر اللہ کی پھٹکار ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی وقت کی صحیح قدر و قیمت جانتا ہے۔ فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ہی رات و دن کی قدر و قیمت جانتا ہے۔‘‘[المذمل]
احادیث رسول اللہ ﷺ اور وقت کی اہمیت : کتاب اللہ کی طرح ہی احادیث رسول اللہ ﷺ سے بھی وقت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن میں بہت سارے لوگ خسارے میں رہتے ہیں (یعنی  اُنہیں ضائع کرتے ہیں)صحت اور دوسری فراغت ۔ حدیث مبارک لفظ غبن استعمال ہوا ہے اور یہ نبی ﷺ کی فصاحت لسانی کا اعلیٰ ثبوت ہے۔ غبن دراصل خرید وفروخت یا کسی سرکاری وغیر سرکاری لین دین اور آمدن و خرچ میں واقع ہوجاتا ہے او رغبن کرنے والے پر عتاب بھی پڑتا ہے۔ اُسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ برابر یہی حال اُس شخص کا ہوتا ہے جو صحت اور وقت کی ناقدری کرتے ہوئے انہیں خوامخواہ ضائع کردیتا ہے۔ ایسا شخص حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی ان نعمتوں کے ساتھ غبن والا معاملہ کرتا ہے جس کی سزا یہ ہے کہ یہ شخص ان دو نعمتوں سے محروم ہوکر کفِ افسوس ملنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ضائع ہوکر یہ دونوں چیزیں واپس نہیں آتی ہیں۔ قولِ دانا ہے ’’گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا‘‘۔  
نبی ﷺ نے امت مسلمہ کو وقت اور لمحات کی قدر شناسی پر سخت تاکید فرمائی ہے۔ خیر و بھلائی کے کام کو آخری سانس تک جاری رکھنے کا حکم دیا ہے اگر چہ وہ کام کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہوا اور اُسے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے لگا سکتا ہے تو لگادے۔‘‘[الادب المفرد للبخاری]صاف ظاہر ہے کہ یہ پودا لگانا کسی کے لئے پھر سود مند نہ ہوگا۔ لیکن اس سے وقت کی در و قیمت کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کہیں کسی کتاب میں پروفیسر آرنالڈ کا واقعہ پڑھا ہے کہ کبھی وہ سمندری جہاز میں سفر کررہے تھے کہ دوران سفر جہاز کے ڈوبنے کے خطرے کی گھنٹی بج گئی۔ افراتفری کا عالم پیدا ہوا۔ کسی نے پروفیسر موصوف کے کیبن میں جاکر دیکھا کہ وہ اس خطرے کے لمحہ پر بھی کتاب ہاتھ میں لئے پڑھ رہا ہے۔ جب اُسے خطرے کی اطلاع دی گئی تو اُس نے کہا کہ زندگی کے جتنے بھی لمحات باقی ہیں اُنہیں ضائع کیوں کیا جائے۔ممکن ہے کہ پروفیسر آرنالڈ کا یہ عمل حدیث رسول اللہ ﷺ کا ہی بالفعل اتباع ہے۔ ہم مسلمان ذرا سوچ لیں کہ کتنا وقت فضولیات میں ضائع کرتے ہیں۔ اسلام کی تمام عبادتیں جہاں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت کا سبق دیتی ہیں، وہاں ہی وقت کی قدر و قیمت اورپابندی وقت کا احساس بیدار کرتی ہیں بشرطیکہ انہیں للّٰہیت ، خلوص اور بختہ شعور کے ساتھ عملانا جائے۔ 
تقارب زمان: وقت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ بہت تیزی کے ساتھ گذر رہا ہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی کے ایام بھی گھٹ رہے ہیں، ہم اپنی آخری منزل کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ تقاربِ زمان یعنی وقت کا قریب ہونا علامات قیامت میں سے ایک علامت ہے۔ سال ایسے گذر جاتا ہے، جسے ایک مہینہ، مہینہ ایسے گذر جاتا ہے  جسے ایک ہفتہ ، ہفتہ ایسے گذر جاتا ہے جسے ایک دِن گزرا ہو۔ وقت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ بیتی ہوئی گھڑی واپس نہیں آتی ہے۔ دنیوی زندگی میں نفع و نقصان ام ہیں ۔ نقصان چاہیے مال کا ہو یا دولت کا ، اللہ کے فضل او راپنی محنت و لگن سے یہ نقصان پورا ہوسکتا ہے لیکن وقت کا نقصان ہرگز پورا نہیں ہوسکتا ہے۔ گزرا ہوا وقت ہاتھ نہیں آسکتا ۔ 
وقت کیسے ضائع ہوجاتا ہے؟
 غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ، جو قادِر مطلق ہے، نے کائنات کو صحیح دھنگ اور متوازن رکھنے کے لئے ایک نظام الاوقات مقرر فرمایا ہے تاکہ ہر ایک کام اپنے وقت پر انجام پائے۔ چاہیے سورج کا طلوع و غروب ہویا چاند کا گھٹنا بڑھنا، رات اور دِن کا آنا جانا، موسموں ، تغیر و تبدیل، پیڑ، پودوں کا پت جھڑ ہو تا زہ کونپل کا نکلنا ہو، بارش ہو یا برف باری، کھیتوں کا لہلانا ہو یا مرجھنا ، بہر حال ہر کام اسی نظام الاوقات پابند ہے اور اسی پابندی کی وجہ سے اتنی بڑی کائنات انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ بغیر کسی گڑ بڑیا ٹکراؤ کے اپنے سفر پر رواں دواں ہے۔ نظم و ضبط کا یہی اُصول انسانی زندگی کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں انفرادی طور پر کامیاب اور خوشحال زندگی کے لئے روز مرہ کاموں کے حوالہ سے ایک نظام الاوقات تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے۔ جس کی عدم موجودگی کیوجہ سے ہمارا بیش بہا قیمتی وقت مختلف طریقوں سے ضائع ہوتا جارہا ہے۔ ٹیلی ویژن کا بے تحاشا استعمال، گھنٹوں بیٹھ کر مختلف میچز کو دیکھنا ، موسیقی سماعت کرنا، غیر محرم عورتوں کو دیکھتے رہنا وغیر ہ وقت کے ضیاع کے ذرائع ہیں۔ اب اِن سے بھی بڑھ کر سب سے زیادہ وقت کے ضیاع کا ذریعہ موبائیل فون بن گیا ہے جس نے ہرعمر کے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مرد ہوں یا عورتیں، چھوڑے ہوں یا بڑے، بچے ہوں یاجوان، دفتری ہو یا کاروباری، شاگرد ہو یا استاد، سب کے سب کو بے حد مشغول کردیا ہے۔ گھر ہو یا دفتر، سڑک ہو یا پارک ، گاڑی ہو یا پیدل ، دن ہو یا رات کوئی بھی جگہ ایسی نہیں جہاں موبائیل فون کا بے حد استعمال نہ ہوتا ہو۔ حتی کہ مساجد بھی اس شیطانی راگ یعنی رِنگ ٹون سے بچ نہ پائیں۔ الحفیظ الامان۔ وقت کی ضرورتوں کو جب غلط طریقوں سے استعمال کیا جا تا ہے تو عین نعمت بھی شامت میں بدل جاتی ہے ۔ وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ اخلاقی بحران بھی اپنی حدوں کو پار کرچکا ہے۔ گفتگو کا اختتام عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی حدیث رسول اللہ ﷺ سے کرتے ہیں کہ ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو: ۱۔اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے۔۲۔اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے۔۳۔اپنی مالداری کو اپنی محتاجی سے پہلے۔۴۔اپنی فراغت کی اپنی مشغولیت سے پہلے۔۵۔اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے [الترغیب و ترہیب]
اس حدیث مبارک میں اگر چہ پانچ مختلف چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے لیکن وسعت ِ نظر سے دیکھا جائے تو یہ پانچوں باتیں کسی نہ کسی طرح وقت اور زمانے کے ساتھ مربوط ہیں اور وقت کا ہی اِن پر راج ہے۔ جوانی کے ایام گنتی کے ہوتے ہیں، صحت مندی آج ہے تو کل معلوم نہیں، مالداری آنی جانی ہے، زندگی تو مانند ِبلبلہ ہے، ابھی ہے تو ابھی نہیں۔ رہی فراغت یا فرصت کے لمحات ، ان سے استفادہ تو وہی لوگ کرسکتے ہیں جو وقت کے قدر شناس ہوں ۔وقت کا ضیاع ہوتو کف ِافسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ دنیا دارلعمل ہے اور آخرت دارالحساب دنیا میں عمل کرنے کی مہلت (ناپاتُلاوقت) ہے جو آخرت میں میسر نہیں۔ سیدنا عمر بن الخطاب ؓ فرمایا کرتے تھے:’’لوگو! اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کا وزن کرو قبل اس کے کہ اللہ کی میزان میں اُن کاوزن کیا جائے۔‘‘ مرنے کے بعد بس جزاء یا سزا ہے، جنت ہے یا جہنم ، کامیابی ہے یا ناکامی ۔ ہم تو ساری زندگی مکانات کی تعمیر ،شادی بیاہ اور احباب کے ساتھ گپ شپ میں گذارتے ہیں اور فرشتۂ اجل واپسی کا پروانہ لے کر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمانہ کی قسم کھاکر فرمایا ہے کہ انسان بڑے خسارہ میں ہے(سورۃ العصر) کون خسارہ میں ہے؟ وہ جو اپنی عمر کے مختصر وقت کو ضائع کرے، غفلت میں گذارے، اللہ اور اُس کے رسول اللہ ﷺ ک نافرمانی کرے، بے عملی میں صرف کرے ، صبر کے بجائے بے صبری سے کام لے ، حق کی طرفداری اور پاسبانی نہ کرے۔امام شافعی ؒ کا کہنا ہے کہ سورۃ العصر کا مطلب میں نے ایک برف بیچنے والے سے سمجھا جو بازار میں آواز لگا ہرا تھا کہ لوگو اِس شخص پر رحم کرو جس کا اثاثہ دھوپ کی تمازت سے پگھل رہا ہے۔ اُس کی پکار سن کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ جس طرح برف پگھل کر کم ہورہا ہے اسی طرح انسان کو ملی ہوئی عمر بھی تیزی سے گزر رہی ہے۔ عمر کا موقع اگر بے عملی یا برے کاموں میں کھوددیا جائے تو یہی انسان کا گھاٹا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس دنیا کی مہلت ، عمر اور طاقت کو آخرت کی طویل زندگی سرمایہ بنادے ۔ آمین ثم آمین بقول ظفر اقبال      ؎
سفر پیچھے کی جانب ہے قدم آگے ہے میرا
میں بوڑھا ہوتا جاتا ہوں جواں ہونے کی خاطر  
9419780332
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

جی ایم سی جموں میں جونیئر ڈاکٹروں کی ہڑتال دوسرے روز بھی جاری، طبی خدمات بری طرح متاثر
تازہ ترین
کویندر گپتا نے بطور لیفٹیننٹ گورنر لداخ حلف اٹھایا
برصغیر
ہندوستان نے ٹی آر ایف کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے امریکی فیصلے کا کیا خیر مقدم
برصغیر
امریکہ نے پہلگام حملے کے ذمہ دار ’دی ریزسٹنس فرنٹ‘ کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا
برصغیر

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 17, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?