ہم آج کے مادی دور میں شاید یہ بھول چکے ہیں کہ ہم کون ہیں؟ ہمیں دنیا میں کیا کرنا چاہئے؟ کیا نہیں کرنا چاہئے ۔سچ تو یہ ہے کہ اپنی معاشی ضروریات کی کفالت اور قومی ونسلی تفاخر کی آڑ میں ہم نے اسلام سے ہٹ کراپنی ایک الگ پہچان بنالی ہے ۔اس رو میں بہہ کر ہم اتنے دورجا چکے ہیں کہ اندازہ ہی نہیں کہ ہم کہاں ہیں؟ یہ میرااور آپ کا عینی مشاہدہ ہے کہ دین کے بنیادی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر بعض علماء اور عوام الناس غیر ضروری موضوعات و مسائل پر خشک بحث و مباحثہ میں الجھے ہوئے رہتے ہیں۔حد یہ کہ اس قسم کے مباحث کے لئے فیس بک اورواٹس اپ وغیرہ کا بھی بخوبی استعمال بخوبی ہورہا ہے۔ہم میں سے کچھ افراد شیعہ ،سنی ، بریلوی دیو بندی مکاتب ِفکر کے بارے میں بحثوں میں اپنی ساری قوت گویائی صرف کر تے رہتے ہیں۔ البتہ کچھ وہ مخلص لوگ بھی ہیں جن کااختلافی مسائل ،مسلکی تقسیم اورفقہی تنازعات سے کوئی لینا دینا نہیں ،ان کو بس امت کی اصلاح سے غرض ہے ۔زیادہ افسوس تواس وقت ہوتا ہے جب گلی کے بچوں سے لے کر بازار کے دکان دار تک اسلام کی نہیں بلکہ صرف اپنے اپنے مکتب فکر کی برتری کے لئے بے چین نظر آئیں۔افسوس صد افسوس! یہ سب چیزیں اس وقت ہمارے سامنے نمودار ہورہی ہیں جب مسلم دنیا اور امت مسلمہ میں اتحاد اتفاق کی ضرورت شاید پہلے کبھی اتنی نہیں تھی جتنی آج ہے۔ ہم ہیں کہ مختلف مکاتب فکر اور مسلکی تفرقات میں پڑکر آپس میں ہی لڑ رہے ہیںجب کہ اغیارہم پر صرف مسلمان ہونے کے ’’جرم ‘‘میں متحدہ طور حملہ آور ہورہے ہیں ۔ خدارا سوچئے کیا امت کی ہدایت کے لئے قرآن کافی نہیں ؟کیا ہماری رہنمائی کے لئے احادیث رسولؐ حرفِ آخر نہیں ؟جوکوئی کلمہ گو ہو، قرآن ، حدیث ،ختم نبوت، کعبہ اور قبلے کو مانتا ہو ہم اور آپ کون ہوتے ہیں کہ زبردستی اُسے دائرۂ اسلام سے خارج ٹھہرائیں ۔ ہمارے تمام سوالات کے جوابات ائمہ کرامؒ نے صدیوں پہلے قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں کافی وشافی دئے ہیں،اب علمائے کرام کافرض عین بنتاہے کہ عوام الناس میں قرآن وحدیث اور صحابہ کرام ؓ کے فکروعمل کی روشنی میں اسلام کی سچی تصویر کو پیش کریں ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم تعلیمی میدان میں پچھڑے ہوئے ہیں ،ترقی سے نابلد ہیں ،بے روزگار ی سے جھوج رہے ہیں ، رسوماتِ بد کے غلام ہیں ، اخلاق میں تہی دامن ہیں ، باعمل علماء کی عزت نہیں کر تے ،پڑوسیوں کا خیال نہیں کر تے،یتیم و غریب کا مال ہڑپ لیتے ہیں ،اس پر طرہ یہ کہ دعویٰ ہے کہ ہم شریعت کے پابند ہیں۔ اگر ہم دور جدید میں اسلام کا حقیقی مز اچھکنا چاہتے ہیں توہمیں سما جی خدمات میں آگے آنا چاہئے، اجتماعی فلاح کی جانب برھنا چاہئے ، تعلیم عام کر کے سماجی برائیوں، جہیز ، بدعات وغیرہ کو مٹانا چاہیے ،یتیموں نادار وں کی مدد کے لئے آگے آناچاہیے اور بلا تفریق مذہب و ملت ہر مسکین ومحتاج کسی کی مدد کرنی چاہیے اور سب سے بڑھ کر جو لوگ عوام کے درمیان جان بوجھ کرانتشار پھیلاتے ہیں، اُن سے دور رہنا چاہیے ۔ یہ سب کیا تواللہ اور اس کے رسول ؐ کی خوشنودی ہمارے شامل حال رہے گی ۔
946973468