خدائے لم یزل سے عشق کا بھرپور مظاہرہسوا پانچ ہزار برس قبل جب حضرت جد الانبیاء خلیل اللہ ابراہیم علی نبینا وعلیہ السلام نے مکہ مکرمہ کی بے آب وگیاہ ، کوہساری ، اور سنگلاخ سر زمین میں خدائے واحد کی نشان زدہ جگہ پر خانۂ کعبہ کی بناڈالی اور گویا عرش وکرسی کی عظیم اور روحانی تجلیات کو ہمیشہ کے لئے زمین پر کھینچ کر ، اقطار وآفاق سے شرک وبدعت ، ظلم وجور ، تمرد وطغیان کی گھٹا ٹوپ اور مہیب ظلمتوں کو ختم فرمایا اور عالم خاک کو بالائے پاک سے نسبت بخشی اور جب سے اب تک مسلسل بہ تسلسل خشکی وتری میں شعور کی آنکھ کھولنے والے ہر خوش بخت اہل ایمان کی سب سے بڑی تمنا اور آرزو اس بیت ِ عتیق کی زیارت اور فرط ِ شوق وعشق میں پروانہ وار اس کے گرد گھومنے اور خود کو قدسیوں سے منسوب کرتی چلی آئی ہے ۔
آخر کیوں نہ ہو ، مقدس گھر کی تعمیر کی تکمیل کے ساتھ رب جلیل کا اپنے خلیل علیہ السلام کو یہ حکم دینا کہ کو ہِ ابو قبیس سے یہ صدائے ابراہیمی گونجی اور پھر اسے خدائے بزرگ و برتر کا بے پایاں عطا وکرم سمجھا جائے ، یا پیغمبرانہ صدائے حق کا اعجاز کہ سوا پانچ ہزار سال سے پورے تواتر اور جوش و جذبے کے ساتھ سفر کی طویل وقصیر، شدید ومدید ، ثقیل وخفیف صعوبتیں اور بے شمار مال وزر کے صرفہ کے ساتھ لاکھوں قافلے ہر سال قلب ِ سلیم کے ساتھ احرام کے لباس عبدیت میں شان ِ الوہیت کے حضور لبیک اللہم لبیک کی ایمان افروز شہادتیں پیش کرتے ہوئے رواں دواں ہوتے ہیں ، مشتاقان دید کے یہ قافلے پورے جذب وشوق کے ساتھ جون ، جولائی اور اگست کی چلچلاتی دھوپ میں بھی چلتے ہیں ، اور دسمبر وجنوری کی ہوش رُبا ٹھنڈ میںبھی ، امن وراحت کے ایام میں بھی ، اور جنگ وجدل کی روح فرسا یلغاروں میں بھی ، ان مقدس قافلوں کو نہ صلیبیوں کے لشکر روک پائے ہیں ، اور نہ قرامطہ جنہوں نے مطاف پاک کی سرزمین کو خاک وخون سے تر بتر کر دیا ، اور مغول جو تیز وتند آندھی کی طرح طوفان بلا ریز وخراب انگیز کی طرح ہر شئے تہس نہس کر گئے۔مولانا سید ابو الحسن علی الندویؒ کے مطابق اللہ نے کعبہ مکان ِ محترم کو (اجتماعی زندگی کے ) قیام کا ذریعہ اور انسانوں کے باقی رہنے کا مدار ٹھہرایا ہے ، اس حقیقت پر ابھی تک کم لوگوں کی نگاہ گئی ہے ، کہ نظام ِ عالم کعبۃ اللہ اور اس کی دعوت ومقام سے وابستہ ہے ، اس کو ہماری ظاہری نگاہیں نہیں دیکھ رہی ہیں ، لیکن اہل بصیرت سمجھتے ہیں کہ جس طرح پہاڑوں کا وجود ملک اور زمین میں ایک استقرار وتوازن پیدا کرتا ہے ، اسی طریقہ سے اس سے ایک بالا تر نظام ہے اور وہ نظام وابستہ ہے بیت اللہ سے جب تک بیت اللہ قائم ہے اور اس کا وہ پیغام زندہ ہے اس وقت تک گویا نظام عالم قائم ہے ۔ اس سر زمین کا اصل پیغام ، اس سرزمین کا اصل تحفہ اور اس سر زمین کی اصل نعمت وہ چیز ہے جو ان تمام چیزوں سے بالا تر ہے اور جس کے بغیر نہ معاش کا نظام درست ہو سکتا ہے اور نہ معاد کا ،یہ تو سب جانتے ہیں کہ معاد کا نظام تو درست ہی نہیں ہو سکتا لیکن یہ کم لوگ جانتے ہیں کہ معاش کا نظام بھی درست نہیں ہو سکتا اور جو ملک محض معاشی مسئلہ پر قائم ہیں اور ان کے افراد کا آپس کا تعلق معاشی ہے وہ ایک غیر فطری نظام کے ماتحت زندگی گذار رہے ہیں ، جس کے ساتھ نہ اللہ کی مدد ہے اور نہ اللہ کی رحمت ہے، جتنے مسائل بھی اس وقت ان ملکوں میں اور ان ملکوں کے اثر سے دوسرے ملکوں میں پیدا ہو رہے ہیں وہ سب اسی کا نتیجہ ہیں کہ وہاں معاش معاد کے ساتھ مربوط نہیں ہے ، اور زندگی کا وہ صحیح مقصد وہاں نہیں پایاجاتا جو خالق انسان نے انسان کے لئے متعین کیا ۔ وہ مقصد وہی ہے جس کا اس آیت میں تذکرہ ہے :اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا کہ میری عبادت کریں ، میں ان سے طالب رزق نہیں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ، خدا ہی تو رزق دینے والا ہے ، زور آور اور مضبوط ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کے وقت یہی دعاء مانگی تھی : اے اللہ میں نے تیرے گھر کو اس لئے بنایا ہے کہ تیری توحید کی منادی کی جائے تو نظامِ عالم مربوط ہے حرمین شریفین سے اور ان کی دعوت سے وہ صحیح اعتقاد ، صالح سیرت واخلاق ، انسانیت کے رشتے ، اخوت ومحبت ، انسانیت کے احترام،انسانی جان ومال کا تحفظ ، اور ہر چیز میں خدا کو حاضر ناظر سمجھنے سے نظام ِ عالم قائم ہے۔نظام ِ عالم سائنس پر قائم نہیں ہے ، ٹیکنالوجی پر قائم نہیں ہے ، نظام ِ عالم قائم ہے ارادۂ الٰہی پر، نظام ِ عالم قائم ہے ان اصولوں اور تعلیمات پر جن کو پیغمبر لے کر آئے ، جس کے داعیٔ اول سیدنا ابراہیم علیہم السلام اور جس کے مجدد و خاتم اور مکمل ومحافظ سیدنا محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، اور جن کی نمائندگی بیت اللہ شریف اور مسجد ِ نبوی کرتی ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو بیت اللہ الحرام بنایا ، عزت کی جگہ بنائی ، قیاماً للنا س لوگوں کی زندگی کا دار ومدار اس کے اندر لوگوں کی معیشت ، دنیا اور نسل ِ انسانی کو برقرار رکھنے کا راز ہے ۔(سورۂ مائدہ ۹۷)۔اس آیت سے ہندوستانی مسلمانوں پر بھی ذمہ داری عاید ہوتی ہے، یہاں دینی حیثیت سے یہی ملت ِ اسلامیہ بیت اللہ کی نمائندگی کرتی ہے۔
فون نمبر7298788620