سرینگر// پرتاپ پارک سرینگر میں جہاں ایک طرف لوگ بیٹھ کر آپس میں محو گفتگو تھے وہیں دوسری طرف نوشہرہ اوڑی کے تین شہری اپنے پیاروں کی جدائی میں خشک ہونٹوں اور اضطرابی آنکھوں سے من ہی من میں وقت کے ظالم ہاتھوں کو کوس رہے تھے۔کسی کا اکلوتا بیٹا لاپتہ کیا گیا ہے تو کسی کے بھائی ، نہ پولیس کچھ کرسکی نہ متاثرہ کنبوں کی انتھک کوششیں ،تھک ہار کر انکی ہڈیاں اب کمزور ہوگئیں ہیں اور ہمت جواب دے چکی ہے۔ پرتاب پارک سرینگر میں اے پی ڈی پی کے بینر تلے ہونے والے احتجاج میں بونیار اوڑی کے نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے تین شہری بھی شامل تھے جن کے بھائی اور بیٹے پچھلے 25برسوں سے لاپتہ ہیں ۔اس دھرنا کے موقعہ پر اُن کی آنکھیں نم تھیں اور وہ بار بار اپنا یہ مطالبہ دہرا رہے تھے کہ اُن کے لاپتہ عزیز واقارب کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔80سالہ ادھیڑ عمر کے محمد اسماعیل کا اکلوتا بیٹا لطیف احمد 20برس قبل نوشہرہ اوڑی سے فوج نے اغواکیا پھر نہ وہ واپس آیا اور نہ اُس کی لاش ملی ۔محمد اسماعیل نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا لطیف 20برس کا تھا جب 20سال قبل اُسے گھر سے فوج نے اپنے ساتھ لیا اور پھر واپس نہیں لوٹا ،وہ کہتا ہے کہ اُس کے بعد میں نے ہر ممکن جگہ اُس کو تلاش کیا، فوج کی ہر ایک یونٹ کی خاک چھان ماری، پولیس کے پاس بھی گیا لیکن میرے بیٹے کے بارے میں مجھے کوئی سراغ نہیں ملا ۔انہوں نے کہا کہ جہاں کہیں بھی انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا بیٹا وہاں ہے ہم وہاں جاتے لیکن وہاں اُس کا کوئی کوئی سراغ نہیں ملتا اور اس طرح اُس کی تلاش میں ہم نے لاکھوں روپے خرچ کئے ۔محمد اسماعیل کے گھر میں پانچ بیٹیا ںہیں جن میں سے تین کی شادی اُس نے مزدوری کر کے کر دی ہے اور باقی 2بیٹیاں گھر میں ہیں۔80سالہ محمد اسماعیل کہتا ہے کہ اب وہ مزدوری کرنے کے قابل بھی نہیں ہے اب آخری وقت میں اپنے بیٹے کی تلاش اس لئے کرتا ہوں کیونکہ میرے مرنے کے بعد میرا گھر کون سنبھالے گا ۔اوڑی نوشہرہ کے ہی ایک اور شہری محمد سعید خان کا کہنا ہے کہ اُس کا بھائی بشیر احمد خان، جس کی عمر 40برس تھی، کو 1998میں ایس ٹی ایف نے گھر سے اٹھایا اور پھر نہ وہ آیا اور نہ اُس کی لاش پہنچی ۔وہ کہتا ہے کہ اُس کا بڑا بھائی مدھیہ پردیس میں مزدوری کر کے گھروالوں کا پیٹ پالتا تھا، ایک دن وہ گھر آیا تو اُس کے فوراًبعد وہاں ایس ٹی ایف اہلکار پہنچے جنہوں نے اُسے اپنے ساتھ لیا اور پھر تب سے اب تک اُن کی تلاش میں در در بھٹک رہے ہیں ۔محمد سعید خان نے کہا کہ انہوں نے اس حوالے کئی سال قبل کئی مرتبہ بونیار پولیس کو آگاہ بھی کیا ،پولیس نے اگرچہ کیس درج کر کے تحقیقات بھی شروع کی لیکن یہ تحقیقات ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی ہے ۔محمد سعید کہتا ہے کہ میرا اکلوتا بھائی سب گھر والوں کا پیٹ پالتا تھا لیکن اُس کی گمشدگی کے بعد گھر کا پورا نظام ہی بکھر گیا اور ہم لوگ سڑک پر آگئے ،میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا اور اب گھر کا سارا نظام میں ہی مزدوری کر کے چلاتا ہوں ۔بونیار کے ہی نوشہرہ شالہ دجن کے رہنے والے عزیز خان کی بھی ایسی ہی کہانی ہے۔ وہ بھی اپنے بھائی کی تلاش پچھلے 21برسوں سے کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اُس کا بھائی کہاں پر ہے، زندہ بھی ہے یا پھر اُسے بھی مار دیا گیاہے ۔وہ کہتے ہیں کہ میرا بھائی شاہ محمد خان زمینداری کرتا تھا، 1996میں ایک دن وہ اپنے کھیت میں شالی کی فصل کو دیکھنے چلا گیا تو اس دوران علاقے میں آر آر نے کریک ڈاون کر کے اُس کی گرفتاری عمل میں لائی۔ اُس وقت میرے بھائی کی عمر 18برس تھی پھر اُس کی تلاش ہر ممکن جگہ کی لیکن تب سے اب تک اُس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ۔ وہ کہتاہے کہ ہم پولیس کے پاس بھی گئے لیکن پولیس بھی کچھ نہیں کر سکی۔اس موقعہ پر اے پی ڈی پی کی چیئرپرسن پروینہ آہنگر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اے پی ڈی پی‘‘ گذشتہ 2دہائیوں سے لاپتہ افراد کو ڈھونڈنے کیلئے ہر ماہ کی10 تاریخ کو احتجاجی دھرنا دے رہی ہے اور اپنے اس مطالبے کو دہراتی ہے کہ لاپتہ کئے گئے افراد کو بازیاب کرنے کیلئے ایک آزاد کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ کئے گئے افراد کا مسئلہ انتہائی اہم ہے، لہٰذا عالمی اداروں کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے اورانکی بازیابی کی خاطر ٹھوس اقدام اٹھانے چاہئے۔