جموں+سرینگر//ریاست بھر میں 35Aسے متعلق جانکاری مہم کا آغاز کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کارگذار صدر عمر عبداللہ نے واضح کیا کہ اگر دفعہ 35Aکو منسوخ کیا جاتا ہے تو اس سے سٹیٹ سبجیکٹ قانون کالعدم ہو جائے گا اور ریاست کے پشتینی باشندوں کو ملنے والی تمام وہ مراعات ختم ہو جائیں گی جو اس سرٹیفکیٹ کی وجہ سے انہیں ابھی تک مل رہی ہیں۔ جموں اور سرینگر میں الگ الگ تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سٹیٹ سبجیکٹ قانون کے خاتمہ سے صرف وادی کشمیر ہی نہیں بلکہ جموں اور لداخ خطہ بھی یکساں طور متاثر ہوگا۔نیشنل کانفرنس رہنما نے کہا کہ دفعہ 35Aریاستی عوام کیلئے ایک ڈھال کی طرح ہے جو مہاراجہ ہری سنگھ نے انہیں فراہم کی تھی، یہ مقامی لوگوں کے مفادات کو پنجاب اور دیگر ریاستوں کے لوگوں کی طرف سے تحفظ فراہم کرنے کے لئے متعارف کی گئی تھی۔ شیر کشمیر بھون میں پارٹی کارکنان کے یک روزہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سٹیٹ سبجیکٹ کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو غیر منقولہ جائیداد، سرکاری ملازمت اور وظائف وغیرہ کی فراہمی یقینی ہوتی رہی ہے لیکن اگر اس دفعہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ ہوئی تو لوگ ان مراعات سے محروم ہو جائیں گے جن کا دیگر ریاستوں کے عوام تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ عمر عبداللہ نے کہا پارٹی کے ضلعی و تحصیل صدور کو تلقین کی کہ وہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کو تحلیل کرنے کیلئے کئے جارہے پروپیگنڈہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اس دفعہ اور اس کے اثرات کاحقائق کی روشنی میں بغور مطالعہ کریں ۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے 90برس سے جموں کشمیر اپنے کلچر اور شناخت کا تحفظ کئے ہوئے ہے جو کہ صرف سٹیٹ سبجیکٹ کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا ہے کیوں کہ اس کے طفیل ہی بیرون ریاست کے لوگ یہاں غیر منقولہ زمین خرید کر آباد نہیں ہو سکتے، لیکن اگر اس دفعہ کو منسوخ کر دیا جاتا ہے تو ریاست کا منفرد کلچر داستانِ ماضی بن کر رہ جائے گا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ’’ آج ہمارے پاس نوکریاں ہیں، زمین ہے ، تجارت ہے ، لیکن اگر سٹیٹ سبجیکٹ ختم ہو جاتا ہے تو ریاست ایک بار پھر اسی تاریک مقام پر پہنچ جائے گی جہاں سے شیخ صاحب اسے روشنی میں لے کر آئے تھے‘۔ انہوں نے کہا کہ’ ایک بار پھر ہم مضارعہ بن جائیں گیاور باہر کے لوگ زمین کے مالک ہو ں گے۔ انہوں نے کہا کہ بیرونِ ریاست سے آنے والے لوگ زمینیں خرید کر جموں میں آباد ہونے کو ترجیح دیں گے کیوں کہ کشمیر کے موجودہ حالات باہر سے آئے لوگوں کیلئے قابل رہائش نہیں ہیں۔ بیرون ریاست سے لوگوں کے آنے سے کشمیر کی نسبت جموں کے نوجوانوںکوزیادہ بیروزگاری کا سامنا کرنا ہوگا، ہمارے سرکاری دفاتر کا نقشہ بدل جائے گاجہاں بمشکل ہی مقامی زبانیں سمجھنے والا کوئی ملے گاکیوں کہ باہر سے آئے ہوئے لوگ سرکاری ملازمتوں پر بھی قابض ہو جائیں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی پر جموں اور وادی کے مابین دفعہ 35Aکے حوالہ سے غلط فہمیاں پیدا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ معاملہ کسی بھی طرح جموں بنام کشمیر نہیں ہے لیکن بی جے پی حقیر سیاسی مفادات کے لئے اسے تقسیم اور منافرت کا مدعا بنا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنا بی جے پی کا دیرینہ ایجنڈہ رہا ہے جسے 2014میں چنائوی مدعا بھی بنایا گیا ۔ انہوں نے اس معاملہ کو پی ڈی پی اور بی جے پی کے مابین نورا کشتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پہلا بیان حلفی 70صفحات پر مشتمل تھا لیکن ریاستی سرکار نے اسے سپریم کورٹ میں داخل کروانے کے بجائے ایک مختصر ساجواب داخل کروایا ہے جو کہ قابل تشویش ہے اور پی ڈی پی بی جے پی سرکار کے مشکوک رول کو اجاگر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر وزیر اعظم مودی نے یقین دلایا ہے کہ دفعہ 370کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی تو ا س پر عملدرآمد بھی ہونا چاہئے تھا۔عمرعبداللہ نے محبوبہ مفتی کو ایک کمزوروزیر اعلیٰ قراردیتے ہوئے کہا کہ دفعہ 35Aپر حملہ اُس وقت کیا گیا ہے جب ریاست کی تاریخ میں پہلے بار ایک کمزور وزیر اعلیٰ اُس دفتر میں بیٹھی ہیں جو جھوٹ کی بنیادپر لوگوں کو بیوقوف بنا رہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جو جھوٹ ریاستی وزیر اعلیٰ نے جی ایس ٹی کے اطلاق کے دوران لوگوں سے بولا وہی اب 35Aپر بول رہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا ہے کہ غلام محمد شاہ صاحب بھی اتنے کمزور وزیر اعلیٰ تھے جتنی محبوبہ مفتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس دفعہ 35Aکے معاملے پر حریت سے کوئی بھی مدد لینے کیلئے تیار نہیں ہے اور ہم خود ہی اس مسلے کو آگے لیکر چلیں گے ۔دفعہ 35Aپر نوائے صبح کمپلکس میں ایک جانکاری مہم کے دوران ورکروں اور پارٹی عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمر عبداللہ نے 35Aُپر کشمیر وادی میں رکھی گئی ہرتال کے متعلق کہا ’’ مجھے ایک دوست نے سچ کہا کہ یہ پہلی بار دیکھا گیا کہ ہندستان کے آئین کو بچانے کیلئے یہاں ہڑتال کی گئی ہو ،یہ حقیقت ہے اس سے قبل جو بھی ہڑتال کئے گئے ،وہ ہندستان کا کنٹرول جموں وکشمیر پر کم ہو جائے اُس پر رکھے جاتے تھے ۔ عمر نے کہا کہ ہم نے ملک کے ساتھ اتحاد کچھ شرایت کی بنیاد پر کیا تھا باقی ریاستوں نے کوئی شرط نہیں رکھی تھی لیکن آہستہ اہستہ مرکز ان اختیارت کو دلی منتقل کر رہے ہیں ۔عمر نے کہا کہ ہم نے ملک کا ساتھ نہیں چھوڑا مگر ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہم سے کہا جا رہا ہے کہ آپ ملک کا حصہ بنے رہو لیکن جن شرط کی بنیاد پر ہم ملک کا حصہ ہیں انہیں آہستہ آہستہ ختم کیا جا رہا ہے اور ہم کو شکایت بھی کرنے کی اجازت نہیں ہے، اگر ہم بات بھی کرتے ہیں تو ہم کو انٹی نیشنل کہا جاتا ہے ۔