آئین کی دفعہ35-اے کے متعلق پیدا شدہ خدشات کے نتیجہ میں سنیچر کے روز وادی کشمیر اور خطہ چناب میں جس ہمہ گیر ہڑتال کا مظاہرہ کیا گیا وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ چند ایک اضلاع ، جہاں حکمران بی جے پی اور اسکی حلیف دائیں بازو کی جماعتیں مذہب اور انتہا پسند قومیت کے نام پر یہ سیاست کرکے لوگوں کو تلخ حقائق سے بے خبر رکھنے کے مشن میں مصروف ہیں، کو چھوڑ کر ریاست کے ہر علاقہ میں یہ امر اجاگر ہوگیا ہے کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کی کوشش ان کےلئے قابل قبول نہیں ہوگی۔ چونکہ مرکزی حکمران جماعت کے قائدین اور انکے زیر اثر میڈیا کا طبقہ اس معاملے کو کشمیر بمقابلہ ٔ جموں کے طو رپر پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا، لہٰذا اس احتجاجی اقدام سے انہیں یہ پیغام ضرور ملا ہوگا کہ دفعہ35-Aاور دفعہ370 کے معاملے میں دونوں خطوں سے تعلق رکھنے والے لوگ یکساں سوچ رکھتے ہیں۔ چونکہ مرکزی حکومت 1954میں ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعہ نافذ کی گئی اس دفعہ کے خلاف عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی ایک عرضی کی سماعت کے دوران اسکا دفاع کرنے سے اب تک کتنی کترارہی ہے ، لہٰذا مرکز تک اس نوعیت کا پیغام پہنچانا وقت کی ضرورت تھی اور اُمید کی جاسکتی ہے کہ ریاستی حکمران پی ڈی پی اپنی حلیف جماعت بی جے پی پر یہ حقیقت باور کرانے کی کوشش کر نے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کریگی۔ اگر چہ دونوں جماعتوں کی شراکت اقتدار کی دستاویز میں یہ بات درج ہے کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کے حوالے سے ونوں جماعتیں اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے اسکے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کی مرتکب نہیں ہونگی، لیکن کچھ عرصہ سے کچھ مرکزی وزراء اور بی جے پی کے ریاستی قائدین کھلم کھلا اسکی وکالت کر رہے ہیں بلکہ گزشتہ ہفتہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے نئی دہلی میں ایک تقریب کے دوران بولتے ہوئے جب دفعہ35-Aکے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ پر مرکزی حکومت کو متنبہہ کیا تھا تو ریاستی بی جے پی نے کھل کر نہ صرف انکی نکتہ چینی کی تھی بلکہ یہ باور کرانےکی کوشش میں کوئی کسر نہیں آٹھائے رکھی کہ مذکورہ دفعہ، جو ریاستی عوام کے پشتنی باشندگی کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتی ہے ،کے خاتمہ کا وقت آگیا ہے۔ حالانکہ یہ طرز عمل ایجنڈا آف الائنس کی نفی کرتا ہے ، جو دونوں جماعتوں کے مابین شراکت اقتدار کی بنیاد ہے۔ ایسے حالات میں جموں خطہ کے اندر ایسی کوششوں کے خلاف عوامی ردعمل کا اظہار ایک اہم معنی رکھتا ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ جموں خطہ کے اُن علاقوں میں بھی، جہاں ڈوگری زبان بولنے والے لوگ آباد ہیں، دفعہ35-Aکو درپیش خطرات سے زبردست پریشان ہیں، کیونکہ یہ دفعہ اُن قوانین کے تحفظ کے لئے نافذ کی گئی تھی، جو ریاست کے پشتنی باشندوں کو غیر ریاستی یلغار سے بچانے کے لئے ڈوگرہ دور حکومت میں بنائے گئے تھے اور اُس کا بنیادی سبب اُس وقت یہی تھا کہ ہمسایہ راجواڑۂ پنجاب کے لوگوں کا عمل دخل انتظامیہ کے اندر بڑھ رہا تھا اور وہ یہاں مستقلاً رہائش اختیار کر رہے تھے، جس کی وجہ سے ڈوگروں کے مفادات کو زک پہنچتی تھی۔لہٰذا ظاہربات ہے کہ ڈوگرہ لسانی طبقے میں دفعہ35-Aکی اہمیت سے نہ صرف لوگ واقف ہیں بلکہ وہ اسے اپنی شناخت کےلئے انتہائی اہم تصور کرتے ہیں،ما سویٰ اُن مٹھی بھر عناصر کے جنکے اقتدار و ترقی کی روٹیاں اٹانومی کی مخالفت کی بھٹی پرسینکتی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ماضی میں متعدد بار یہ بات سامنے آگئی کہ ہمسایہ ریاستوں کے کافی لوگ جموں، کٹھوعہ اور اُدھمپور کے علاقوں میں نہ صرف آباد ہوگئے بلکہ ناجائز طور طریقے اختیار کرکے پشتنی باشندگی اسناد حاصل کرکے میں یہاں بڑی بڑی املاک بنانے میں کامیاب ہوگئے۔یہ معاملات متعدد بار ریاستی اسمبلی میں بھی زیر بحث آگئے۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت کی حکومتوں نے ا ن معاملات پر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ داخلی خود مختاری کے تحفظ کا معاملہ صرف وادیٔ کشمیر سے تعلق نہیں رکھتا ہے، جیسا کہ دائیں بازو کے عناصر کی طرف سے تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے، بلکہ یہ ریاست کے تمام لوگوں کے اُن خصوصی حقوق کا معاملہ، جنہیں تہس نہس کرنے کےلئے اب عدلیہ کا سہارا لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پیر پنچال کے آر پار حالیہ ہڑتال اُن سیاسی، سماجی و تجارتی حلقوںکےلئے حوصلہ افزائی کا سبب ہوگی، جو ریاست کی خصوصی پوزیشن کی عمارت ڈھانے والے عناصر کی مزاحمت کےلئے ایک متحدہ محاز قائم کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ البتہ اس امر کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں، خاص طور پر پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس ، ان کوششوں کو ایک دوسرے کو زیر کرنے کےلئے استعمال کرنے کی حماقت نہیں کرینگے۔