سرینگر// وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ریاست کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 35 اے پر پورے ملک میں چھڑی ہوئی بحث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ پر پورا یقین ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرسی کی لڑائی اپنی جگہ لیکن جہاں ریاست کے تشخص کی بات آتی ہے تو ریاست کی سبھی سیاسی جماعتیں متحد ہیں۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کچھ غلطیاں دلی سے ہوئیں کچھ ہم سے، اسلئے پچھلے 30برسوں سے ہم پسے جارہے ہیں۔محبو بہ مفتی نے بخشی اسٹیدیم میں منعقدہ 15اگست کی تقریب میں اپنی 13 منٹ طویل تقریر میں کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین کشیدگی کا سب سے زیادہ خمیازہ اہلیان جموں وکشمیر کو بھگتا پڑتا ہے۔انہوں نے کشمیری والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں بندوقوں اور پتھروں کے بجائے قلم اور کتابیں تھمادیں۔ محبوبہ مفتی نے سپریم کورٹ میں زیر سماعت دفعہ 35 اے کے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’لوگ کہتے ہیں کہ جموں وکشمیر ہندوستان کا تاج ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ۔ بغیر کسی شک و شبہ کے جموں وکشمیر ہندوستان کا تاج ہے۔ اور اس کو تاج بن کر ہی رہنا چاہیے۔ ہمیں اس ملک کے ہر ادارے پر یقین ہے۔ ہم نے دیکھا کہ آج تک کئی کوششیں ہوئیں۔ جس طرح یہاں کچھ لوگ ہیں جن کی سوچ ہم سے بالکل الگ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں 1947 سے بھی پیچھے جانا چاہیے۔ اسی طرح ملک میں ایسے لوگ ہیں جو ہمیں 1947 ء پر لے جانا چاہتے ہیں۔ جو کبھی ایک چیز کو لیکر تو کبھی دوسری چیز کو لیکر سپریم کورٹ کا رخ کرتے ہیں۔ ہمیںسپریم کورٹ پر یقین ہے۔ جب جب کسی نے جموں وکشمیر کے خصوصی تشخص کی طرف اگلی اٹھائی اور اس کو زک پہنچانے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ نے اس کوشش کو ناکام بنایا۔ مجھے یقین ہے کہ آج جو معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، سپریم کورٹ وہی موقف اختیار کرے گا جو وہ گذشتہ 70 برسوں سے اختیار کرتا آیا ہے‘۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دفعہ 35 اے کے دفاع کیلئے ریاست کی تمام سیاسی جماعتیں متحد ہیں۔ انہوں نے کہا ’جہاں جموں وکشمیر کے تشخص کی بات آئے گی ہم سب اکٹھے ہیں۔ کرسی کی لڑائی الگ ہے۔ سیاسی لڑائی الگ ہے۔ جب ہمارے تشخص کی بات آئے گی، ہم سب ایک ہیں۔ میں کشمیر کے سینئر لیڈر فاروق عبداللہ کا شکر گذار ہوں جنہوں نے مجھے ملاقات کا موقع دیا۔ میں نے اُن سے گذارش کی کہ ہمیں بتائیں کہ آج پھر کوئی سپریم کورٹ میں گیا ہے، پھر سے کسی نے دفعہ 370 پر وار کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے بہت ہی پیار بلکہ ایک شفقت والے باپ کی طرح میری بات سنی اور کچھ مشورے دیے۔ جن پر میں نے عمل کیا۔ ہماری ریاست میں مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ جب بھی مجھے ضرورت پڑے گی تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی شفقت کا ہاتھ میرے سر پر رکھیں گے اور مجھے ہمیشہ مشورہ دیتے رہیں گے کہ ہمیں آگے کیا کرنا ہوگا۔ کس طرح سے اس ریاست کو مصیبت سے نکالا جاسکتا ہے‘۔ تقریب میں ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ، متعدد کابینی وزراء، مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران اور سول و پولیس انتظامیہ کے اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔ وزیر اعلیٰ نے کشمیر کو ایک انسانی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا کہ ہم مسئلے کو انسانیت کے دائرے میں حل کریں گے۔ انہوں نے کہا ’کشمیر ایک انسانی مسئلہ ہے۔ واجپائی صاحب نے کہا تھا کہ جموں وکشمیر کا مسئلہ ہم انسانیت کے دائرے میں حل کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ مرکزی حکومت اس بات پر عمل کرکے جموں وکشمیر کے لوگوں اس مصیبت اور اس تکلیف باہر آنے کا موقع دیں گے۔ بات چیت ہی واحد حل ہے۔ یہ ہمارے ایجنڈا آف لائنس میں بھی ہے‘۔انہوں نے پاکستان اور چین کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر جاری کشیدگی پر بات کرتے ہوئے کہا ’آج کل ہماری سرحدوں پر پھر سے گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی جانیں تلف ہوئی ہیں۔ ہمارے اسکول بند پڑے ہیں۔ ہمارے کئی لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے کے لئے مجبور ہوگئے ہیں۔ آخر کب تک۔ امریکہ اتنا بڑا ملک ہے اور شمالی کوریا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اس کے باوجود امریکہ کہتا ہے کہ ہم بات چیت سے مسئلہ حل کریں گے۔ گذشتہ چار مہینوں سے چین ہماری سرحدوں پر آکر ہمیں تنگ کررہا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا کہ جنگ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جنگ کے بعد بھی بات چیت کرنی ہوتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ پاکستان بھی اس بات کو سمجھے گا۔ وہ جموں وکشمیر میں اپنے منفی کردار کو بند کرے گا۔ بات چیت کے راستے اسی صورت میں ہموار ہوسکتے ہیں جب پاکستان واجپائی صاحب کے ساتھ کئے گئے وعدے کہ ہم جموں وکشمیر سمیت ہندوستان کے کسی بھی حصے کے خلاف پاکستان کی زمین کا استعمال نہیں ہونے دیں گے، پر عمل کریں گے۔مجھے امید ہے کہ پاکستان اس بات کو یاد کرے گا۔ جب بھی دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی ہوتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ خمیازہ ہماری ریاست کو بھگتا پڑتا ہے‘۔محبوبہ مفتی نے کشمیری والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں بندوقوں اور پتھروں کے بجائے قلم اور کتابیں تھمادیں۔ انہوں نے کہا ’بچوں کے والدین سے ہاتھ جوڑ کر گذارش کرتی ہوں کہ اپنے بچوں کے ہاتھ میں قلم اور کتابیں تھمادیں۔ بندوق اور پتھر نہیں‘۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آج ہمارے ملک کی تمام ریاستوں میں ترقی کو لیکر ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ ہورہا ہے۔ کہیں سڑکوں اچھی بنتی ہیں تو کہیں بجلی اچھی فراہم کی جارہی ہے۔ کہیں بے روزگاری دور ہورہی ہے تو کہیں کوئی ریاست آبپاشی میں آگے بڑھ رہی ہے۔ کہنا کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی تمام ریاستیں دن بہ دن ترقی کررہی ہیں‘۔ مفتی نے کہا کہ جموں وکشمیر کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ خوبصورتی اور قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ انہوں نے کہا ’ایسے میں ہم پر یہ فرض بنتا ہے کہ ہم یہ سوچیں کہ ہم جموں وکشمیر کے لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے زمین کے بدلے جنت کا ٹکڑا دیا ہے۔ جنگلوں کے بدلے سبز سونا دیا۔ جس میں نہ صرف دیودار کے درخت بلکہ ہزاروں قسم کی جڑی بوٹیاں ہیں۔ پانی کا وہ ذخیرہ جو سونے سے بھی مہنگا ہے۔ اور پٹرول سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ پانی کا اتنا ذخیرہ کہ ہمارے ملک اور پاکستان کے کھیت اس پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔ اس پانی سے بجلی پیدا ہوکر ہمارے ملک کی کئی ریاستوں میں روشنی پیداہوتی ہے۔ ہمارے اس ریاست کو شاہ ہمدان (رح) کے قدموں سے نوازا۔ جنہوں نے ہمیں ایمان کی ترغیب اور تربیت دی۔ جنہوں نے اپنے ساتھ ہزاروں ہنر مندوں کو لاکر ہمارے ہاتھ سونے جیسے بنادیے۔ ہمارے ہاں اللہ تعالیٰ نے شیخ نور الدین ولی (رح) کو پیدا کرکے ہمیں بھائی چارے کا سبق دیا۔ ہمیں اپنے ماحولیات سے محبت کرنے کا درس دیا۔ مگر اس کے باوجود ہم اس وقت کہاں ہیں۔ ہم کس طرف جارہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے بچے جن کے ہاتھ میں قلم ہونا چاہیے۔ مگر اُن کے کندھوں پر چھ لاکھ روپے کلاشن کوپ کیوں ہیں؟ جن بچوں کے ہاتھوں میں قلم ہونے چاہیے، چھ لاکھ کی بندوقیں کیوں ہیں؟ ہمارے بچوں کے ہاتھ میں جہاں کتابیں ہونی چاہیں ، وہاں پتھر کیوں ہیں؟ دنیا میں کہیں بھی کوئی اسلامی ملک بندوق نہیں بناتا۔ مگر اگر آپ دیکھیں گے تو پوری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان بچوں کے ہاتھوںمیں بندوقیں ہیں۔ اور مارا ماری چل رہی ہے‘۔ مفتی نے جموں اور لداخ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’آپ جموں کو دیکھئے۔ ایک وقت وادی میں کشمیریت ہمارے جینے کا انداز بن گیا تھا۔ ہمارے مخدوم صاحب (رح) کے ہاں ایک ساتھ مندر کی گھنٹی، گردوارے کی گربانی چلتی تھی۔ وہیں مخدوم صاحب کے ہاں اذان ہوتی تھی۔ آج آپ کو یہ چیزیں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ آپ جایئے اور جموں میں دیکھئے۔ صبح ہوتے ہی اذان، اس کے بعد مندر کی گھنٹی اور اس کے بعد دن میں گربانی چلتی ہے۔ آپ جموں کی سڑکوں پر دیکھئے۔ ہندو، مسلمان، کشمیری پنڈت، گوجر بھائی، پہاڑی اور سکھ ملیں گے۔ لیکن یہ نظارہ اب کشمیر میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ ہمیں سوچنا پڑے گا۔ کہ آخر ہم کس طرف جارہے ہیں۔ ہمیں کیا کرنا ہے۔ لداخ کو دیکھئے۔ جو سیاح ایک بار لداخ جاتا ہے تو بار بار جانا چاہتا ہے۔ وہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی دیکھئے۔ وہاں کے لوگوں کی ایمانداری دیکھئے۔ وہاں کے لوگوں کا امن دیکھئے۔ اب کشمیری لوگ بھی چھٹیاں منانے کے لئے لداخ جاتے ہیں‘۔ وزیر اعلیٰ نے 1947 ء میں ہندوستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’اس لئے ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم نے گذشتہ 70 برسوں میں کیا حاصل کیا۔ ہم نے 1947 میں بردباری کا ثبوت دیا۔ جب پورا برصغیر آگ کی شعلوں میں جھلس رہا تھا۔ بھائی بھائی کے خون کا پیسا ہوگیا تھا۔ ہمسائیہ اپنے ہمسایے کو مارنے نکلا تھا۔ تب اسی کشمیر نے تشدد ، مذہب اور تمام تفرقات سے اوپر اٹھ کر ایک فیصلہ لیا ۔ یہ فیصلہ آنکھ بند کرکے نہیں لیا گیا۔ بلکہ پوری سوچ، سمجھ اور جذبات کو آگے رکھ کر لیا گیا۔ جس کی رہنمائی ہمارے اس وقت کے قدرآور لیڈر شیخ محمد عبداللہ کررہے تھے۔ انہوں نے کسی کشمیری سے زبردستی نہیں کی کہ آپ کو وہاں نہیں بلکہ یہاں جانا ہے۔ بلکہ کشمیری قوم نے اس وقت پورے ہوش کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں اس جمہوری ملک کا حصہ بننا ہے جو ہم سے ملتا جلتا ہو۔ جہاں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی ایک ساتھ رہتے ہوں۔ جہاں سب مل کر رہتے ہوں۔ جہاں عوام کا راج ہو۔ ہمارے یہاں لوگوں نے کئی برسوں تک تاناشی کے خلاف لڑائی لڑی تھی‘۔ وزیر اعلیٰ نے ریاست کو آئین ہند کے تحت حاصل خصوصی پوزیشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’ ہمارے اس ملاپ سے ہمارے ملک کے آئین، لوگوں اور پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا کہ جموں وکشمیر مختلف ہے۔ یہ باقی ریاستوں سے الگ ہے۔ یہاں ہر قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ یہاں کی تہذیب الگ ہے۔ تو فیصلہ ہوا کہ جموں وکشمیر کو ہندوستان کے آئین میں ایک خصوصی پوزیشن ملے گی۔ وہ جگہ ہمیں ملی۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ دونوں طرف سے کیوں بدگمانیاں پیدا ہوئیں۔ ہم ایک دوسرے کے دوست بننے کے بجائے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ مجھے معلوم نہیں کہ ایسا کیا ہوا۔ کہ ہمارا آپسی تانا بانا کیوں ٹوٹ گیا۔ کچھ غلطیاں دہلی میں ہوئیں اور کچھ غلطیاں ہم سے یہاں ہوئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پچھلے تیس سال سے ہم تشدد میں پھنسے ہوئے ہیں‘۔