دنیا میں جمہوریت کے ساتھ ساتھ عدلیہ کا آزاد ہونا روئے زمین پر انسانوں کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا جسم کے لئے روح اور غذا کا ہونا ضروری ہے ۔آزاد عدلیہ کے ذریعے سے ہی انسانیت کو انصاف ملنے کی اُمید ہوتی ہے۔ ملک و قوم کو امن وسلامتی اور انصاف کے سارے تقاضے پورے کرنے کے لئے آزاد عدلیہ کا ایک اہم رول ہوتا ہے ۔ حکمران طبقہ چاہے کتنے ہی ظلم و ستم انسانیت پر ڈھایے لیکن اس کے ہاتھ اگر کوئی روک سکتا ہے تو وہ آزاد عدلیہ ہے ۔یعنی دنیا میں انصاف کے لئے جمہوریت کے ساتھ ساتھ آزاد عدلیہ کا بھی ہونا بہت ضروری ہے ۔جب ہم موجودہ دنیا کے نظام کی اور اپنی نظریں دوڑاتے ہیں تو ہمیں نام نہاد عدالتوں کے ذریعے سے انصاف کی قبائیں کئی بار چاک ہوتی نظر آتی ہیں ۔وہ چاہے آزاد عدلیہ کا دم بھرنے والااسلام کا ازلی دشمن امریکہ ہو جس نے جرم بے گناہی کی پاداش میں اُمت مسلمہ کی ایک قابل ترین ذہن کی مالک بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو عدالت کے ذریعے سے عمر قید کی سزا سُنانا ہو یامصر کے فرعونی صفت جنرل سیسی کی قائم کردہ عدالتیں جہاں پر اخوان سے جُڑے سرفروشوں کے لئے جیل کی کال کوٹھریوں میں ان کو وہاں پر اذیت ناک سزائیں دینا ہو یا بنگلہ دیش کی ظالم خاتون حکمران جس نے جماعت اسلامی سے وابستہ پروانوں کو دن دھاڑے نام نہاد عدالتوں کے ذریعے سے تختہ داروں پر لٹکایا ہے،غرض۔ دنیا میں اس وقت نام نہاد جمہوریت کے بڑے بڑے مگر مچھ عدالتوں کو اپنے حقیر مقاصد کی خاطر استعمال کر کے ہزاروں بار انصاف کا قتل کرنے میں مگن ہیں ۔اسی طرح سے برصغیر میں بھارت اس وقت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کی دعویدار ہے جس میں امریکہ بھی اس کی تائید کر رہا ، سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور یہاں کی عدالتیں بھی انصاف اور قانون کے سارے تقاضے پورے کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں ،مگر جب ہم عملی دنیا میں قدم رکھ کر دیکھتے ہیں تو میں یہ بات کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیںہوتی ہے کہ بھارت ہی دنیا میں ایسا ملک ہے جہاں عدالتوں میں انصاف کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ یہ تو بھارت کی سول عدالت ہی تھی جس نے مقبول بٹ کو تختہ دار پر لٹکانے کے بعد اس کی جسد خاکی کو بھی لواحقین کے سپرد کرنے سے انکار کر کے دلی کے تہاڑ جیل میں ہی دفن کروادیا تھا، اسی طرح سے افضل گورو کو بھارت کے عوام کے اجتماعی ضمیر کی تسکین کے لئے سزا ئے موت دی گئی اور ان کا جسد خاکی بھی کو تہاڑ جیل میں مقبول بٹ کے پہلو میں ہی دفنا دیا گیا،اتنا ہی نہیں حال ہی میں محمد رفیق شاہ کو ۱۲ سال، محمد حسین فاضلی کو ۱۲سال اور گلزار احمد وانی کو ۱۶سال کے بعد بے گناہ پا کر رہا کیا گیا۔ عجیب دستور ہے بھارت کی عدالتوں کا یہاں تو سزا کے بعد ہی فیصلہ سنایا جاتا ہے اور نہ جانے کتنے نظر بندایسے ہیں جو آج بھی بھارت اور کشمیر کی مختلف جیلوں میں بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔وا حسرتا…!
الغرض بھارت کی چاہے سول ایڈمنسٹریشن ہوہو یا فوجی عدالتیں ،وہ انصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر انسانیت کی مٹی پلید کرنے کے لئے اپنے اختیارات کا بے دریغ استعمال کر رہی ہیں ۔اسی طرح کا ایک درد انگیز واقعہ جو کہ ۲۰۱۰ء میں پیش آیا جس میں بھارتی فوج نے میڈل اور ترقی پانے کے لئے تین بے گناہ عام شہریوں کو پیسے کی لالچ دے کر باڈر پر لے جا کر ان کا بے دردی سے قتل کیا اور حسب معمول سینہ ٹھوک کرکہاکہ ہم نے تین خونخوار غیر ملکی ’’دہشت گردوں‘‘ کو مارگرایا ہے جن سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود ضبط کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ۔یہ درد انگیز واقعہ کچھ اس طرح سے پیش آیااپریل ۲۰۱۰ء میں شہزاد احمد خان (۲۷)محمد شفیع لون (۱۹)اور ریاض احمد لون (۲۰)کو بارہمولہ کے نادی ہل رفیع آباد علاقہ سے دھوکہ دے کر اس لئے کلاروس کپواڑہ کے ایک آرمی کیمپ میں لے جایا گیا کہ آپ کو وہاں پر پورٹر(مزدوری) کا کام کرنا ہے، ایک اچھی خاصی مزدوری بھی ملے گی اور وہ تینوں نوجوان خوشی خوشی اپنے گھروں سے نکل گئے کہ اب ہماری تنگ دستی اور تنگ حالی خوشحالی میں بدل جائے گی، اب ہم اچھا خاصہ پیسہ کما کر اپنے گھر والوں کو لا کے دیں گے ،مگر افسوس یہ ان کا محض ایک خواب ہی تھا جس کی تعبیر اس کے بر عکس نکلنے والی تھی ،انہیں کیا پتہ تھا کہ ہمیںپیسہ نہیں بلکہ ہمیں قتل کر کے ہماری لاشوں سے ہی پیسے کمائے جائیں گے۔ ہمارے گھر پیسوں کے بجائے ہماری لاشیں ہی آنے والی ہیں اور گھر والوں کو خوشیوں کے بجائے زندگی بھر کے لئے ہم روتا اور تڑپتا چھوڑ کر جانے والے ہیں،اوربالکل ایسا ہی ہوا ،۲۹/۳۰ ،اپریل کی درمیانی رات کو سونہ پنڈی مژھل سیکٹر کپواڑہ میں بھارت کے فوجی اہل کاروں نے انسانی ضمیرکو اپنی سنگدلی سے مات دے کر ان تین نہتے جوانوں کو گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا ۔ بس پھر کیا تھا فٹا فٹ سے یہ خبر بھارت میں اخبارات اور ٹیلی وژن کے ذریعے سے پھیل گئی کہ مژھل سیکٹر میں ہماری ’’ویر سینا‘‘ نے تین پاکستانی ’’دہشت گردوں‘‘ کو مار گرایا جن کا منصوبہ ہندوستان کی سا لمیت کو نقصان پہنچانا تھا اور ساتھ ہی ساتھ بھارت کی نیوز چینلوں نے بھی اپنے پرائم ٹائم میں بھی اپنے ویر جوانوں کو مبارک باد دی اور زور زور سے نیوز اسٹیڈیوز میں یہ کہتے تھکتے نہیں تھے کہ کوئی ہے ماں کا لال جو بھارت کی سرزمیں پر قدم رکھنے کی ہمت کرے؟؟افسوس ایسے سماج پر اور ایسے میڈیا پر جو معصوموں کو ماوارئے عدالت قتل کرنے پر وردی پوشوں کی پیٹھیں تھپتھپائیںاور خود کو مہذب سمجھیں۔
بہر کیف!اسی دوران نادی ہل رفیع آباد کے ان تینوں نوجوانوں کے گھر والوں کو شک ہو گیا اور انہوں نے پولیس کے پاس گمشدگی کی شکایت درج کر ڈالی۔ اس کے بعد پولیس نے اس معاملہ کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کی جس کے بعد یہ معلوم ہو ا کہ یہ فرضی جھڑپ ہی ہے جس میں آرمی نے تین پاکستانی ملی ٹینٹوں کو مارنے کی بات کہی تھی ،چونکہ بھارتی فوج نے ان تینوں کو قتل کرنے کے بعد مژھل سیکٹر میں ہی دفنا دیا تھا ،اسی دوران ان کی قبر کشائی کر کے ان تینوں کی نعشوں کی پولیس نے شناخت کر کے ان کو بے گناہ پا کر نادی ہل رفیع آباد پہنچایا جہاں پر ان کے گھر والوں نے بتایا کہ ان کے چہروں کو سیاہ کیا گیا تھا وہ اس لئے تا کہ’’ ویر سیناؤں‘‘ کی اس بد ترین سازش کا کہیں پردہ فاش نہ ہو جائے ۔اس خبر کے بعد سے ہی ارض کشمیر کے مظلومین کا لہو گرم ہو گیا اور کشمیر کی گلی گلی میں احتجاج شروع ہو گیا اس کے بدلے میں سال ۲۰۱۰ء میں ۱۲۰ سے زائد نوجوانوں کو جاںبحق کیا گیا ۔اسی دوران پولیس نے تحقیقات کے بعد ۱۱؍ افراد کو دوشی قرار دیا جس میں سے ۹ فوجی ان میں سے ایک کرنل دو میجر اور دو کشمیری شامل ہیں ۔ان کے خلاف دفعہ ۳۰۲ کے تحت قتل کا مقدمہ درج کر کے جوڈیشل مجسٹریٹ سوپور کو یہ کیس سپرد کر دیا گیا،اور سوپور کورٹ نے ملزمین کے خلاف نوٹس بھیج کر فوج کو یہ احکامات دئے کہ ان کو کورٹ کے سامنے حاضر کیا جائے مگر یہاں پر بھی فوج نے اپنی ویرتا دکھا کر کورٹ کے احکاما ت کو یکسرنظر انداز کر دیا اور اس کے بعد یہ کیس ہائی کورٹ سرینگر لے جایا گیا جہاں پر فوج کو کورٹ آف انکوائری کے احکامات صادر کر دئے گئے ، سال ۲۰۱۳ء میں ان کو فوجی عدالت نے مجرم قرار دیکر ان فوجیوں کو عمر قید کی سزا سُنائی ،اور دو کشمیری آج تک جیل میں مقد مے کاسامنا کر رہے ہیں جب کہ اس جرم میں مبینہ طور پر ساجھے دار ایک ٹیریٹوریل آرمی جوان ضمانت پر رہاہے۔ اس کے بعد کسی حد تک مذکورہ قتل کئے گئے افراد کے لواحقین نے اطمینان کی سانس لی کہ چلو ہمیں ہمارے لخت ہاے جگر اب واپس تو نہیں لوٹ سکتے لیکن ان مجرمین کو سزا تو مل گئی اب کبھی بھارتی فوج کسی بے گناہ کو قتل کرنے کی ہمت نہیں کرے گی ،مگر چند دن قبل وہی ہوا جو سات دہائیوں سے حسب معمول ہوتا آیا ہے ،وہ یہ کہ آرمڈ فورسز ٹریبونل (AFT)نے پچھلے دنوں اس واردات میں ملوث مجرمین کوجس میں فوج کے ایک کرنل اور ایک کیپٹن سمیت ۵اہلکارشامل تھے، کی سزا موقوف کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ضمانت پر رہائی کے احکامات صادر فرما دئے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ واقعہ کے سلسلے میں کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران مذکور ہ اہلکاروں کو اعزازات اور شاباشیوں کی لالچ میں تین بے گناہ شہریوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کرنے کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔ اس فیصلہ کے بعد مذکورہ مقتولین کے ورثا ء نے ایک صحافی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آج اس فیصلہ کو سننے کے بعد ایسا لگا کہ جیسے ہمارے لخت ہائے جگر کو پھر سے دوبارہ بھارتی فوجیوں نے قتل کر دیاہے ۔ چونکہ یہ روز کا معمول ہے ارضِ کشمیرکی مجبور و محکوم عوام اور دنیا کے ذی حس لوگ جانتے ہیں کہ معصوم انسانوں کے قتل، مائوں بہنوں کی عزتوں اور عصمتوں کو تار تار کرنا، گھر بار جلانا انسانی حقوق کی پامالیاںیہاں وردی پوشوں کا معمول ہے اور اس کے بعد ان واقعات کی چھان بین کرنا، تحقیقاتی کمیشن بٹھانا اور فوجی عدالتوں میں وقت گزاری کرنا یہ صرف اور صرف وقت کا زیاں ہے تا کہ عام لوگوں کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے اور یہاں کی انتظامیہ عوام کو جھوٹی کارروائیوں سے لبھاتے رہیں گے ،مگر افسوس اس بات کاہوا جب ملوث اہلکاروں کی سزا کو فوجی عدالت نے یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ مقتولین نے خان ڈریس پہنے ہوئے تھے ، اور عدالت کا استدلال ہے چونکہ خان ڈریس صرف ’’دہشت گرد‘‘ ہی پہنتے ہیں، لہٰذا فوج نے انہیں عام شہریوں کو حیثیت سے نہیں بلکہ’’ دہشت گردوں‘‘ سمجھ کر مار گرایا ہے ۔
غرض اصل معاملہ یہ نہیں بلکہ کشمیر کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر ایک دل دوز المیے کے بعد عوامی غیظ و غضب سے بچنے کے لئے تحقیقاتی کمیشن بٹھائے گئے اور بعد میں ان ہی قانون کے باغیوں اور انسانیت کے خونیوں کو انعامات سے نواز کرجمہوریت کے چہرے پر گویا کالک پوت دی جاتی ہے،اور اس کے بعد سے ہر آئے روز فورسز اہلکار دن دھاڑے عام شہریوں کا قتل عام کرنے سے کوئی بھی جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ ابھی نہ جانے ایسے کتنے تحقیقاتی کمیشن بٹھائے جائیں گے۔ اگربھارت دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کی دعویٰ داری کھرا اور سچاہے تو اسے چاہے کہ وہ مژھل المیہ میں ملوث فوجیوں اور دیگر ماورائے عدالت کیسوں میں ملوثین کو کڑی سے کڑی سزا دے تا کہ مقتولین کے ورثاء کو یہ اطمینان حاصل ہو جائے کہ واقعی میں ملوث فوجیوں کو اپنے کئے کی سزا مل گئی اور جمہوریت کی دیوی کا سولہ سنگار برقرار رہے ۔
رابطہ نمبر۔9906664012