ہم میں سے اکثر لوگ پسنجربس ،سومو ،ٹرین وغیرہ میں سفرکرنے کے لیے بس اسٹاپ ،پلیٹ فارم اور اسی طرح کے مقامات پر گاڑی کے انتظار میں ہوتے ہیں۔دیر ہونے پر ہم بار بار اپنے ہاتھ میں لگی گھڑی کی طرف دیکھتے ہیں۔صبح جب نیند سے جاگتے ہیں تو پہلے گھڑی کو دیکھتے ہیں ۔اسکول میں اساتذہ اور طلبہ دونوں مظلومانہ نگاہوں سے بے چاری گھڑی کو تکتے رہتے ہیں کہ کب چھٹی کا وقت ہوجائے اور ہم آزاد ہوں۔ انسان تمناکرتا ہے کہ کاش وقت میرے حساب سے چلتا اور میں اسے پیچھے چھوڑتا،لیکن وقت کے سامنے انسان بے بس ہے ۔ بہت سارے لوگ ایسے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جب دن بھر کے کام کاج سے تھک ہار کر رات کے اوقات میں اپنے بستر پر آرام کے لئے لیٹ جاتے ہیں تو نیند آنے تک وہ دیوار پر لگی گھڑی ( wall clock)پر اپنی نگاہیں جمائے رکھتے ہیں اور گھڑی میںسیکنڈوں کو ظاہر کرنے والی سوئی کی ٹک ٹک والی آواز سے لطف اندوز ہوتے ہیں گویا کہ لوریوں کے مزے لوٹ رہے ہوں۔عربی زبان کا ایک مشہور مقولہ ہے:
’’الوقت کالسیف ان لم تقطعہ قطعک‘‘:یعنی وقت تلوار کی طرح ہے اگر آپ اس کو نہیں کاٹیں گے لیکن وہ آپ کو ضرور کاٹتی ہے ۔ انسان آج کے اس تیز رفتار دور میںاگر اس گھڑی کوکبھی کبھار اپنی مجبوری کے سبب غورسے دیکھتا بھی ہے تو اس کی نظر یا تو گھنٹہ کی سوئی پر ہوتی ہے یا منٹوں کی سوئی پر۔سیکنڈ کی سوئی اس کے لئے کوئی معنٰی نہیں رکھتی۔حالانکہ یہی وہ تلوار ہے جو اس کی زندگی کو غیر محسوس طریقے سے کاٹتی رہتی ہے ۔ یہی وہ چیز ہے جو منٹوں ،گھنٹوں ،دنوں،ہفتوں،مہینوں،سالوں اور صدیوں کو جنم دیتی ہے۔ یہ حالت ہے آج کے اس دور کے انسان کی کہ اپنے حقیقی سرمایہ کے بے فائدہ، ختم ہونے اورخسارہ پانے کے اس عمل سے مزے لیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے خوابِ خرگوش میں مست ہوجاتا ہے۔نبی اکرم ﷺنے انسان کی اسی غفلت اور خسران سرمایہ کی طرف اشارہ کیا ہے ۔آپؐ نے فرمایا:’’اللہ کی نعمتوں میں سے دو نعمتیں ایسی ہیں کہ ان میں بہت سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں ،ایک تندرستی اور دوسری فراغت‘‘ یعنی جس وقت میں یہ میسر ہوں اُس وقت میں ان کی قدر نہ کی جائے اور وقت گزرنے کے بعد کفِ افسوس ملتا رہنا۔حالانکہ یہ وقت ہی ہے جس میں انسان واقعات و حادثات ،غم و مسرت ، لذت وتبسم، آنسو و نغمہ سے گزرتا ہے، زندگی کی آسائش اور آرائش ، مصائب اور آزمائش اسی کے دم سے ہیں،گوکہ انسان زندگی کے جس سفر کودنیا میں آنکھ کھولتے وقت شروع کرتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مراحل قریب آتے رہتے ہیں۔ امام حسن البناء شہید ؒ کا قول ہے کہ’’وقت ہی زندگی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان کی زندگی اس وقت سے عبارت ہے جسے وہ پیدائش کی گھڑی سے لے کر آخری سانس تک گزارتاہے ۔‘‘ قرآن و حدیث میں وقت کی اہمیت اور قیمت کومختلف انداز میں بیان کیا گیاہے۔قرآن میں بہت سی ایسی سورتیں ہیںکہ جن کی شروعات اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر کی ہے،،اور وہ قسمیں اکثر ان چیزو ںکی کھائی گئی ہیں جو وقت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور براہ راست انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں، اس طرح وقت کی قسم سے اس کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے جیسا کہ سورہ عصر میں واضح طور پر وقت کی قسم کھانے کے بعد انسان کی کامیابی اورخسران کا تذکرہ کیا گیا ہے: قسم ہے زمانے کی درحقیقت انسان خسارے میں ہے۔اسی طرح احادیث میں بھی وقت کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ حساب لے گاتو بندے سے ا س کی زندگی کے متعلق سوال کریں گے، ان میں جو دو بنیادی سوال ہوں گے، وہ وقت سے متعلق ہی ہوں گے ۔چنانچہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :‘قیامت کے دن کوئی بھی شخص اپنی جگہ سے نہ ہل سکے گا تاآینکہ پانچ سوالوں کا جواب نہ دے ،عمر کہاں گزاری ، جوانی کس کام میں کھپائی۔۔۔ترمذی اسی طرح اسلامی شعائر و آداب بھی وقت کی اہمیت ،قدر و قیمت کو ظاہر کرتے ہیں ۔اذان ،اقامت ،نماز ،روزہ ، زکوٰۃ ،حج سے متعلق آیات واحکام میں ان کے اوقات و ایام کا متعین اور مقرر ہونا اس کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔جب ہم امت ِمسلمہ کے ماضی اور حال کا موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں ماضی میں اپنے اسلاف کا دور آفتاب کی طرح چمکتا نظر آتا ہے اور حال اس کے مقابلے میں ایک چراغِ خستہ بلکہ اس سے بھی کم تر معلوم ہوتا ہے ۔ ہمارے اسلاف کے ہاں وقت کی اہمیت بہت زیادہ تھی وہ اپنے اوقات کا صحیح استعمال کرنے والے تھے۔حضرتِ عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں سب سے زیادہ اپنے اس دن پر نادم ہوجاتا ہوں جس کا سورج ڈوب جاتا ہے اور میری عمر کا ایک دن کم ہوجاتا ہے مگر اس میں میرے عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوجاتا ہے۔ حضرت عمر بنِ عبدالعزیز فرماتے تھے کہ شب وروز تمہارے لئے کام کر رہے ہیں اور تم ان میں کام کرو اور حضرتِ حسن بصریؒ اپنے اسلاف کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو تمہاری حرصِ دینارودرہم سے زیادہ اپنے اوقات کے حریص تھے ‘‘یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے دورمیں اُفق پر چمکتے آفتاب کی طرح نظر آتے تھے اور ہر محاذپر کامیاب دکھائی دیتے ہیں ۔ انہوں نے وقت کی تیز رفتاری کو بھانپ لیا تھا۔ان کے سامنے قرآنِ مجید جیسا عظیم دستور حیات تھاجس سے وہ ماضی اور مستقبل کا نقشہ سامنے رکھ کر اپنے حال کو سنوارتے تھے ۔تنظیم وقت ان کا فن تھاکیونکہ اسی سے ترجیحات کے تعین میں مدد ملتی ہے، اہم اور غیر اہم کی درجہ بندی اسی سے ممکن ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے وعدوں کو وفا کرنے والے تھے ۔ہمارے ہاں اکثر لوگ اپنے کئے وعدوں کو وفا نہیں کر پاتے ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ہم اپنے وقت کو ٹھیک طرح سے منیج نہیں کرتے ہیں۔ہمارے اسلاف وقت کو صحیح طور پراستعمال میںلاناجانتے تھے ۔ اس کی صحیح تقسیم اپنے جملہ معاملات کے حوالے سے کرناان کی زندگی کا خاصہ رہا ہے ۔اس کے بر عکس ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنا وقت لایعنی کاموں میںصرف کرتے ہیں ۔چوراہوں پر گپ لگانا ، گلیوںاور نکڑوں پر وقت گزاری کرنا ،لاحاصل بحث و مباحث میں وقت گنوانا۔ آج کل کے نوجوانوں کا پیشہ بن گیا ہے ۔اور تو او ر فیس بک ،ٹویٹر ، واٹس ایپ وغیرہ نے تو کہرام مچادیا ہے ۔رات رات بھر چیٹنگ کرنا ۔اب تو اس کے بغیر نوجوانوں کا کھانا بھی ہضم نہیں ہوتا ہے ۔فیس بک نے تو خاندانی ادارہ کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے ۔گھر میں ایک ہی کمرے میں ہونے کے باوجود گھر کا ہرایک فرد اپنی الگ دنیا میں مست و مگن ہوتا ہے ۔ اسے نہ بچوں کی فکر رہتی ہے نہ ہی اپنے والدین کی۔ علامہ یوسف القرضاوی دورحاضر کے غافل لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آج کل مجلسوں ،چوپالوںاور کلبوں میںہر ایک کی زباں پر بس ایک ہی جملہ سننے کو ملتا ہے کہ وقت کاٹ رہے ہیں جسے عام طور پر لوگ وقت گزاری سے تعبیر کرتے ہیں ۔حالانکہ ان نادانوںکو نہیںمعلوم کہ وہ وقت کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو کاٹ رہے ہیں ۔‘‘ہمارے نوجوان اپنے اس قیمتی وقت کو جس طرح ضائع کر رہے ہیں اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے ۔یہ لوگ اس طرح مست ہوچکے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے نشیب وفراز سے واقف ہیں ،اپنی مدت عمر کو جان چکے ہیں۔حالانکہ کوئی انسان نہیں جانتا کہ اس کی عمر کتنی طویل یا کثیرہے۔زندگی چاہے کم ہو یا کہ زیادہ آخر کار تو مرنا ہے ۔بقول شاعر ؎
واذا کان اٰخر العمر موتا
فسواء قصیرہ والطویل
’’اور جب عمر انسانی کا انجام موت ہی ہے تو اسکا مختصر یا طویل ہونا برابر ہے ‘‘
ما الدھر الا ساعتان‘ تأمل
فیما مضی وتفکرفی ما بقی
’’ زمانہ دو چیزوں سے عبارت ہے‘ماضی جو غورو فکر کا طالب ہے اور مستقبل جو منصوبہ بندی کا طالب ہے۔ ‘‘
پھرکیا حال ہے ؟ شاعر کے اس شعر نے مجھے ورطئہ حیرت میں ڈال دیا… شاعر نے حال کا ذکر نہیں کیا ہے… اب اس شعر پر غور و فکر کے بعد جو میں نے سمجھ لیا وہ میں بیان کرتا ہوں… اصل زندگی جو انسان کے اختیار میں ہے وہ حال ہے جو بہت قلیل مدت ہے جس کی مدت کو ناپنے کا آلہ شاید اس دنیا میں نہ ہو… ماضی ، جو گزرگیا اس پر انسان کو اختیار نہیں کہ اسے واپس لا سکے۔ مستقبل ،جوآئندہ آنے والا ہے۔ اس کے معاملے میں بھی انسان عاجز اور بے بس ہے کہ اسے وقت سے پہلے لا نہیں سکتا۔ ان دونوں کے درمیان زمانۂ حال گویا ننگی تلوار کی طرح لٹکا ہوا ہے جو ہر آنے والے لمحہ کو زمانۂ حال بنتے ہی کاٹ کر اسے مزار ماضی میں دفن کر دیتا ہے۔ یہ انسان کی مدتِ حیات ہے اس طرح سے انسان اپنی زندگی کی بے ثباتی کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ وقت کی خصوصیت ہے کہ یہ انسان کی زندگی سے غیر محسوس طریقے سے نکلتا جاتا ہے اور انسان پھر ساٹھ سال کی عمر دراز کو بھی اپنے لئے کم ہی پاتا ہے بلکہ اس کی تیز رفتار ی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حضرت نوحؑ کی روح قبض کرنے کے لئے ملک الموت ان کے پاس آیا توموت کے فرشتے نے ان سے زندگی کے اوقات کے متعلق پوچھا کہ آپ اپنی زندگی کو کیسا پاتے ہیں؟ تو حضرت نوح ؑنے فرمایا۔اس مکان کی طرح ہے جس کے دودروازے ہوں،میں ایک دروازے سے داخل ہوا اور دوسرے سے نکل آیا۔حالانکہ حضرت نوح ؑنے ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عمر پائی تھی۔وقت انسان کی زندگی سے اسی طرح نکل جاتا ہے جیسے کوئی آدمی دریا میںہاتھ ڈالتا ہے تو جو پانی ایک بار اس کے ہاتھ کو چھو کر گزرتا ہے، دوبارہ کبھی اس کو نہیں چھو سکتا۔ اسی طرح جو لمحہ انسان کی زندگی سے نکل جاتا ہے دوبارہ انسان کو نہیں مل سکتا جن لوگوں کی مہلت زندگی ختم ہونے کو ہوتی ہے، وہ تمناکرتے ہوتے ہیں کہ کاش ایک بار جوانی لوٹ آتی تاکہ ہم نئے سرے سے اپنی زندگی کی شروعات کرتے اور اللہ کی اطاعت کرتے ،اس میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرتے ۔ ایک عربی شاعر نے ان جیسے لوگوں کے مقامِ حسرت کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے ؎
الا لیت الشباب یعود یوما
فاخبرہ بما فعل المشیب
’’اے کاش جوانی کسی دن لوٹ آتی تو میںاسے بتاتا کہ بڑھاپے نے کیا ظلم ڈھایا ہے ۔‘‘
مشہور کشمیری شاعر نند ریشی یعنی شیخ العالم نے بھی اس کی ترجمانی کی ہے آپ فرماتے ہیں:
وتھان کوٹھین اتھء دیوان
بیہوان تراوان لوری پہٹھ تران
تیلئہ چھس آکاش بوتلئہ پیوان
چھم ژیتس پیوان یلئہ شر پان
جو لوگ اس دنیا میں اپنے وقت کی قدر نہیں کرتے وہ آخر کار ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں، قرآن میں سورہ المنافقون میں مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا ہے’’۔۔۔۔۔ کہ اے اہل ایمان! مال واولاد کی محبت کہیں تمہیںاللہ کی یاد سے غافل نہ کر دے جو ایسا کریں گے، وہی دراصل نقصان اٹھا نے والے ہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرو اس میں سے جو کچھ ہم نے آپ کو دیا ہے، قبل اس کے کہ آپ کے سامنے موت کا فرشتہ آئے اور وہ اس وقت کہے ۔اے میرے رب ! کیوںنہ تونے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور نیک لوگوں میںشامل ہوجاتا ‘‘اس فضول تمنا کا اللہ کی طرف سے قطعی جواب دیاجائے گا۔ ’’کہ اللہ کسی شخص کو ہر گز مزید مہلت نہیں دیتا جب اس کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے۔‘‘اسی طرح کے لوگوں کے حالات کی عکاسی قرآن نے سورۃالفاطرکی آیت نمبر ۳۵،۳۶میں کی ہے۔لہٰذ انسان کو چاہیے کہ اس دنیا میںاپنے وقت کی اہمیت کو سمجھے اور اس کی قدر کرے،قبل اس کے کہ اس کی مہلت عمل ختم ہوجائے اور انسان دنیا اور آخرت میں کف ِافسوس ملنے پر مجبور ہوجائے ۔اے خوابِ غفلت میں سوئے انساں!جاگ کہ تیری مہلت عمل ختم ہوا چاہتی ہے ،اس گہری نیند سے بیدار ہو جا کہ تیرا سرمایۂ عمر برف کی طرح پگھلتا جارہا ہے، اے جوانی کی ترنگ میں ڈوبے انسان! ہوش کے ناخن لے کہ تیری سانسیں مٹھی میں بھری ریت کے دانوں کی طرح یکے بعد دیگرے نکلتی جارہی ہیں،اے دنیا کی رنگینیوں میں مست ہونے والے انساں !اٹھ اور اپنے رب کے دامن ِرحمت کی طرف پلٹ آ۔قبل اس کے کہ تمہاری مہلت ختم ہو جائے اور اللہ کی پکڑ آجائے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ مہلت توبہ نہ ملے اور ملک الموت تمہیں آ دبوچے اور تمہارے دروازے پر آکھڑا ہوجائے۔اے غافل! اس وقت کو غنیمت جان !!! ہاں غنیمت جان !!
لٹا دیا جنہیں جیتی ہوئی رقم کی طرح
وہ دن پلٹ تو نہ آئیں گے ہاتھ ملنے سے
(مظفر وارثی )