سرینگر//قریباً ایک صدی قبل ریاست کے سیٹلمنٹ کمشنر سر والٹر لارنس نے لکھا ہے کہ کشمیر میوہ جات کا ملک ہے اور شائد کسی اور ملک میںباغبانی کے لئے اس قدر وسیع فضا دستیاب نہ ہوگی جس قدر ریاست میں سیب، ناشپاتی،انگور، توت، اخروٹ، ہیزل نٹ، آڑو، ناشپاتی، رسبری، آملہ، منکہ اورسٹابری کی کاشت کے لئے ساز گار موسم دستیاب ہے اور یہ میوہ جات وادی کے اکثر حصوں میں بغیر کسی مشکل کے اُگائے جاسکتے ہیں۔اس بات کو ثابت کرنے کے لئے حکومت نے ریاست میں باغبانی شعبۂ کی صلاحیت کو مکمل طور بروئے کار لانے کے لئے جدید سائنسی خطوط پر آراستہ چند اختراعی اقدامات اُٹھائے ہیں جن میں آزمائشی جانکاری کیمپوں کا انعقاد اور ریاست بھر کے میوہ باغات سے مٹی کے نمونے حاصل کرنا بھی شامل ہے۔جموں وکشمیر ریاست کو دُنیا کے مشہور زمانہ میوہ جات اور خشک میوؤں کا گھر قرار دیا جاتا ہے۔ باغبانی ریاست کی معیشت کے لئے کافی اہمیت رکھتی ہے اور یہ صنعت جی ڈی پی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یاد رہے کہ 1972-73 میں ریاست کی کُل میوہ پیداوار1.83 میٹرک ٹن درج کی گئی تھی جبکہ سال2015-16 کے دوران یہ تعداد24.94 ایل ایم ٹی تک پہنچ کر6 ہزار کروڑ روپے کی آمدن کے حصول کا ذریعہ بنی۔باغبانی شعبۂ ریاست کے23 لاکھ لوگوں کے لئے بلواسطہ اور بلاواسطہ روز گار کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ باغبانی شعبۂ کی اسی صلاحیت کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے باغبانی پرتوجہ مرکوز کر کے اس مزید فروغ دینے کے لئے اقدامات اُٹھائے ہیں۔مرکزی وزیر زراعت رادھا موہن سنگھ نے ریاست کے حالیہ دورے کے دوران کہا تھا کہ مرکزی حکومت ریاست میں زرعی شعبوں کی تنظیم نو کے لئے وعدہ بند ہے اور اس کے لئے ہر ممکن مالی امداد فراہم رکھی جائے گی تا کہ2022 تک کسانوں کی آمدن دوگنی ہوسکے۔مرکزی وزیر کو متعلقہ محکمہ کے حکام نے مطلع کیا تھا کہ27 فیصد کسانوں کو سوئل ہیلتھ کارڈ فراہم کئے گئے ہیں تا کہ وہ اپنی زمین کی زرخیزی کا اندازہ لگا سکیں۔ انہیں مزید جانکاری دی گئی تھی کہ ریاست میں مٹی کے تجزیہ کا عمل جاری ہے اور آنے والے مہینوں کے دوران کسانوں کو باقی ماندہ سوئل کارڈ بھی جاری کئے جائیں گے۔مرکزی وزیر نے سوئل ٹسٹنگ عمل میں سرعت لانے کی ہدایت جاری کی تھی اور مٹی کے تجزیے کے دوسرے مرحلے کے لئے مٹی کے نمونے حاصل کرنے کے لئے تمام سوئل ٹسٹنگ لیبارٹریوں کو متحرک کرنے کے لئے کہا تھا۔باغبانی کو ریاستی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہوئے وزیر باغبانی بشارت بخاری نے کہا کہ اس شعبۂ میں ریاست کی معاشی ومعاشرتی صورتحال بہتر بنانے کی وسیع صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس شعبۂ میں نئی جان ڈالنے کے لئے متعدد اقدامات اُٹھارہی ہے۔وزیر آج ڈائریکٹوریٹ آف ہارٹی کلچر کشمیر میں سوئل اینڈ لیف ٹسٹنگ لیبارٹری اور موبائل سوئل ٹسٹنگ لیب کا معائنہ کر رہے تھے جہاں انہیں ماہرین کی ٹیم نے مختلف آزمائشوں کی ڈیمانسٹریشن دی۔موبائل سوئل ہیلتھ کارڈوں کے اجراء کے عمل کا جائیزہ لیتے ہوئے وزیر موصوف کو مطلع کیا گیا کہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران سوئل اینڈ لیف اینالسسز لیبارٹریوں نے صوبہ کشمیر میں10743 مٹی کے نمونوں کا تجزیہ کیا ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ گذشتہ تین برسوں کے دوران4182 مٹی کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا جن میں349 اننت ناگ،1490 بڈگام،307 بارہ مولہ،345 کولگام ،کپواڑہ349 ،پلوامہ384، شوپیاں292اور سرینگر میں373 نمونے شامل ہیں۔وزیر کو مزید بتایا گیا کہ گذشتہ تین برسوں کے دوران مٹی کے نمونوں کا حصول سالانہ900 سے بڑھ کر1500 تک پہنچ گیا ہے اور2016-17 کے دوران صوبہ کشمیر کے مختلف اضلاع کے 1950 باغات سے2730 نمونے جانچ کے لئے حاصل کئے گئے۔ انہیں مزید بتایا گیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے سبب لیبارٹری میں مٹی اور پیڑ پودو ں کی صحت کا جائیزہ لینے کے لئے10 اجزاء کا جائیزہ لیا جاتا ہے جن میں پی ایچ، ای سی ، حیاتیاتی کاربن، نائیٹروجن، فاسفورس، پوٹاشیم، زِنک، آئیرن، میگنز اور کاپر شامل ہیں اور جائیزوں کی ٹسٹ رپورٹ مرکزی وزارت زراعت و بہبودی کسان کی ویب پورٹل پر اپ لوڈ کی جاتی ہے جہاں سے کسان براہِ راست سوئل ہیلتھ کارڈ ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔سوئل ٹسٹنگ لیبارٹری محکمہ باغبانی نے مارچ1995 میں ہارٹی کلچر کمپلیکس راج باغ سرینگر میں قائم کی ہے جس کا مقصد باغ مالکان کی سائنسی خطوط پر رہنمائی کرنا تھا۔وزیر کو مزید بتایا گیا کہ سوئل اور لیف ٹسٹنگ لیبارٹری نے جانکاری و نمائش کیمپ منعقد کر کے مٹی کے نمونے صوبہ کشمیر میں حاصل کئے اور آنے والے مہینوں کے دوران باقی ماندہ علاقوں میں بھی ایسے ہی کیمپ منعقد کئے جائیں گے۔بخاری نے کہا کہ فی الوقت ریاست میں باغبانی شعبۂ کے تحت6 ہزار میٹرک ٹن کے میوہ جات حاصل ہورہے ہیں جبکہ ریاست میں میوہ پیدا کرنے کی صلاحیت 40 ہزار میٹرک ٹن ہے۔