سرینگر// نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر اور صوبائی صدر ناصر اسلم وانی نے پارٹی ہیڈکوارٹر پر اسلام آباد اور سوپور کے الگ الگ اجلاسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ قلم دوات جماعت دفعہ35اے اور خصوصی پوزیشن کے خاتمے کی سازشوں میں بھاجپا ،آر ایس ایس کے ساتھ مکمل اشتراک میں ہے اور اس جماعت سے وابستہ خودساختہ لیڈران کشمیریوں کو گمراہ کرنے کیلئے آئے روز فریب کاری اور مکاری پر مبنی بیان بازی کررہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پی ڈی پی ریاست جموں وکشمیر کیلئے آستین کا سانپ ثابت ہوئی ہے اور یہ جماعت رضاکارانہ طور پر آر ایس ایس کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہوکر کشمیریوں کے مفادات کیخلاف کام کررہی ہے۔ ریاست کو دفعہ35Aکی صورت میں درپیش چیلنج کے بارے میں تبادلہ خیالات کرنے کے علاوہ پارٹی امور اور موجودہ سیاسی صورتحال کے علاوہ لوگوں کے مسائل اور مشکلات کا بھی خلاصہ کیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دونوں لیڈران نے کہاکہ پی ڈی پی حکومت کو ریاست کی خصوصی پوزیشن میں آئینی ترمیم کیلئے ایک سیاسی ہتھیار کے بطور استعمال کیا جارہا ہے۔یہ محبوبہ مفتی اور پی ڈی پی ہی ہے جنہوں نے دفعہ35Aپر حملے کی گنجائش پیدا کی۔ جموں و کشمیر میں جی ایس ٹی کے اطلاق کے بعد پی ڈی پی مخلوط حکومت ریاست کا آبادیاتی تناسب بگاڑنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہے۔انہوں نے کہاکہ ریاست اور ریاست کے لوگوں کے جمہوری ، آئینی اور سیاسی حقوق کیلئے مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی ان تھک جدوجہد تاریخ میں سنہری حروف درج ہے اور ہر کسی کو اس عظیم لیڈر کی قربانیوں سے متعلق جانکاری حاصل کرنے کیلئے تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ عظیم قربانیوں اور جدوجہد کی بدولت ہی جموں وکشمیر کو ایک منفرد شناخت حاصل ہوئی اور ہم کسی کو بھی اپنی اس پہنچان اور سیاسی حقوق پر ڈاکہ زنی کرنے کی اجازت نہیں دیں۔ انہوں کہاکہ پی ڈی پی مخلوط اتحاد اور مرکزی حکومت کی ملی بھگت سے صدارتی حکمنامے کے ذریعے جموںو کشمیر میں جی ایس ٹی کا اطلاق عمل میں لاکر ریاست کی مالی خودمختاری پر شب خون مارا گیا۔ ابھی ریاست کی خصوصی پوزیشن پر جی ایس ٹی کے اطلاق کا زخم ہرا ہی تھا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کو آگے لے جاتے ہوئے دفعہ35Aکی موجودگی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ پی ڈی پی یہاں کی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود اس سب میں ایک معاونت کار ثابت ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس دفعہ35Aکی حفاظت کیلئے ہر ایک ممکن قدم اٹھائے گی، ہم نے پی ڈی پی کی طرح اپنے ضمیر گروی نہیں رکھے ہیں۔ دفعہ35Aکیخلاف لڑائی جموں، کشمیر اور لداخ کے لوگوں کیلئے بقاء کی جنگ ہے اور کسی بھی پشتینی باشندے کو اس میں پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔اجلاس سے شمالی کشمیر کے زون صدر ایڈوکیٹ محمد اکبر لون، سینئر لیڈر محمد سعید آخون، صوبائی سکریٹری شوکت احمد میر، ضلع صدر اسلام آباد ڈاکٹر محمد شفیع، ایم ایل اے الطاف احمد کلو، سابق ایم ایل سی ڈاکٹر بشیر احمد ویری، ڈاکٹر رفیع احمد کوچک، ضلع صدر بارہمولہ جاوید احمد ڈار، سابق ایم ایل اے سوپور حاجی محمد اشرف گنائی نے بھی خطاب کیا۔اس موقعے پر یوتھ اور خواتین ونگ کے عہدیداران بھی موجود تھے۔
دفعہ35اے کی حفاظت اجتماعی نجات کی متحدہ جنگ
سماج کے سبھی طبقوں کو سامنے آنا ہوگا:مظفر شاہ
بلال فرقانی
سرینگر// دفعہ35Aکی حفاطت کواجتماعی نجات کی متحدہ لڑائی قرار دیتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ غلام محمد شاہ کی جماعت عوامی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر مظفر احمد شاہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کی اہمیت محض مقامی نہیں اس کی سرحد بر طانوی ہند کے چین، تبت، پاکستان اور روس کے ساتھ ملحق ہے۔ عوامی نیشنل کانفرنس کے سنیئر نائب صدر مظفر احمد شاہ نے دفعہ35Aکے ساتھ چھڑ چھاڑ کو حسا س مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس حساس مسئلے پر ذاتی سیاسی مفادات کو ترک نہیں کیا گیا تو ہمیں باضمیر ہم وطنوں میں شمار نہیں کیا جائے گا۔سرینگر میں پارٹی دفتر پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مظفر شاہ نے کہا کہ ہمارے آئینی اور اقتصادی حقوق سلب کرنے کی یلغار ہو رہی ہے اور بلا واسطہ عدالتوں کے ذریعہ ہمارے مستقبل کا شکنجہ کسنے کا سازشی منصوبہ عملانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ محبت و طن لوگوں میں تشویش پیدا ہو رہی ہے اور ان سازشی ہتھکنڈوں کا متفقہ طور پر مقابلہ کرنے اور ناکام بنانے کی واحد صورت آئینی ، قانونی سیاسی، سماجی اور معاشرتی سطح پر تینوں خطوں کے لوگ سراپا احتجاج بن کر دفعہ35-A کو زندگی اور موت کا سوال سمجھتے ہوئے بنیادی حقوق اور انسانی ذمہ داریوں کا تحفظ کرنا چاہئے۔مظفر احمد شاہ نے کہا’’ یہ وہ حقوق ہیں جو آئین ہند نے ریاست کے باشندوں کو دے ہیں،لیکن بد قسمتی سے پہلے پرجا پرشید کے نام سے پھر جن سنگھ کے نام سے اور اب بی جے پی کے جھنڈے تلے اقتصادی ،سیاسی،تہذیبی معاشرتی اور مذہبی امورات کو نشانہ بنانے کی مہم شروع کی گئی ہے‘‘۔ عوامی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا یہ معاملہ سمجھ سے باہر ہے کہ دفعہ 35-A کے تحت اگر دستور ہند میں کشمیر جموں اور لداخ کو ایک امتیازی حیثیت ملی ہے،تو موجودہ مرکزی حکومت دفعہ 370اور 35-A کو ختم کرنے پر کیوںتلی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ’’ پہلے صدر ہند ڈاکٹر راجندرپر شاد نے کشمیر کی 100سالہ شخصی غلامی کے عذاب کو مدنظر رکھ کر اور آئینی ہند میں خصوصی پوزیشن دینے کے بعد اور دہلی اگر یمنٹ کے بعد ہی 35-Aکے نفاذ کو اگر ضروری سمجھا تھا،تو آج کشمیر میں شہد اور دودھ کی کونسی نہر یں بہتی ہے کہ بی جے پی والوں ، پاکسی فرقہ پرست عناصر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35-A کو خارج کر وانے کی مجبوری پیش آرہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ1952میں اس نوعیت کا حملہ کیا گیا، پھر حد بندی کا تنازعہ کھڑا کیا گیا،اس کے بعدسر نو بحالی سامنے لایا گیااور اب 35-A کا خاتمہ کرکے پھر سے ریاست کو غیرریاستی لوگوں کے آہنی ہتھکنڈوں میں جکڑنے کا منصوبہ آزمایا جا رہا ہے۔انہوں نے24 مئی 1977کے اس وقت کے وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا’’ آئین کی دفعہ 370 جس کی رو سے کشمیر کو ایک حصوصی پوزیشن حاصل ہے ،مرکزی سرکار تبدیل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے‘‘۔مظفر احمد شاہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے جب ماضی میں آئین اور منشور بنایا اس میں صفحہ 37دفعہ 6 کے تحت یہ بات پاس کی گئی کہ وطن کی حفاظت کرنا ہر وطنی کا اولین اور پاکیزہ فرض ہوگا،جبکہ وطن کے دشمنوں سے ساز باز رکھناوطن سے غداری کے برابر ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اس آئین میں کہا گیا کہ’’ حفاظت وطن کے مقدس فرض کو انجام دینے کے لئے ہر ایک وطنی پرلازم ہوگاکہ وہ اپنے آپ کو ہتھیار اٹھانے میں تربیت یافتہ بنائے جبکہ ہتھیار رکھنے اور استعمال کرنے کا حق باشند گان وطن میں سے ہر شخص کوحاحل ہوگا،تاہم راشٹر یہ سویم سنگھ نے اپنی جماعت کے کارکنوں کو مخصوص وردی اور لاٹھی ہتھیار اٹھانے کا حق بھی دیا ہے،تاہم ہم غافل رہے۔