کپوارہ //ہندوارہ کے رامحال ویلگام جنگلات میںفوج کے ہاتھوں ایک طالب علم کی ہلاکت کی مجسٹرئیل انکوائری کے احکامات صادر کئے گئے ہیں۔ اس دوران جمعرات کو طالب علم کی ہلاکت کے خلاف رامحال کا علاقہ اُبل پڑا جس کے دوران ہزاروں مظاہرین نے ہلاک شدہ نوجوان کی لاش تارت پورہ چوک میں رکھ کر دفنانے سے انکار کیا اور مشتعل ہوکرایک سرکاری گاڑی نذر آتش کرنے کے علاوہ کئی دیگر گاڑیوں کی شدید توڑ پھوڑ کی ۔ تاہم ڈپٹی کمشنر کی طرف سے معاملے کی نسبت فوج کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے، طالب علم کے معصوم ہونے کی سند جاری کرنے اور واقعہ کی انکوائری کے احکامات کے بعد طالب علم کو سپرد خاک کیا گیا۔اس دوران کپوارہ ضلع میںاحتیاط کے بطور موبائیل انٹر نیٹ سروس معطل رکھی گئی جبکہ تمام تعلیمی ادارے بند رہے۔ہفرڈہ جنگل میں جاری فوجی کارروائی کے دوران ایک نوجوان جاں بحق ہوا جس کے بارے میں ابتدائی طور یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ ایک جنگجو ہے ۔تاہم بعد میں اس کی شناخت23 شاہد احمد میر ولد بشیر احمد میر ساکن دریل تارت پورہ ہندوارہ کی گئی ۔شاہد کی میت بدھ کی شام7بجے لواحقین کے سپرد کی گئی تو لوگ گھروں سے باہر آئے اور انہوں نے میت مین چوک تارت پورہ میں سڑک کے بیچوں بیچ رکھ کر اسلام اور آزادی کے حق میں زوردار نعرے بازی کی۔شاہد کی میت رات بھر اس کے گھر پر رکھی گئی اور وہاں پوری رات غم و الم کے ماحول میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔کشیدہ صورتحال کے باعث حکام نے پورے کپوارہ ضلع میں رات دس بجے سے احتیاط کے بطورموبائیل انٹر نیٹ سروس بند کردی جو جمعرات کی شام4بجے بحال کردی گئی۔جمعرات کو پورے کپوارہ ضلع میں انتظامیہ کی ہدایات پر تمام تعلیمی ادارے بند رہے۔اس دوران ویلگام، تارت پورہ اور ملحقہ علاقوں میںمکمل ہڑتال کے بیچ صبح سویرے ہی مردوزن کی ایک بڑی تعداد نے احتجاجی مظاہرے شروع کئے۔حالانکہ علاقے میں احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر حساس مقامات پر پہلے ہی پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی طالب علم کی میت ایک مرتبہ پھر تارت پورہ چوک میں رکھ کر اسے تب تک دفنانے سے انکار کیا گیا جب تک نہ فوج کے خلاف آر پی سی کی دفعہ302کے تحت کیس رجسٹر کرکے مہلوک طالب علم کے حق میں پولیس کی این او سی جاری کی جائے۔ اسی اثناء میں ڈپٹی کمشنر کپوارہ خالد جہانگیر پولیس اور انتظامیہ کے دیگر افسران کے ہمراہ تارت پورہ پہنچے اور مظاہرین کو سمجھا کر منتشر ہونے اور طالب علم کو سپرد خاک کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔تاہم لوگوں نے احتجاج جاری رکھا اور وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ فوج کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرکے شاہد کے معصوم ہونے کی سند ان کے سپرد کی جائے۔ اس دوران نوجوان مشتعل ہوئے اور انہوں نے ایک سرکاری اسکارپیو گاڑی پر دھاوا بول کر پہلے اس کی توڑ پھوڑ کی اور بعد میں اسے نذر آتش کردیا۔مشتعل ہجوم نے ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ سیکورٹی سے وابستہ دو گاڑیوں کی توڑ پھوڑ بھی کی اور ان کو پلٹ کر رکھ دیا ۔چنانچہ پولیس نے جوابی کارروائی عمل میں لاتے ہوئے مظاہرین پر قابو پانے کیلئے اشک آور گیس کے گولے داغے ۔ نوجوانوں نے مختلف اطراف سے پولیس پر پتھرائو کیا جس پر پولیس کو ہوا میں گولی بھی چلانا پڑی۔بعد میں پولیس اور فورسز کی مزید کمک طلب کرکے صورتحال پر قابو پالیا گیا ۔ اس دوران مظاہرین کی مانگوں کو لیکر ڈپٹی کمشنر خالد جہانگیر نے علاقے کے بڑے بزرگوں کے ساتھ میٹنگ کی جو قریب ایک گھنٹے تک جاری رہی۔میٹنگ کے دوران ڈی سی کپوارہ نے لوگوں کو یقین دلایا کہ معاملے کی نسبت فوج کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔ معلوم ہوا ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے شاہد احمد کے حق میں پولیس کی طرف سے جاری کی گئی نو اوبجکشن سرٹیفکیٹ بھی شاہد کے لواحقین کے سپرد کی جس میں طالب علم کو ایک عام شہری قراردیتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ اس کا ملی ٹینسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔میٹنگ ختم ہوتے ہی شاہد احمد میر کو آبائی مقبرے میں پر نم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔اس کی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور اس موقعے پر اسلام وآزادی کے حق میں فلک شگاف نعرے بلند کئے گئے۔طالب علم کی تجہیز و تکفین کے دوران پورے علاقے میں پولیس اور فورسز کے سینکڑوں اہلکار تعینات رہے اور اسکے بعد نوجوانوں کی ٹولیاں ایک مرتبہ پھر احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں۔بعد میں پولیس میںطالب علم کی ہلاکت اور گاڑی نذر آتش کرنے کے دو کیس درج کئے گئے۔طالب علم کی ہلاکت کے سلسلے میں کیس زیر نمبر2017/81درج کیا گیا تاہم اس میں فوج کا ذکر نہیں ہے۔ڈپٹی کمشنر کی گاڑی نذر آتش کرنے کے معاملے پر بھی کیس زیر نمبر2017/82زیر دفعہ307,436,145148درج کیا گیا۔ڈپٹی کمشنر کپوارہ خالد جہانگیر نے کہا ہے کہ واقعہ کی مجسٹرئیل انکوائری کے احکامات صادر کئے گئے ہیں اور تحقیقاتی آفیسر کو ایک ہفتے کے اندر اندر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔