صیقل ِ باطن اور قوائے روحانی کی شستگی کیلئے اللہ رب العزت نے رنگا رنگ طریقے مشروع فرمائے۔ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، وضوء وغیرہ جملہ عبادات روحانی ترقی اور باطنی صفائی کا کتنا بڑا کردار ادا کررہے ہیں ؟!! گویا اس ذات بے رنگ اور بے مثل کی بارگاہ میں نیازمندی اور اظہارِ عبودیت کیلئے ، طرح طرح کی عابدانہ تصویریں بندے کے اعضاء کی دن و رات کی حرکات و سکنات اور چہل پہل میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ ’’ حجِ بیت الٰہی ‘‘ اس کا ایک کامل و مکمل اور امتیازی نمونہ ہے جس میں بندہ عاشقانہ انداز میں جسمانی و مالی تکالیف کا تحمل کرکے ایسا مقام کی جانب سفر کرتا ہے جو اللہ کی قربت اور تجلیات کا گھر ہے ۔ جہاں انبیاء ، صلحاء و اتقیاء کی پیشانیاں اللہ کی نیازمندی میں جھکی ہیں۔ جو صالحین اور اللہ والوں کا منزل ِ سفرہے جو اپنے پروردگار کی توجہات و عنایات کو حاصل کرنے کیلئے ، دوڈتے لپکتے ، سر کے عمامے و ٹوپی سے بے خبر ، مانوس لباس سے بے پروا ، زینت کی چیزوں سے الگ دیوانہ وار ،ایک لبیک کے ساتھ سر بسجود ہوتے ہیں ۔
حج بڑی حکمتوں اور اسرار پر مشتمل ہے جن میں مسلمان کے ہر طرح کے ظاہری و باطنی مصالح پھیلے ہوئے ہیں۔جیسا کہ قرآن ِ کریم نے اس کی جانب اشارہ کیا ہے’’ تاکہ اپنے فائدوں کیلئے آموجود ہوں‘‘۔ 🙁 الحج: ۲۸)
حج کے احکام و اعمال انسانی طبیعت و فطرت میں روحانی گداز پیدا کرتے ہیں جو دوران ِ حج انسان کے صبر ، سادگی ، تواضع ، ہمدردی ، تعاون کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اسرار ِ حج پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’نفس کی طہارت کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ آدمی کسی ایسے مقام میں قیام پذیر ہو ، صالحین جسے قابل ِ تعظیم سمجھتے ہوں ، اس میں زیادہ رہتے ہوں اور ذکر ِ الٰہی سے اس کو آباد کرتے ہوں ۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسانی طبیعتوں پر بھی اس کا عکس نظر آتا ہے ‘‘ ( حجۃ اللّٰہ البالغۃ: ۱؍۲۶۱ ط: حجاز)۔ گویا حج پرہیزگاری کا ایک عظیم ذریعہ اور تربیتی و اصلاحی مشق ہے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ یہی اصل اور بنیادی مقصد ہے ۔ سورۂ بقرہ آیت۱۹۶ میں ہے :
ترجمہ: ’’ حج کے چند مہینے معلوم ہیں ۔ جو کوئی ان میں اپنے اوپر حج مقرر کرے تو نہ اس کے لئے فحش بات جائز ہے اور نہ کوئی بے حکمی درست ہے نہ کسی قسم کا نزاع و تکرار زیبا ہے ( بلکہ نیک کاموں میں مشغول رہنا ہی حج ہے)۔ اور جو نیک کام کرو گے خدا تعالیٰ کو اس کی اطلاع ہوتی ہے ۔ اور زادِ راہ لیا کرو اور بہترین زادِ راہ تقوی ہے ۔اور اے ذی عقل لوگو ! مجھ سے ڈرتے رہو ‘‘۔ (البقرۃ: ۱۶۵)
پرورگار سے رشتہ محض قانون کا نہیں ، جو فرائض و واجبات کے دائرہ تک محدود ہو ۔ بلکہ قانون کے ساتھ ساتھ محبت و عشق کا رشتہ مضبوط کرنا بھی ایک مومن کے لئے ناگزیر ہے ۔سورۂ بقرہ میں ہے : ’’اور ایمان والے اللہ سے مضبوط محبت رکھتے ہیں ‘‘۔
حج بیت اللہ، عشقِ الٰہی کے تجدید کا عظیم محرک ہے۔ جہاں صرف آنسو ہیں جو عشق کی آنکھوں سے بہتے ہیں ۔ محبت کے شعلے ہیں جو سچے دل سے اُٹھتے ہیں ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ جو اسرار شریعت اور حکمتوں کی جانکاری میں یکتائے روزگار ہیں ، انہوں نے اس نکتے کو خوب واضح کیا ہے، لکھتے ہیں : ’’ کبھی عاشق انسان کو اپنے محبوب پروردگار کی حد درجہ اشتیاق ہوتا ہے ، تو وہ عشق و محبت کی تپش اور بے قراری کے لئے دوا کی تلاش میں رہتا ہے ۔ تو اس وارفتگی کی تسکین اسے صرف حج میں دستیاب ہوسکتی ہے‘‘ ۔( حجۃ اللہ البالغہ: ۱؍۱۴۲ )
حج مسلمانوں کا عالمی دینی اجتماع ہے ۔ حج وحدت کا ایک عظیم نمونہ ہے ۔ اس موقع پر اطراف عالم کے کروڑہا مسلمان ، الگ الگ شکلیں رکھنے والے ، مختلف زبانوں کے بولنے سمجھنے والے ، مختلف مزاجوں کے مالک ، ایک ہی لباس کے ساتھ ایک ہی مرکز میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ملّی اتحاد کا ایک ہی نعرۂ لبیک ان کی زبانوں پے رواں ہوتا ہے: لبیک اللھم لبیک لا شریک لک لبیک ۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسی یک جہتی اور ہم اہنگی ہے، یکتائی اور مساوات ہے جو دلوں پر اپنا اثر چھوڑے بغیر نہیں رہتی۔ قرآن کریم کی آیات کو ملاحظہ کیجیے :
’’ ہم نے بیت اللہ کو رجوع اور امن کا مقام بنا دیا‘‘۔ ( البقرۃ: ۱۲۵)
’’ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کے مقدس گھر کو لوگوں کے لئے قیام کا سبب بنایا‘‘۔( المائدۃ: ۹۷ )
’’بلا شبہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا وہ گھر مکہ میں ہے ، برکتوں والا ہے اور سارے جہانوں کیلئے ہدایت کا ذریعہ ‘‘۔ ) ( آل عمران: ۹۶)
ان آیات سے ظاہر ہے کہ حج ِبیت اللہ اہل توحید کیلئے عالمی اتحادی مرکز اور بین قومی اجتماع گاہ ہے ۔ چناںچہ ا للہ تعالی نے حضرت ِ ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا تھا جب انہوں نے کعبہ کی تعمیر مکمل فرمائی : ترجمہ: اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو ، لوگ تمہارے پاس پید ل چل کر اور دبلی اونٹنیوں پر سوار ہوکر آئیں گے دور دراز جگہوں سے ۔ ( الحج : ۲۷)حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے کہا : اے میرے رب! لوگوں تک کیسے پہنچاؤں ، میری آواز ان تک نہیں پہنچے گی۔ تو اللہ نے فرمایا : تم آواز لگاؤ اور پہنچانا ہمارے ذمے ہے ۔چناںچہ ابراہیم علیہ السلام مکہ معظمہ میںجبل ِ ابی قبیس پر کھڑے ہوئے اور کہا : ’’تمہارے رب نے اس گھر کے حج کا حکم کیا ہے تاکہ جنت کا انعام دے اور جہنم سے مامون رکھے، تم اس کاحج کرو ‘‘ ، سنناتھا کہ پہاڑ جھک گئے، یہاں تک کہ آواز زمین کے کناروں تک پہنچی اور انہوں نے بھی سن لیا جو رحم میں تھے اور جو ابھی صلب میں تھے اور اس نے بھی سن لیا جس پر اللہ نے مقدر کیا تھا کہ وہ حج کرے (قرطبی: ۱۴؍۳۶۰، ابن کثیر: ۱۰؍ ۴۲ )۔گویابیت اللہ، اللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلمانوں کا عالمی اجتماع و اتحاد گاہ ہے ۔ اس کو مرکزیت حج کی وجہ سے حاصل ہے۔اور مسلمانانِ عالم کا اس مبارک مقام پر اکٹھا ہونا ، اس کے ساتھ یکساں طرز کا سادہ لباس پہننا ، نعرہ میں یک زبان ہونا اور اکٹھے اکٹھے مناسک ادا کرنا وحدت کا عظیم تصور پیش کررہا ہے ۔ حج عالمی امن قائم رکھنے کی ایک بے مثال بڑی تحریک ہے ۔اسلام نے جنگی جنون کو اشہر حرم یعنی ذو القعدہ ، ذو الحجہ ، محرم اور رجب ( جن میں تین مہینے حج ہی کے ہیں ) کے ذریعے ہی توڑا ۔ اسی کی وجہ سے راستے پرامن ہوئے ۔ لوگوں نے راحت کی سانس لی اور قیام امن کے لئے حج ایک معاون ثابت ہوا ۔ اسی حج کی وجہ سے مکہ مکرمہ محترم قرار پایا جو رہتی دنیا تک امن کاشہر ہے (القصص: ۵۷)۔ اس میں کنارۂ دنیا سے آنے والے کیلئے بھی وہی امن ہے جو ایک مکی باشندے کا ہے، انسان تو کیا حیوانات و نباتات کو عیش و آرام اور امن کا مضبوط حق دیا گیاہے۔
حج مساوات کا عظیم پیغام دیتا ہے ۔ اس میں نسلی ، وطنی ، رنگ و بو کا کوئی امتیاز نہیں ۔ حقوق سب کے برابر ہیں ۔ مقام عشق ِ الٰہی کے مظاہرہ کا ہے ، تو مادی و نسلی یعنی دنیاوی امتیازات کو ایسے مقام پر کیسے پناہ مل سکتی ؟؟! !! ۔ نیاز مندی بھی ایسے رب کے حضور جس نے ان جیسے امتیازات پر ابدی پابندی لگادی ہے۔ چناںچہ مکہ کی سرزمین جس طرح وہاں کے باشدوں کے لئے ہے ایسے ہی دنیا کے آخری حد سے آنے والے کے لئے ہے ۔کوئی حرم کی زمین میں ملکیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ جو شخص جس جگہ بیٹھا ، کسی کو ہٹانے کا کسی کو حق نہیں ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ جو جس مقام پر اُتر جائے وہ اسی کی ہے ‘‘ ۔قرآن نے اس کی جانب اشارہ کیا : ۔ ’’ دور سے آنے والا اور وہاں کا رہنے والا دونوں برابر ہیں ‘‘۔( الحج: ۲۵)
اخلاق کی بلندی ایک مسلمان کی باطنی روح ہے ۔ احادیث میں صاحب اخلاق آدمی کی کئی بشارتیں وارد ہیں ۔ حج اخلاق کی بلندی کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ حج میں مشقتیں ہیں ،سفر کی تکلیفیں ہیں ۔ ایک ایسی اجتماعی زندگی کا سامنا ہے ، جس میں ہر مزاج کے لوگ ہیں، تو ان حالات میں شریعت کا حکم ہے :ِ نہ فحش بات جائز ، نہ کسی طرح کی حکم عدولی اور نہ کسی قسم کا نزاعی تکرار۔ حج ایک اجتماعی نظام ہے اور مشقت کا سفر ہے اور اجتماعی زندگی اور مشقت کے سفر میں عام طور سے انسان مشقتوں اور پریشانیوں کا سامنا زیادہ کرتا ہے تو ان حالات میں انسان اخلاقی توازن کھو بیٹھتا ہے ، جس سے خلاف شرع کاموں کا صدور یقینی ہے ، اسلام نے دورانِ حج ان چیزوں پر قطعی پابندی لگادی ، تاکہ انسان اخلاق کے بلند معیار کو پا سکے ۔
ہر دین کے لئے خاص نشانیاں ہیں جس سے اس دین کا تعارف ہوتا ہے ۔ اسلام کے تعارف کے لیے بھی شریعت نے نشانیاں مقرر کی ہیں اور اسے ’’ شعائر ‘‘ کا لقب دیاہے۔شعائر کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ ان سے صحیح معنی میں محبت اور تعظیم ہو۔ قرآن کہتا ہے : ’’ جو لوگ خدا کی قائم کی ہوئی یادگاروں کی تعظیم کرتے ہیں تو یہ ان کے تقویٰ پر دلالت کرتی ہے ‘‘۔ حج ِ اسلام کا تعلق شعائر اسلام سے ہے ۔ حج کے دوران شعائر ِ اسلام کی قلبی تعظیم کے ساتھ ساتھ ، ظاہری تعظیم کا موقع بھی ملتا ہے ، جس سے روح ِ ایمانی کو صحیح غذا میسر ہوتی ہے جو انسان کی زندگی کے سدھار کے لئے ایک عمدہ کردار ادا کرتا ہے۔
حج کا مقصدیہ بھی ہے کہ ملت ِ اسلامیہ کے معمار کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تجدید ِ تعلق ہو۔ امت مسلمہ کو ان سے ملی ہوئی وراثت کی حفاظت کی جائے اور ان کے طے کردہ دعوتی طور طریقہ اور بنیادوں کو عام کیا جائے ۔ خرافات و تحریفات کا ابطال ہو۔ اپنے نفس کا احتساب ہو (حجۃ اللہ البالغہ: ۲؍ ۸۷)۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ مقامات ِ حج پر ٹھہرو ؛ کیونکہ تم اپنے والد ( ابراہیم ؑ ) کی وراثت پر ہو‘‘ ۔اس سے معلوم ہوا کہ حج ابراہیمی ؑ نظریات و افکار کا یادگار ہے ۔ بصیرت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو عیاں ہوگا کہ ابراہیم کدۂ حجاز کا ذرہ ذرہ براہیمی ؑ تعلق کو بیان کرتا ہے اور مقامات مقدسہ عشق ِ ابراہیمی ؑکے غلغلۂ روحانیت سے گونجتارہتا ہے ۔اس خاص الخاص رشتہ کا تقاضہ یہی ہے کہ ابراہیمی ؑوصیت کو ہم دل وجان سے لبیک کہیں۔ فرمایا : ’ اللہ نے تمہارے لئے ایک برگزیدہ دین( اسلام ) منتخب فرمایا تم اس پر قائم رہتے رہتے مرنا‘‘۔ ( البقرۃ : ۱۳۲)
رابطہ :دارالعلوم سوپور کشمیر
8491019816