اکبرؔ جے پوری کے شعری محاسن میں جو چیز قاری کو زیادہ متاثر کرتی ہے و ہ یہ کہ اکبرؔ جے پوری اپنے ماحول سے متاثر ہیں اورا ن کا تجربہ یقینا حال کا تجربہ ہوتا ہے۔ اکبر جے پوری نے اپنی شعروشاعری میں اپنے دل پر گزری واردات کو سیدھی سادھی زبان میں اس طرح ادا کیا ہے کہ پڑھنے والوں کو محسوس ہوتا ہے گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ اکبر کے کلام میں غم جاناں اور غم ِدوراںکی ہی عکاسی نہیں ملتی بلکہ ان کے یہاں علاوہ ازیں دنیوی نا ہمواریوں پر طنز بھی چھلکتا ہے۔ان میںرات کی تاریکی میں ٹوٹے ہوہے تارے کی طرح خاموش صدا ،بے خودی اور استعجاب کی ملی جلی کیفیات اور حزن وملال میںڈوبی ہوئی سوچ کے عناصر سے تشکیل پائی ہے۔اکبرؔجے پوری کی شاعری اُن کی زندگی میں پیش آنے والی دشوار گذار مراحل کی آئینہ دار ہے۔آپ نے ہندوستان کے مختلف علاقوںکا سفر کیا ، فطرت کی نیرنگوںاور کائنات کے رنگارنگ مظاہرکا باریک بینی سے مشاہدہ کیا ، یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام میں سنجیدگی اور خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ خلوص اور یقین بھی بے انتہا موجود ہے،ان اشعار میں جذبوں کی رعنائی ہے جو زندگی کی صورت گری کرتی ہے۔انہوں نے روش عام سے ہٹ کر سچے جذبات کوشعری کے قالب میں سمودیا ہے،ایسی شاعری جس کی اساس حقیقی جذبات اور محسوس خیالات پر استوار ہوتی ہے۔وہ غزل کی زبان، ِاسالیب ِاظہاراور فنی تقاضوںسے خوب واقف ہیں۔اس شاعری میں محض غم ِذات ہی نہیں بلکہ غم کائنات اور عصری زندگی کی الم ناکیاں بھی ہیں ۔اکبرؔجے پوری کی آوازیقینا نئی لے میں ڈھلی ہے ، یہ دل ِوجود کو چونکا دینے والی آواز ہے،اس کالہجہ جدید اور منفرد ہے،اس کی زبان سادہ اورشگفتہ ہے۔اکبرؔجے پوری کی فکر کا میدان وسیع ہے۔ غزل، سلام،مرثیہ اور نظم ہر صنف میں ان کی کاوش موجود ہے،لیکن غزل گوئی کی طرف ان کی توجہ زیادہ رہی اوراسُ صنف میں کافی بیش قیمت سرمایہ چھوڑا ۔غزل میں وہ تغزل کی قدیم روایت کے پابند ہیںاور اسُ روایت کو اسُ طرح زندہ وجاوید کیا کہ ان کی غزل پڑھتے ہوئے ہم اپنے آپ کو متاخر ین ِ لکھنو کے شعراء میں پاتے ہیں۔ہمارے اپنے عہد میں اس رسم ِکہن کا زندہ کرناآ سان کام نہیں تھالیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اکبرؔصاحب نے اس طرزِ خاص کے اساتذہ کا مطالعہ بڑی توجہ سے کیا ہے، نتیجہ یہ کہ ان کی غزل گوئی تغزل کے انہیں معیاروںکو چھورہی ہے۔تاہم وہ ہماری صدی کے شاعر ہیںجس کے اپنے مسائل ہیں،جو براہ راست یا بلاواسطہ ادباء اور شعرا ء کو اپنی جانب کھینچ ہی لیتے ہیں۔اس ضمن میں خیال کی اڑان اور اسلوب ِ بیان دونوں ہی شامل ہیں۔ایسی کئی مثالیں اکبرؔ کی غزلوں میں ملتی ہیں۔ان کے کچھ غزلیہ اشعارجن سے انُ کی ذات کی انفرادیت یا عصری تقاضوں کی جھلک ملتی ہے، پیش خدمت ہیں ؎
انسان حقیقت تھا،انسان فسانہ ہے
وہ اور زمانہ تھا،یہ اور زمانہ ہے
ترے کوچے میںآنکھیںدیکھتی ہیں
صفت سنتے تھے جو باغ جناں کی
ہر شام کے پردے میں،ہوتی ہے سحرپنہاں
مرنا بھی حقیقت میں،جینے کا بہانہ ہے
ڈوبنے والے ہی اب تہہ کا پتہ کچھ دیں تو دیں
نا خدا تو عمر بھر ارمانِ ساحل میں رہا
غزل میں بھی ہم کو کچھ نئے اسلوب اورنئے اندازمل جاتے ہیں ؎
گد گدا کر آپ دل کو ناخن ِ شمشیر سے
ہر دہان زخم کا پھر مسکرانا دیکھئے
اے دل نہ جائے ہاتھ سے میدانِ اضطراب
بحثث آپڑی ہے برق سے اے جان اضطراب
مجرم عشقِ ہوں مگر ایسا
حسن بھی جس کو پارسا جانے
اوپر کی مثالوں میںفکر کے کچھ گوشے ہمارے سامنے آتے ہیں،اور اسلوب بھی پسندیدہ ہے اور بیان میںاستعارہ کا انداز، جو ادب کی مقبولیت کا اہم جز ہے،انُ میں شاعر نے کچھ مسائل پیش کئے ہیں۔انُ کے مقابل بعد کے دو شعر تغزل کے ہیں،تاہم انُ کے اندازمیں بھی ندرت موجود ہے۔ذیل کے شعر محض روایت کے پابند ہیںاور ایسے شعر جگہ جگہ مل جاتے ہیں،
جہاں میں دھوم ہے حسنِ بُتاں کی
یہ ہے شوخی مرے طرز ِبیان کی
لحاظِ خاطرِصیادہے جو اس طرح چپ ہوں
قفس کو تھوڑ کر کیا مجھ کواُڑجانا نہیںآتا
زبان و بیان کے لحاظ سے یہ اچھے شعر ہیں،تاہم یہ روایت قدیم کے پابندہیںاور غزل کے اس انداز میں ایک ہلکا پھلکا پن موجودہے جو عام قاری کے ذہن کو زیادہ متاثر کر تا ہے۔شاید اکبرؔ کا یہ شعراسی طرف اشارہ ہے ؎
گواہی دے رہا ہے گلستانِ شاعری اکبرؔ
کہ میری طرح سب کو پھول برسانا نہیں آتا
ریسرچ اسکالر،یونیورسٹی آف میسور
ای میل fayazshuby@gmail.