کپوارہ//کالج طا لب علم کی مبینہ فرضی جھڑپ میں ہلاکت کے خلاف جمعہ کو سرحدی ضلع کپوارہ میں جمعہ کو مسلسل دوسرے روز بھی ہڑتال رہی ،جسکے وجہ سے یہاں معمو لات زندگی متاثر ہو کر رہ گئے ۔ضلع بھر میں تعلیمی ادارے بند رہے جبکہ موبائیل انٹر نیٹ خدمات بھی منقطع رکھی گئیں ۔ شمالی ضلع کپوارہ میں مبینہ فرضی جھڑپ کے دوران فوج کے ہاتھوں ایک طالب علم کی ہلاکت کے خلاف اس سرحدی ضلع کے مختلف حصوں میں جمعہ کو مسلسل دوسرے دن مکمل ہڑتال کی وجہ سے معمول کی زندگی مفلوج رہی۔نمائندے کے مطابق طالب علم کی ہلاکت کے خلاف اگر چی کسی مزاحمتی تنظیم نے ہڑتال کی کال نہیں دی تھی ،تاہم اسکے باجود کپوارہ میں جمعہ کو احتجاجی ہڑتال رہی ۔معلوم ہوا ہے کہ کپوارہ میں جمعہ کو ہر طرح کے دکا نات اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ تعلیمی اداروں میں بھی درس وتدریس کا عمل معطل رہا۔اس دوران سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب رہا جسکی وجہ سے یہاں ہر سو ہو کا عالم دیکھنے کو ملا ۔ہڑتال کی وجہ سے سرکاری ونجی دفاتر اور بینکوں کا روزمرہ کام کاج بھی متاثر رہا۔معلوم ہوا ہے کہ ممکنہ احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر سرحدی ضلع کپوارہ کے حساس علاقوں میں سیکورٹی کے کڑے انتظامات کئے گئے تھے اور فورسز کی اضافی تعیناتی بھی عمل میں لائی گئی تھی ۔اس دوران سماجی رابط ویب سائٹوں پر افواہ بازی کو روکنے کیلئے ضلع انتظامیہ کی ہدایت پر ضلع بھر میں موبائیل انٹر نیٹ خد مات عارضی طور منقطع رکھی گئیں ۔ضلع انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ کپوارہ ضلعے میں لوگوں کی نقل وحرکت پر کوئی پابندیاں نافذ نہیں کی گئیں، تاہم امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ حساس علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری بدستور تعینات رکھی گئی ہے۔واضح رہے کہ فوج نے 22 اگست کو ہندوارہ کے ہفروڈہ جنگل میں ایک مسلح تصادم کے دوران ایک عدم شناخت جنگجو کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم محض ایک روز بعد تارتھ پورہ ہندوارہ کے رہنے والے بشیر احمد میر نے فوج کی جانب سے جنگجو قرار دئے گئے نوجوان کی شناخت اپنے لاپتہ بیٹے شاہد احمد میر کے بطور کی۔اس واقعہ پر ہندوارہ اور کپوارہ میں شدید مظاہرے کئے گئے ،جس دوران انتظامیہ نے مبینہ فرضی جھڑپ کے اس واقعہ کی مجسٹریل انکوائری کے احکامات صادر کئے ۔ ریاستی پولیس نے واضح کیا ہے کہ مہلوک نوجوان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔