لوگ باگ کہتے ہیں کہ ہم مہذب اور جمہوری معاشرے میں جی رہے ہیں ۔یہ ایک سفید جھوٹ ہے۔ یہاں نہ جمہوری آزادیاں ہیں اور نہ تہذیش کی روشنیاں ۔یہی وجہ ہے کہ اکثریت دن دھاڑے اقلیت کو ذبح کر نے میں شیر ہو تی جارہی ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ اقلیت کی بے بسی ، لاچاری اور مظلومیت نہ کسی حاکم کو نظر آتی ہے ، نہ کسی عادل کو دکھائی دیتی ہے ، نہ کسی جمہوریت نواز کی نیند اڑا دیتی ہے مگر انہیں سہ طلاق کامسئلہ اچھالنا خوب آتا ہے۔ ہمارے یہاںآئے دن عورتوں کے ساتھ بد سلوکیوں اور زیادتیوں کے جگرسوز واقعات سامنے آتے رہتے ہیں ۔کہیں کسی طالبہ کی عزت چوراہے پہ نیلام ہو جاتی ہے ، کہیں دھرم کے ٹھیکیدار غنڈہ گردی کرکے ان کی سرچادریں نوچتے ہیں ، کہیں ان کو جہیز او رذات برادری کے نام پر زندہ درگور کیا جاتا ہے ۔ ہر دین دھرم اور جاتی سے تعلق رکھنے والی ان لاچار اور بے بس خواتین کی آنکھیںکسی مسیحا کے انتظار میں پتھرا گئی ہیں مگر کوئی شیشوں اک مسیحا نظر نہ آیا ۔ زمانے کے پروردگاروں اور نوشیروان عادلوں کو ان کی بے بسی اور لاچاری پر کوئی دُکھ نہیں پہنچتاالبتہ جب سے مرکز میں بھاجپا سرکار حکومت میںآئی، اسے اپنی ہم مذہب مہیلاؤں کا کوئی دکھڑا نہ بھی ستائے مگر مسلم خواتین کے حقوق کی یاد ضرورت سے زیادہ آرہی ہے ۔ مسلم خواتین کے حقوق کی باتیں کر نے والے مہارتھیوں سے سوال ہے کہ تب وہ کہاں تھے جب گجرات میں نیزے اور خنجر مار کر حاملہ مسلم بہنوں اور ماؤں کو قتل کیا گیا؟ تب کہاں تھے مسلم مہیلاؤں کے حقوق کا خالی شور کر نے والے ٹی وی اینکر جب گجرات میں ہندو بلوائی اپنے ہی پڑوسیوں اور ہم وطنوں کی معصوم بیٹیوں کو یہ یتیمی، بیوگی اور لا چارگی کے دلدل میں پھینک رہے تھے ؟ تب ان کی رگ ِ حمیت کیوں نہ پھڑکی جب گجرات میں مقتول ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری کے گھر میں راکھشسوں نے جلیاں والا باغ جیسا قتل عام کر کے مسلم خواتین ، بچوں اور بچیوں کو بے دردی سے روند ڈالا؟ کہاں گم تھے اس وقت وہ لوگ جو مسلم مہیلاؤں کے حقوق کی مالا جپ کر اپنی اصلیت چھپاتے ہیں جب مسلم مائیں اپنے بچوں کو چھپانے کے لئے کنوؤں میں چھلانگیں مارتیں اور اپنی عصمتوں کو زیر آب مر کرہی محفوظ سمجھتی تھیں؟ شوپیان کی آسیہ نیلوفر کی چڑھتی جوانیاں ذبح کر تے ہوئے اور اور انشاء کی بینائی کوختم کر تے ہوئے مہیلائیں یاد کیوں نہ رہیں ؟دامنی تو کوئی مسلم ،دلت یا عیسائی نہیں تھی مگر ۱۶؍ ستمبر ۲۰۱۳ کی شام کی وہ چیخیں آج بھی کیسے سونے نہیں دیتی ہیں جب اس ۲۳ ؍سالہ لڑکی کو دارالسلطنت دہلی میں درندوں کی ہوس کا شکار بن گئی اور اس کا مجبور باپ آج بھی انصاف کا علم تھامے ہوئے ہے بیٹی کی آتما کا منتظر ہے۔آج بھی کنن پوشہ کی مظلوم خواتین انصاف کی مانگ کر رہی ہیں مگر وشال دیش میں ان کی سنے گا کون ؟گجرات کے وہ چوراہے عشرت جہاں کی بے چین روح آج بھی یہ سمجھ نہیں پارہی ہے کہ اسے اپنے ساتھی کس جرم کی پادش میں میں قتل کیا گیا۔واہ رے انصاف! ہماری ماں بہن کے حقوق کی علمبرداری کا عَلم وہ لوگ تھامے ہوئے ہیں جو اخلاق اور پہلو خان کی بیویوں کو بیوہ کر گئے اور جنید کی ماں سے اس کا لخت جگر چھن گئے ۔حفیظ میرٹھی نے خوب فرمایا ہے ؎
حاصل ہیں رہزنوں کی جو خدمات ان دنوں
رہبر بنا ہے قبلۂ حاجات ان دنوں
رابطہ :ریسرچ اسکالر ،سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر9622704429