امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے چند دن قبل اپنی حکومت کی نئی افغان پالیسی کا خلاصہ دنیا کے سامنے رکھا۔ اگر چہ ٹرمپ لوگوں کی نظروں میں متنازعہ شخصیت بھی ہیں لیکن ان کی صاف گوئی اکثر کھل کر سامنے آتی ہے اور وہ اپنے نظریات عقائد اور اہداف کا اظہار کرنے میں دروغ گوئی سے زیادہ صاف گوئی سے کام لیتے ہیں ۔ ازن کی نئی افغان پالیسی کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے ۔جہاں انہوں نے یہ بات واضح کر دی کہ امریکہ افغانستان سے ۱۶ برس بعد یکمشت اپنی فوج نکالنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا وہاں ان کی یہ بات بھی اہم اور معنیٰ خیز ہے کہ ان کی ترجیح دوسروں کے معاملات میں الجھنے کے بجائے اپنے ملک کے لوگوں کے مسائل کو سلجھانا ہوگا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے جو کچھ بھی کہا اس سے کافی کچھ باتیں سمجھ میں آ رہی ہیں۔ وہ لوگ جو ہر مسئلہ کا حل طاقت کے استعمال میں ڈھونڈنے کی مسلسل کوششوں میں لگے رہتے ہیں یہ بات سمجھنے سے نہ معلوم کیوں ابھی بھی قاصر ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے خلاف مسلسل ۱۶ برسوں تک خونریز معرکہ آرائیوں اور بے پناہ طاقت کے استعمال کے باوجود امریکیوں کو اب بھی یہ ڈر ہے کہ ان کے نکلنے کے بعد طالبان واپس اقتدار پر قبضہ کر سکتے ہیں ۔ ایسا کہہ کر امریکی صدر نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ۱۶ برسوں کی جنگ بغیر کسی نتیجہ کے ختم کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ میسر بھی نہیں ہے ۔ اگر یوں کہا جائے کہ جنگ شروع کرنا امریکیوں کے ہاتھ میں تھا اور اس سے ختم کرنا طالبان کے ہاتھوں میں ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ امریکی صدر نے اپنی تقریر کے دوران پاکستان کی طرف سے جنگجوئوں کو ملنے والی سرپرستی پر اپنی برہمی کا کھل کر اظہار کیا۔ اس سوال کا جواب پاکستانیوں کو ڈھونڈنا چاہئے کہ اپنی طرف سے عسکریت پسندوں کے خلاف ضرب عضب سے لیکر دیگر خونی آپریشن کرکے، بہت سارے اپنے شہریوں کو امریکیوں کے حوالے کرنے اور ہر بار شدت پسندی کے خلاف جہاد کرنے کی دہائیاں دینے کے باوجود کیوں نہ صرف امریکہ بلکہ افغانستان اور بھارت بھی اس سے ہر بار تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اگر چہ ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ اعتراف حوصلہ افزاء ہے کہ پاکستان خود بھی شدت پسندی کی وجہ سے بے پناہ جانی نقصانات کا شکار ہوا ہے لیکن پھر بھی اس سے ’’کچھ اور کرو‘‘ کی ہدایت دینا پاکستانیوں کے لئے بے جا سبق آموز ہے۔ اپنی ساری قوت داخلی سیاست پر خرچہ کرکے پاکستانی کہیں نہ کہیں اپنے اہداف سے یا تو منحرف ہو رہے ہیں یا پھر ان کی توجہ ہٹ کر دوسرے مسائل کی طرف جاتی ہے ۔ پورے خطہ میں اپنی جغرافیائی اہمیت سے اگر پاکستان آج فائدہ نہ اٹھا سکے تو شائد اس کے مسائل سکجھنے کے بجائے الجھتے ہی رہیں گے۔ جہاں پاکستانی حکومت اپنے مسائل کے حل کیلئے دستیاب راستے ڈھونڈنے میں خود کو بے بس پا رہی ہے وہاں بد قسمتی سے نئی دلی بھی ماضی میں جھانک کر کچھ نیا سوچنے کے بجائے جذباتی طریقے اپنا رہی ہے ۔ جس تیزی سے جنوب ایشیائی خطہ میں رشتے بدل رہے ہیں اور کہیں دشمنیاں دوستی میں اور کہیں دوستیاں دشمنی میں بدل رہی ہیں وہ سارا عمل پورے بر صغیر کے عوام کے لئے ہر گز حوصلہ افزاء نہیں ہے ۔ حکمرانوں کی دال چاہئے کتنی بھی کیوں نہ گلے گی لیکن بلند بانگ دعوے اور عالمی طاقتوں کی قربت کے سپنے دکھا کر اس خطہ کے عام لوگوں کا کوئی بھی بھلا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ ایک طرف آج کل امریکی اُس پاکستان سے بے وفائی اور دھوکہ دہی کے شکوے کر رہے ہیں جو کہ ماضی قریب تک ہندوستان کا بے حد وفادار اور قابل فخر دوست رہا ہے اور دوسری طرف روس جس کی سالمیت کو پارہ پارہ کرنے میں پاکستان کا کیلدی کردار رہا ہے اب پاکستان سے براہ راست اپنی قربتیں بڑھا رہا ہے ۔ حیرت ہے کہ ہندوستان یہ نہیں سمجھ رہا ہے کہ اگر پاکستانیوں کا امریکہ کو افغانستان جہاد کے دوران بے مثال تعاون دینا آج انہیں امریکی دھمکیوں سے نہیں بچا سکتا ہے تو بھلا امریکہ اور ہندوستان کی دوستی کی منزل کیا ہوگی۔ اسی طرح پاکستان بھی یہ بات بھول رہا ہے کہ روس کی اگر افغان جہاد کے دوران کسی نے پوری دنیا کی طرف سے قطع تعلقی کے دوران ڈھارس بندھائی تو وہ ہندوستان ہی تھا لیکن آج کی تاریخ میںوہ کیوں ہند امریکہ دوستی سے جلن محسوس کرکے پاکستانیوں کی تعریفیں کر رہا ہے ۔ جس دن نئی دلی اور اسلام آباد کے پالیسی ساز اس تلخ حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ امریکیوں ، روسیوں اور چینیوں کی ترجیحات اپنے اپنے ممالک کے مفاد ات کے تابع ہوتی ہیں اس دن یہ دونوں باہمی تعاون کی اہمیت کو سمجھیں گے اور مسائل اپنے منطقی حل کی طرف خود بخود بڑھنے لگیں گے۔ ایک اور دلچسپ بات جو نئی دلی نہیں سمجھ رہی ہے وہ یہ کہ پاکستانیوں کی طرف افغانستان کو روسیوں کے چنگل سے چھڑانے کے باوجود اگر آج افغانستان کی سرکار پاکستان کو اپنا دشمن مان رہی ہے تو بھلا دلی کابل دوستی کے نام پر اپنے لوگوں کو بے وقوف بنانے کے اہداف کیا ہو سکتے ہیں۔ نئی دلی کا یہ عذر کہ اس نے پاکستان کی طرف دوستی بڑھانے کیلئے تمام حجتیں پوری کر دی لیکن پاکستانیوں نے ہر بار وشواس گھات کیا ہرگزقابل قبول نہیں کیونکہ امریکی صدر کایہ خدشہ کہ ددونوں ہندوستان اور پاکستا ن نیوکلر پائور ہیں اور ان کا ٹکرائو بہت بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے ہر لحاظ سے مناسب توجہ کا مستحق ہے۔ وقت کا یہی تقاضہ ہے کہ نئی دلی مذاکرات کے عمل سے ہرگز پیچھے نہ بھا گے اور نہ ہی طاقت کے نشے میں آکر اس سے پاکستان کی قوت مدافعت کو نظر انداز نہ کرنا چاہئے ۔ اگر نئی دلی پاکستان کو 70برسوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود بھی اس سے کشمیر کے کیلئے رائے شماری کے مطالبہ سے دستبردار نہیں کرا سکی تو بھلا آج کی تاریخ میں اس کے لئے ایسا کرنا کس طرح ممکن ہے ۔ یہ بات بھی بے منطق نظر آ تی ہے کہ آخر پاکستان میں بقول نئی دلی کے بات کس سے کی جائے کیونکہ جتنے بھی ادارے پاکستان میں کام کرتے ہیں ان کا کسی نہ کسی سطح پر اپنے ہندوستانی ہم منصبوں سے رابطہ رہتا ہی ہے اور ایسا ہرگز ممکن نہیں کہ پاکستان کے اہم اداروں کے درمیان تال میل کا فقدان اسقدر زیادہ ہوگا کہ وہ کسی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات افغانستان ، ہندوستان اور پاکستان کو ہر حال میں سمجھنی ہوگی کہ اگر امریکیوں، چینیوں اور روسیوں کی پورے خطہ میں دلچسپی کی بنیادی وجہ تجارتی اور اقتصادی امورات ہیں تو یہ تینوں ممالک اپنے اپنے لوگوں پر احسان کرکے مخاصمت کو طلاق دیکر مفاہمت کے ذریعہ ہر محاذ پر امن کے فوائد کیوں نہیں سمیٹ سکتے۔ تاہم اس سارے بدلتے منظر نامے میں خود کشمیریوں کی قیادت کرنے کے دعویداروں کا رول بے حد اہم ہے اور انہیں غیبی امداد کی آس لگانے اور اپنے اپنے آقائوں پر انحصار کرنے کے بجائے جموں و کشمیر کے مسئلہ کے دیر پا حل کیلئے خود کو تیار کرنا ہوگا اور بدلتے حالات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرکے دور اندیشی کا ثبوت دینا ہوگا نہیں تو پورے خطہ میں مفادات کی دوڑ میں ایک مرتبہ پھر کشمیریوں کی قسمت میں گھاٹے کے سوا کوئی اور چیز نظر نہیں آئے گی۔