پاگل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنے پیشروئوں کی طرح پاکستان پر الزام تراشی اور بھارت کی تعریفیں کردیں ہیں ، منگل21اگست 2017 کو پاکستان ، افغانستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ٹرمپ کاکہناتھا کہ امریکا پاکستان میں دہشتگردوں کی قائم پناہ گاہوں پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا،پاکستان ہم سے اربوں ڈالر لے کر ہمارے دشمن کو پناہ دیتا ہے ،دہشتگر د ایٹمی ہتھیار ہمارے خلاف استعمال کرسکتے ہیں ، افغانستان میں غیرمعینہ مدت تک موجود رہیں گے ،وہاں پر موجود فوجیوں کی تعداد میں اضافہ اور کارروائیوں میں شدت لائی جائے گی ، آوپریشن کب اور کہاں کرنا ہے نہیں بتائیں گے ، امریکا سے شراکت داری اسلام آباد کے لیے بہت سود مند ثابت ہوگی لیکن اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تو اس کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں،بھارت سے شراکت داری مضبوط بنائیں گے ، افغانستان سے جلد بازی میں انخلا ء کے باعث وہاں دہشت گردوں کو جگہ مل جائے گی، عراق میں ہونے والی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، نیٹو ممالک افغانستان میں فوجیوں کی تعداد بڑھائیں ۔ دوسری جانب پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہماری سرزمین پر کوئی منظم دہشت گرد گروپ موجود نہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانی ومالی قربانیاں دیں، امریکی صدر کے خیالات پر پاکستان کو مایوسی ہوئی ، چین نے پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برداری دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی کوششیں تسلیم کرے۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان نے بہت ساری قربانیاں دی ہیں،۔روس نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی نئی حکمت عملی سے افغانستان میں کوئی معنی خیز مثبت تبدیلی نہیں ہوگی۔برطانیہ، نیٹو، بھارت اور افغانستان نے امریکا کی نئی پالیسی کا خیرمقدم کیا ہے، افغان طالبان نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ افغانستان کو امریکہ کا قبرستان بنادیں گے ۔
امریکہ کے پاگل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی بیان بہت بڑا سمر سالٹ ہے، ٹرمپ کی پالیسی جتنی خطرناک ہونے کا اندیشہ تھایقین میں بدل رہاہے ۔افغانستان پرجارحیت کاارتکاب کرنے والا امریکا اپنی16 سالہ ناکام پالیسی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ وہ افغان جنگ سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہا ہے، ٹرمپ کا پالیسی بیان امریکا میں اپنی سپورٹ بیس کو مطمئن کرنے کی کوشش ہے۔ دیکھاجائے ٹرمپ کی پالیسی کچھ فرق کے ساتھ وہی ہے جو اوباما کے زمانے میں تھی، امریکی فوجی کمانڈرز میں دو رائے ہیں، ایک رائے کہ پاکستان افغان مسئلہ کا ایک حصہ ہے، دوسری رائے ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغان جنگ نہیں جیتی جاسکتی ہے۔ ٹرمپ پالیسی کا نچوڑ یہ ہے کہ بھارت چونکہ امریکا سے اربوں ڈالر کماتا ہے، اس لئے افغانستان کی معیشت بہتر بنائے اور پاکستان چونکہ امریکا سے اربوں ڈالر لیتا ہے، اس لئے امریکا کی طرف سے جنگ لڑے اور حقانی گروپ کو ختم کرے۔افغانستان میں امریکا ، پاکستان یاکسی اور ملک کی پالیسی کامیاب نہیں ہے۔اس پس منظرمیں دیکھاجائے تو ٹرمپ کا پالیسی بیان سابق صدور بش اور اوباما کی پالیسی کا تسلسل نظر آتا ہے۔جہاں تک افغانستان کی اندرونی صورتِ حال کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کا تقریباً نصف حصہ طالبان کے کنٹرول میں ہے ۔ ماسوائے افغان فوج کی حالت غیر ہے۔ آیئے مرض ،اس کی تشخیص اوراس کے علاج کوزیربحث لاکرامریکہ کی فتنہ پروری کاجائزہ لیتے ہیںاورافغانستان کی اصل اوربنیادی طاقت کااندازہ لگاتے ہیں۔
افغانستان کے 34صوبوں کے 104اضلاع میںمیں 15صوبوں کے 36اضلاع ایسے ہیں کہ جن پرافغان طالبان کاکنٹرول ہے۔اعدادوشمارکے مطابق افغانستان کے چالیس فیصد علاقے پر افغان طالبان کا کنٹرول ہے ۔ یہ کنٹرول عارضی صورت حال نہیں ہے بلکہ ایک عرصہ سے افغان طالبان افغانستان کے چالیس فیصد حصے میں اپنی عدالتیں لگاتے ہیں اور اپنے طور طریقوں کے مطابق انتظام کرتے ہیں۔ افغانستان کی حکومت یہ تسلیم کر چکی ہے کہ پاکستان سے ملحقہ علاقے پر اس کا کنٹرول نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ 8مارچ 2016کوایک رپورٹ سامنے آئی تھی کہ جا میں بتایاگیاتھاکہ کٹھ پتلی افغان حکومت طالبان سے امن بات چیت کرنے کی خواہاں ہے اواس نے طالبان کے ساتھ ممکنہ معاہدے کا جوخاکہ تیار کیاہے اس کے مطابق طالبان کوجنوب اورجنوب مشرقی افغانستان میں 3ایسے صوبوں کاکنٹرول دیاجائے گاجن میں ان کا بہت زیادہ اثررسوخ ہے جب کہ طالبان کو حکومتی کابینہ میں 30فیصدکے لگ بھگ حصہ دینے کی پیشکش بھی شامل تھاتاہم طالبان نے ایسے کسی بھی معاہدے سے صاف انکارکیاجس میں کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ شراکت داری ہو۔ حالات کے بنظرِ غائر مطالعہ سے یہ سنگین حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ڈو مور کے مطالبے کے ذریعے افغانستان کے عدم استحکام کی اصلی وجوہ کو نظرانداز کیا جارہاہے ۔
طالبان میدان جنگ میں اپنی فتوحات کودیگرشعبوں کی فتوحات پرترجیح دیتے ہیں۔انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ عسکری پہلو مضبوط ہوگاتووہ اپنی بات بہترڈھنگ سے منوانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ انہوں نے آمدن کے ذرائع پیداکئے تاکہ میدان جنگ میں پریشانی یاسبکی کا سامنانہ کرناپڑے۔مالیاتی ذرائع مضبوط کرنے کے حوالے سے اپنے زیراثر زرخیز زرعی اراضی کے حامل علاقوں میں طالبان نے کسانوں سے فصلوں کی آمدن پرعشروصول کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مجموعی دولت پرزکواہ کی مدڈھائی فیصد وصول کرنے کاسلسلہ شروع کررکھا۔ دیہی علاقوں میں کان کنی کرنے والے اداروں سے بھی طالبان نے اسی طوروصولی شروع کی۔
افغانستان معدنی وسائل سے مالامال ملک ہے۔مغربی ماہرین نے جدید ترین آلات کی مدد سے اندازہ لگایاہے کہ افغانستان کے طول وعرض میں کم و بیش ایک کھرب یعنی سوارب ڈالرمالیت کی معدنیات ہیں مگر چونکہ ملک شدید بدامنی کا شکارہے اور بنیادی ڈھانچابھی تباہ ہوچکاہے،اس لیے ان معدنیات کونکالنا اورعالمی منڈی میں موثراندازسے فروخت کرناکٹھ پتلی کابل انتظامیہ کیلئے ممکن نہیں رہا۔ طالبان معدنی وسائل پرمتصرف ہیں۔ اس وقت افغانستان کے میں چارصوبوں سے طالبان معدنی وسائل نکالتے ہیںاورمعدنیات ہی ان کیلئے سب سے بڑاذریعہ آمدن ہے۔ طالبان افغانستان کے طول وعرض میں تیزی سے قدم جمارہے ہیں۔انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ان کاملک معدنیات سے مالامال ہے،اس لیے وہ قیمتی پتھرنکالنے کے شعبے میں بھی تیزی سے قدم جما رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ آمدن کامستقل اورمعقول ذریعہ ہے۔انہوں نے اسٹون کمیشن بنانے کی بات بھی کی ہے۔ معدنیات کے شعبے سے ہونے والی آمدن نے ان کی لڑنے کی صلاحیت میں اضافہ کیاہے۔اب وہ زیادہ منظم اندازاورجدیدترین ہتھیاروں کے ساتھ قابض فورسزسے نبردآزماہیں۔اس طرح طالبان نے امریکا اوراسکے اتحادیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی بھرپور تیاری کی اور اس کے لیے وسائل کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھنے پر بھی خاطر خواہ توجہ دی۔حالانکہ اس دوران طالبان کے یکے بعد دیگرے دوامرائے کرام ،طالبان کے بانی امیر،امیرشریعت ملامحمدعمراورانکے بعد ملامنصور بھی شہیدہوئے لیکن اس نقصان کے باوجودطالبان اپنے کام سے ہمہ تن جڑے رہے،طالبان کی معدنی سرگرمیوں کازورجنوبی افغانستان پررہا اورانہوںنے ہلمندپرزیادہ توجہ دی کیونکہ یہ صوبہ کئی مواقع پر پوراکا پوراطالبان کے کنٹرول میں آتارہاہے۔جس کے نتیجے میں طالبان کی آمدن میں متعدبہ اضافہ ہوا۔
اکتوبر2016 میں اقوام متحدہ کے انٹلی ٹیکل سپورٹ اینڈسینکشنزمانیٹرنگ ٹیم نے بتایاکہ طالبان نے ہلمند سمیت کئی صوبوں میں معدنیات نکالنے پرغیر معمولی توجہ دی ہے جس سے طالبان کی آمدن کابڑا حصہ آتاہے۔ جن اداروں نیکان کنی کے لائسنس لے رکھے ہیں طالبان ان سے بھی معقول ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اینیل یٹیکل سپورٹ اینڈسینکشنزمانیٹرنگ ٹیم نے بتایاکہ طالبان کوکتنی آمدن ہوتی ہے اس کا درست اندازہ لگانابہت مشکل ہے کیونکہ یہ سب ایسے علاقوں میں ہورہاہے جن پرطالبان کاکنٹرول ہے۔۔افغان کٹھ پتلی انتظامیہ کے ایک اعلی عہدیدارنے جون 2016میں بتایاتکہ جن علاقوں میں طالبان کاکنٹرول ہے ان علاقوں میں سے صرف صوبہ ہلمند سے وہ یومیہ پچاس ساٹھ ہزارڈالر کی معدنیات نکال کر فروخت کررہے ہیں۔عہدے دارکاکہناتھاکہ اسی طرح بدخشاں صوبے سے بھی طالبان معدنیات نکال رہے ہیں جن میں سنگِ مرمر نمایاں ہے۔ قیمتی پتھروں بالخصوص زمرد کی فروخت سے بھی طالبان کاذریعہ آمدن کروڑوں ڈالر ہیں۔کہاجاتاہے کہ افغانستان میں ہرسال نکالی جانے والی معدنیات سے ہونے والی آمدن کم وبیش2ارب ڈالرہے جس کا10تا15 فیصد طالبان کے خزانے میں جاتاہے۔
2014کے آخرمیں جب امریکانے افغانستان میں اپنے فوجی مشن کے خاتمے کا اعلان کیاتواس کے بعدسے طالبان نے مائننگ کے شعبے میں دلچسپی بڑھادی ۔ اس کیلئے سیکورٹی کے مسائل بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔ جب امریکی فوج نے جزوی انخلاشروع کیا اوراس دوران افغان فوج کی تربیت اورمدد کاسلسلہ شروع کیا تب طالبان نے مختلف علاقوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی ٹھان لی اوراس میں بہت حدتک کامیاب بھی رہے۔ کئی علاقوں پرتصرف پانے کے بعدطالبان نے وہاں کے معدنی ذخائرکو بروئے کار لانا شروع کیا۔ نومبر2015 ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت پرکابل حکومت کانمایاں کنٹرول بتایاگیااوراس رپورٹ میں بتایاگیاکہ ملک کے بیشتر حصوں پر کابل حکومت کااختیاراور تصرف گھٹتا ہی جارہا ہے۔
طالبان نے لائم اسٹون اورکوئلے کی مائننگ بھی جاری رکھی ہے، جس سے خاصی آمدن ہوتی ہے۔ کوئلہ بامیان میں نکالاجاتاہے،اس صوبے میں کوئلے کی بیشترکانیں بند کی جاچکی ہیں مگرپھر طالبان کی آمدن کاایک اہم ذریعہ بامیان کی مائننگ ہے۔ اجمالایہ کہاجاسکتاہے کہ طالبان نے آمدن کے دیگرذرائع کے ہوتے ہوئے بھی معدنیات کے شعبے پرخاص توجہ دی ہے۔وہ کان کنی سے جڑے ہوئے اداروں سے بھی وہ لائسنس کی مد میں خطیررقوم وصول کررہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بہت سے علاقوں میں خودبھی معدنیات نکال کرفروخت کر رہے ہیں اس حوالے سے بھی اچھی خاصی رقوم جمع ہوتی ہے۔معدنیات کے شعبے میں طالبان کانفوذکئی سال سے جاری ہے اوراس راہ میں بظاہرکوئی بڑی رکاوٹ نہیں۔طالبان نے اپنی پوزیشن اس حوالے سے غیرمعمولی حدتک مستحکم کرلی ہے۔ جہاں بھی طالبان کاتصرف غیرمعمولی ہے وہاں معدنیات نکالے جانے کاعمل تیزی سے جاری رہاہے۔اس مدمیں طالبان کی آمدن اتنی ہے کہ وہ خود بھی نظر اندازنہیں کرسکتے۔
یہ ہے افغانستان کی اصل طاقت کہ جوہرپہلومضبوط سے مضبوط ترہوتی چلی جارہی ہے۔ اسے پاکستان اورنہ ہی ایران کی مددکی کوئی ضرورت ہے اورنہ ہی وہ وسطی ایشیائی ریاستوں کادست نگرہیں۔یہ سب امریکہ کے علم میں ہے لیکن اصل حقائق کوتسلیم نہ کرنا تعصب اورہٹ دھرمی سے کام لیناامریکہ کاوطیرہ رہاہے ۔وہ گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی سے صلح کرتاہے لیکن طالبان سے صلح کرنے سے اسے موت نظرآرہی ہے ۔سیدھاجاکرطالبان سے امریکا اس امرپرمذاکرات کرے کہ افغانستان کوسھنبالیں۔کوئی اشرف غنی ،کوئی کرزئی افغانستان کوسھنبال نہیں سکتاہے ۔ اصل مسئلے سے آنکھیں چراکرپاکستان سے ڈو مور کے مطالبے کے پیچھے چھپے رہناصرف اورصرف امریکہ کافتنہ ہے اوراس کے سواکچھ نہیں۔ٹرمپ کی دھمکیاں یہ سب باتیں نئی نہیں ہیں ، بش سے لیکر اوباماتک امریکہ کی فتنہ پروری جارہی رہی ۔ لیکن حالات کے بنظرِ غائر مطالعہ سے یہ سنگین حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ پاکستان سے ڈو مور کے مطالبے کے ذریعے افغانستان کے عدم استحکام کی اصلی وجوہ کو نظرانداز کیا جارہاہے ۔یہ امریکہ کی ہی فتنہ پروری ہے کہ افغانستان سے پاکستان میں بھارتی مداخلت کی پردہ پوشی کی جارہی ہے اور افغانستان میں فوج کشی میں اضافہ کیا جارہا ہے جسے افغانستان کے عدم استحکام کی صورتحال کے امکانات سامنے آ رہے ہیں۔مگر خطے کے سوجھ بوجھ رکھنے والے اورفہمیدہ حلقے ان مضمرات سے پوری طرح واقف ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے معاملے پر ٹرمپ کی دھمکیوں کے جواب میں چین نے پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی کوششوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔یومیہ بریفنگ کے دوران چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان کاکہناتھاکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں۔یاد رہے کہ چین اقتصادی راہداری معاہدے کے تحت پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور چین کے صوبے سنکیانگ کو راہداری کے ذریعے بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ سے منسلک کیا جا رہا ہے جب کہ برطانیہ، نیٹواور بھارت اور افغانستان نے امریکا کی نئی پالیسی کا خیرمقدم کیا ہے ۔
پاکستان اور افغانستان دو برادر ہمسایہ ممالک ہیں جو مذہبی، تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ ان کے نسلی تانے بانے بھی آپس میں ملتے ہیں اور لسانی مماثلت بھی موجود ہے ۔اِن تمام رشتوں ناطوں کے باوجود یہ دونوں اپنی جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں اور الگ الگ اکائی کے طور پر موجود ہیں ۔ افغانستان اور پاکستان کے مابین سرحد تقریبا ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل ہے جو دونوں ممالک کی کسی دوسرے ملک سے طویل ترین سرحد ہے یعنی نہ تو افغانستان کی کسی اور پڑوسی ملک کے ساتھ اتنی طویل سرحد ہے اور نہ پاکستان کی۔ دونوں مسلمان ممالک ہیں اور بڑی گہرائی سے اسلام کے پیرو کار ہیں یوں دونوں کے آپس میں مثالی تعلقات ہونے چاہیے تھے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو سکا۔افغانستان اکثر اوقات بدامنی اور خانہ جنگیوں کا شکار رہا ہے جس کے لیے افغان کٹھ پتلی انتظامیہ پاکستان کو موردِ الزام بھی ٹھہراتی رہی اور یوں دو نوں ممالک کے تعلقات بہتر نہیں ہو پاتے۔ معمول کی الزام تراشی کے ساتھ جو افغان حکمران پاکستان کے بارے میں کرتے رہتے ہیں۔ اگر چہ پاکستان کی طرف سے مسلسل ایسی کوششیں کی گئی اور اب بھی جا رہی ہیں لیکن دوسری طرف افغانستان کی کٹھ پتلی حکومتوںکی طرف سے مخاصمانہ رویہ جاری رکھا گیا ۔ افغانستان کی کٹھ پتلی انتظامیہ ہمیشہ کسی دوسری قوت کے زیراثر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار نہیں ہونے دیتا اور کسی نہ کسی حیلے بہانے دونوں ملکوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔