گمشدہ افرادکا عالمی دن::::: سرینگر میں متاثرین کا خاموش دھرنا، آنسوئوں اور سسکیوں کے رقعت آمیز مناظر

Kashmir Uzma News Desk
3 Min Read
سرینگر//لرزتی آنکھوں میں اُمیدوں کے چراغ جلائے ہوئے لاپتہ افراد کے لواحقین نے سرینگر میں گمشدہ افرادکے عالمی دن پر خاموش احتجاج کیا،جس کے دوران جذباتی اور رقعت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔عالمی یوم گمشدگی کے موقعہ پر  پرتاپ پارک میں صبح سے ہی گزشتہ27برسوں میں دوران حراست جبری طور پر لاپتہ کئے گئے افراد خانہ کے آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پرتاپ پارک کے سبز گھاس اور پھولوں کی مہک کی فضا آنسوئوں اور سسکیوں میں تبدیل ہوئی،اور بزرگ خواتین و مرد کی آنکھوں سے بے جھجک اشکوں کی دھاریں گرنے لگیں۔دوران حراست لاپتہ کئے گئے اپنے لخت جگروں کی تصاویر خواتین نے اپنے سینے سے لگائی تھیں،جبکہ مرجھائی ہوئی آنکھوں سے اُمیدوں کی کرن بھی صاف جھلک رہی تھی۔ایسو سی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیائڈ پرسنز(گمشدہ ہوئے افراد کے لواحقین کی تنظیم) کے زیر اہتمام اس خاموش دھرنے میں سرحدی ضلع کپوارہ  سے لیکرپہاڑی علاقہ شوپیاں کے متاثرہ مرد و خواتین خون کے آنسو رو رہے تھے۔خاموش احتجاجی مظاہرے میں بشری حقوق کارکنوں کے علاوہ بھارت کے دیگر ریاستوں کے بشری کارکنوں،قلم کاروں اور ماہرین تعلیم نے بھی شرکت کی۔احتجاجی مظاہرے میں شامل پروفیسر دیباش آنند نے کہا کہ بھارت کے لوگ کشمیریوںکے اس کسک اور درد سے بے خبر ہیں،اور انہوں نے قومیت کا چولا پہنا ہوا ہے۔انہوں نے کہا ’’ بیشتر عوام کو کشمیر کا اصل مسئلہ،درد، بے انصافی اور ظلم کی کوئی بھی خبر نہیں اور جنہیں علم ہے،انہوں نے بھی کشمیر کو غلط رنگ میں پیش کیا ہے‘‘۔پروفیسر آنند نے کہا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ بھارت کے بیشتر شہری کشمیریوں کو انسان ہی تصور نہیں کرتے،تاہم انہوں نے اپنے ہم وطنوں کو مشورہ دیا کہ وہ کشمیر کو انسانیت کے دائرے میں دیکھیں۔گمشدہ ہوئے افراد کے لواحقین کی تنظیم کی سربراہ پروینہ آہنگر نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ  انکے اپنے واپس آئیں گے۔آہنگر کا کہنا تھا کہ گزشتہ23برسوں سے وہ ’’جبری طور پر لاپتہ ہوئے افراد کی بازیابی کیلئے برسر احتجاج ہیں،تاکہ انکے اپنوں کا پتہ بتایا جائے۔کپوارہ کی ایک معمر خاتون نے کہا کہ جن کے بچے جان بحق ہوئے انہیں کم از کم اپنے بچوں کے قبرستان پر جاکر تسلی ملتی ہے،تاہم جن کے بچے دوران حراست لاپتہ ہوئے انہیں وہ آس بھی نہیں۔اس موقعہ پر پرتاپ پارک کی سبز گھاس پر ایک شہری نے گل لالہ کے چھوٹے پھول لگائے،اور ان میں کیل ٹھونک کر اپنی ناراضگی،جذباتی وابستگی کا اظہار کیا۔مذکورہ فنکار نے کہا کہ ٹولپ کے پھولوں سے وادی کی خوبصورتی کی انہوں نے عکاسی کی،جبکہ پھولوں میں کیل ٹھونکنے کا مطلب یہ ہے کہ کشمیریوں کے درد کو کوئی بھی پوچھ نہیں رہا ہے،اور نہ  ہی کوئی محسوس کر رہا ہے۔
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *