ملکی حالات سے قطع نظرجنوبی ایشیا کے حالات کیا رُخ اختیار کریں گے اور ہمارے ملک پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ،اس کا اندازہ ڈونالڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے جب وہ امریکہ کا صدر بننے کے بعد پہلی بارافغانستان کے تعلق سے اپنی پالیسی واضح کر رہے تھے۔ فوجی جنرلوں کے سامنے اپنے خطاب میں انہوں نے کہاکہ’’ افغانستان کی جنگ ہم جیت کرہی واپس نکلیں گے، صرف اپنی افواج کو واپس بلا لینے پر اکتفا نہیں کریں گے‘‘ ۔اپنی تقریر میں جہاںانہوں نے پاکستان کو کھری کھری سنائی، وہیں ہندوستان کی تعریفوں کے پُل بھی باندھے۔اس تعریف میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہندوستان جب امریکہ سے اربوں ڈالر برآمدات کی صورت میں کماتا ہے تو اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ افغانستان پر خرچ کرے، وہاں کے انفرا اسٹرکچرنیز تعلیم و ترقی کا بھی خیال رکھے، دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں بھی ہاتھ بٹائے۔اسی سانس میںپاکستان کو متنبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے ٹھکانوں کو مزید فروغ نہ دے، ورنہ اس(پاکستان) کی مدد کے لئے جو رقم دی جاتی ہے وہ روک دی جائے گی۔امریکی صدر نے دو ٹوک لہجے میں یہ بھی کہا کہ پاکستان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا لیکن ہندوستان بھروسے کے لائق ہے۔پاکستان اب بھی دہشت گردوں اور دہشت گر دتنظیموں کی معانت کرتا ہے جس سے پوری دنیا بالخصوص امریکہ کو خطرہ ہے اور یہ سب افغانستان کی سرزمین میں پنپتا ہے۔جس طرح ۲۰۰۱ء میں نائن الیون ہوا تھا، اس طرح کا واقعہ ہم پھر رونما نہیں ہونے دیں گے اور پوری دنیا کو معلوم ہے کہ یہ کام افغانستان میں مقیم القاعدہ کے ذریعے انجام دیا گیا تھا۔
صدرارتی انتخابات سے پہلے ڈونالڈ ٹرمپ اپنی مہم میں اس بات کا اعادہ کرتے نہیں تھکتے تھے کہ اگر وہ الیکشن جیت جاتے ہیں تو سب سے پہلا کام وہ افغانستان کی جنگ میں جھونکے گئے اپنے فوجیوں کو واپس بلا لیں گے کیونکہ ان کی نظر میں یہ جنگ افغانستان میں جو لڑی گئی اس کا کوئی مطلب نہیں جس میں خواہ مخواہ ہزاروں کی تعداد میں امریکی اور نیٹو فوجی مارے گئے اور اس جنگ پر جو خطیر رقم خرچ ہوئی اس کا بھی کوئی جواز نہیں۔ امریکی عوام نے ٹرمپ کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ،اس طرح ان کی جیت کا راستہ مزید ہموار ہوا لیکن جیت حاصل ہونے کے بعد افغان پالیسی پر ان کا یوں یو ٹرن لینا کیا عوام کے ساتھ دھوکہ نہیں ہے؟اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اآج کل الیکشن جیتنے کے لئے موضوعات الگ ہیں جو مینوفیسٹو کہلاتے ہیں اورحکومت کرنے کے پیمانے الگ۔امریکہ جیسا’’ اصول و ضوابط کا پابند ‘‘ کہلانے والا ملک بھی اس علت سے پاک نہیں ہے ۔اس کا مشاہدہ تو ہم اپنے ملک میں کرہی رہے ہیں کہ کس طرح الیکشن سے پہلے بی جے پی نے وعدوں کا انبار لگا دیا تھا اور جیت کے بعد اُن وعدوں کو تو جانے دیجئے ، دوسرے ہی لائن پر حکومت کام کرنے لگی اور اگلا الیکشن جیتنے کے لئے مزید وعدے کئے جا رہی ہے۔بہر کیف ،ڈونالڈ ٹرمپ کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ امریکہ افغان معاملے میںبُری طرح پھنس چکا ہے اور وہ اپنی ضد اور ہٹ پر قائم نہ رہیں بلکہ جو زمینی صورت حال ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی تیا ر کریں ۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امریکی صدر کے اختیار میں کچھ بھی نہیں اور وہ پنٹاگن کے خلاف نہیں جا سکتا۔ٹرمپ کے پیش رو بارک اوبامہ نے جب عراق سے اپنی فوجیں ہٹائی تھیں تو اس کایہ انجام ہوا کہ داعش نے سر ابھارااور عراق اور شام اپنی تباہیوں کے ڈھیر پر پائے گئے،ایسا امریکی پالیسی سازوں کا خیا ل ہے۔اسی لئے افغانستان میں ایسی حماقت کرنا خودکشی کے مترادف ہے اور اِس وقت جب طالبان ۱۶؍ برس پہلے سے بھی زیادہ طاقت ور ہے ،اس کو پسپاکرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بھلے ہی اس کے لئے لمبی اور فیصلہ کن لڑائی ہی کیوں نہ لڑنی پڑے۔یہ حقیقت ہے کہ اشرف غنی کی حکومت چند گنے چنے شہروں تک ہی محدود ہے۔
یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ ۱۶؍برسوں کی طویل مدت اورلاکھوں فوجیوں کی کوشش کے باوجود اور ۸۰۰؍بلین امریکی ڈالر خرچ کرنے کے بعدبھی فرسودہ ذہن قرار دئے جانے والے طالبان کو دنیا کا سوپر پاور اکھاڑ پھینکنے میں ناکام رہا۔اور آج اس کا صدرپھر سے عہد کرتا ہے کہ اسے ہم جڑ سے اکھاڑ کر دم لیں گے اوراس سے قبل کی ساری ناکامیوں کاالزام دوسروں پر ڈال دیتا ہے۔ویسے چند ماہ پہلے ہی ٹرمپ کے حکم سے افغانستان پر ایک ایسا بم گرایا گیا تھا جسے ’’بموں کی ماں‘‘ کے نام سے پکارا گیا ۔برسوں پہلے امریکہ نے اسے بنا کر رکھا تھا جو ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے بم سے دوسرے درجے پر ہی تھا۔اس بم کا گرایا جانافقط اس کی جانچ( ٹیسٹنگ) مقصود تھا لیکن اس میں سینکڑوں افراد فوت ہوئے۔امریکہ نے انہیںبغیر دیکھے بھالے ’’جہادی‘‘ کہا۔بھلا بتائیے ،بموں کی جانچ کے لئے جس سرزمین کا استعمال ہو،وہاں کے لوگ بم گرانے والوں کے تئیں کیا موقف رکھیں گے ؟بات در اصل یہ ہے کہ داعش کا عنقریب خاتمہ ہونے والا ہے ۔ اس سے پہلے القاعدہ کاپس منظر میں تھا۔اُسامہ بن لادن کے بعد القاعدہ کا خاتمہ تو نہیں ہوا، البتہ ایک نیا نام چاہئے تھا جو ابو بکر بغدادی کی صورت میں مل گیا،جس کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہ مغرب کاپلانٹ کیا گیا ۔ویسے داعش کا بھی مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوگا ،تنظیم کو تو باقی ہی رکھا جائے گا ،البتہ دوسرا ،تیسرا نام منظر عام پر آنا چاہئے تھا ،جو ابھی تک نہیں آرہا ہے۔اسی لئے افغانستان اور طالبان قضیہ کو پھر سے چھیڑا گیا ہے تاکہ ’’جنگ کی حالت ‘‘ برقرار رہے اور اس کے لئے اب نئے سرے سے ہندوستان کو شامل کیا جا رہا ہے۔ امریکی تھِنک ٹینک کا مطالعہ پائے درجے کا ہوتا ہے، خاص طور پر تخریب کاری کے لئے ان کا جواب نہیں ۔اُنہیں اپنے اسلحے اور جنگی ساز و سامان کی فیکٹریوں کو ہر صورت میں زندہ رکھنا ہے۔اسرائیل بھی اس سلسلے میں اُن کا کٹر حامی ہے۔دونوں کے پیشے تقریباً ایک جیسے ہیں اور اس پر ان کی معیشت ٹکی ہوئی ہے ۔دنیا میں اگر جنگ والی حالت بنی نہیں رہے گی تو ان کے جنگی سازماوسامان کا کیا ہوگا؟کیا اُن میں زنگ نہیں لگ جائے گا؟اس لئے انہیں جنوبی ایشیا آسان چارہ لگ رہاہے جس میں پاکستان کی حیثیت کم خطرناک نہیں۔اب لگتا ہے کہ پاکستان کا نمبر ہے۔افغانستان، عراق اور شام کے بعد اب اسے نیست و نابود کرنے کی کوشش کی جائے گی اوراس کے لئے ہندوستان استعمال ہو گا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نریندر مودی کے ستارے ابھی تک نہ صرف اچھے چل رہے ہیں بلکہ ساتھ بھی دے رہے ہیں اور حالات ان کے لئے موافق بنے ہوئے ہیں۔وہ چاہیں تو اس کا استعمال مثبت طور پر کر کے ہندوستان کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں ۔ایسے میں انہیں چاہئے کہ وہ خواہ مخواہ کے غیر ضروری کاموں میں خودکو نہ الجھائیں۔ویسے بھی مذہبی پیچیدگیوں اور مسائل میں اُلجھ کر وہ اپنا اچھا خاصا وقت ضائع کرچکے ہیں۔اجیت ڈوبھال کی پالیسی کی اُٹھک بیٹھک بھی وہ دیکھ چکے ہیں۔اس لئے امریکہ کے دام میں آنے سے وہ اپنے کو ہر قیمت پر روکیں۔ امریکہ کبھی کسی کا دوست نہیں رہا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ وہ جہاں بھی گیا ہے تخریب کاری اور فتنہ پرور ہی کی ۔اس کا جانی نقصان تو آٹے میں نمک کے برابر ہوتا ہے، البتہ اس نے دوسرے معصوموں کو لاکھوں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اتارا ہے۔دہشت گردی کے لعنت ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کی بیخ کنی میں کوئی امریکہ کا دوست ہو اجائے، یہ ضروری نہیں۔یہ کام اپنے طور پر بھی کیا جا سکتا ہے جس میں بات چیت کا بھی راستہ کھلا ہوا ہے۔پاکستان کی بوکھلاہٹ یا شرارت ہمارے لئے بھی سم قاتل ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے شانہ بہ شانہ چین کھڑا ہے اور روس اور ایران چین کے ہم نوا بنے ہوئے ہیں۔اس نئی صف بندی میں ہم کہاں کھڑے ہیں اور خود کو کتنا طاقتور محسوس کرتے ہیں؟ہم سے بہتر کون جان سکتا ہے؟بہتر تو یہی ہوگا کہ ناوابستہ رہ کر ہم خود کو محفوظ و مضبوط کر لیں خواہ نہرو ہمیں ایک آنکھ کیوں نہ بھائیں؟
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883