حضرت ا میر کبیرسید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ شہر ہمدان میں جوکہ ترکستان میں واقع ہے،۱۲جب المرحب ۷۱۴ھ میں سید شہاب الدین ؒ وسیدہ بی بی فاطمہ ؒ کے یہاں تولد ہوئے۔سید علائو الدین سمنانی جو آپ ؒ کے ماموں بھی تھے ،نے بارہ برسوں تک آپ ؒ کی تعلیم تربیت کی۔ پھر آپ ؒ حضرت شیخ شرف الدین مزد قانی ؒ کی تربیت میں چھ برس رہے ، اور اس طرح بارہ برسوں میں آپ ؒ نے قرآن پاک کے ساتھ ساتھ دوسرے علوم بھی حاصل کئے۔ حضرت شرف الدین مزدفانی ؒ نے ہی آپؒ کو سیرو سیاحت کی اجازت دی اور حضرت ا میر کبیرسید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی سیاحت کا آغاز 730ھ میں کیا اور21سال کے بعد 752 ھ میں سیاحت عالم سے فارغ ہوئے ۔ اس عرصہ میں چودہ سو اولیا ء اللہ سے ملاقی ہوئے۔ حضرت شاہمدانؒ تین بار کشمیر بھی تشریف لائے، پہلی بار سطان شہاب الدین کے عہد حکومت یعنی ۷۷۴ھ میں اور صرف چارماہ رہنے کے بعد واپس تشریف لے گئے۔دوسری بار ۷۸۱ھ میں کشمیر تشریف لائے ا ور آپؒ کے ہمراہ سو سادات کی جمعیت تھی جنہوں نے کشمیر کے مختلف علاقوں میں قیام کیا اور لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کیا ۔ا نہوں نے سماجی، معاشی اور ثقافتی زندگی میں بھی تبدیلی لانے میں بھی لو گوں کی رہنمائی فرمائی ۔ آپؒ خود محلہ علاوالدین پورہ جہاں اس وقت خانقاہ معلی واقع ہے، مقیم رہے۔تیسری مرتبہ آپ ؒ نے ۷۸۵ھ میں تشریف لاکر یہاں ایک سال قیام کیا ۔ بعد میں خرابی ٔ صحت کی وجہ سے واپس تشریف لئے گئے۔ حضرت امیرکبیر میرسید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ کی تشریف آوری سے یہاںپر اسلام کی ایک ایسی تاباںمشعل روشن ہوئی جس کی روشنی سے پوری وادی منور ہوئی۔شاہ ہمدانؒ نے پوری زندگی اللہ کی وحدانیت ، کلمتہ الحق اور سنت رسولﷺ کے لئے وقف کرکے اہل کشمیر کو پیغام دین سے روشناس کرایا کہ پوری قوم روز آخر تک امیر کبیر کی مرہون منت رہے گی ۔ آپ ؒ کی بدولت ہم کفراورشرک کی ضدالت سے نکل کرایمان ،اسلامی تعلیمات، نعمہائے دنیا سے مالا مال ہوئے۔ حضرت شاہ ہمدانؒ نے نہ صرف کشمیریوں کوعلم وعرفان اور راہ حق کی دولت سے مالامال کیا بلکہ معاشی ،سماجی ،ثقافتی زندگی کو بھی آسودہ کیا۔ ملت اسلامیہ کشمیر کے محسن عظیم حضرت شاہ ہمدان ؒ اپنے منفرد مقام ِ ولایت اور دعوت وتبلیغ کی بدولت باشندگانِ کشمیر کے قلب وجگر میں بسے ہیں ۔ حضرت شاہ ہمدان ؒ کی دینی محنت اور تبلیغی کاوشوں سے ارض کشمیر میں بھی بہت بڑے بڑے اولیائے اللہ اورعلماء کرام پیدا ہوئے جن میں خاص کرحضرت علمدار کشمیرؒ شیخ نوار الدین نوارنی اؒور حضرت شیخ حمزہ مخدمؒقابل ذکر ہیں ۔حضرت امیر کبیر میرسید علی ہمدانی ؒ بیک وقت عارف باللہ ،مبلغ دین ،مفسر ، محدث ، سیاح ،فلسفی اوراعلیٰ رتبے کے ادیب تھے۔آپؒ کی تصانیف جوعربی اور فارسی زبانوں میں ہیں ۔یہ مختلف موضوعات پر ہیںجن میں علوم قرآن والحدیث ، تزکیہ و عرفان اور دیگر موضوعات شامل ہیں ۔ان علمی کتا بوں کی تعداد ایک سو سے زائد ہے۔ اورادفتحیہ جو توحید کا ایک لامثال نسخہ اور وظیفہ ہے کو ورد کرنے سے انسان کوسکون مل جاتا ہے۔ حضرت شاہ ہمدانؒ کی بلند پایہ ادبی وعلمی شاہ کا تصنیف’’ ذخیرۃ الملوک ‘‘ دس ابواب پر مشتمل ہے ،اور اپنے موضوع پر ایک اہم تصنیف ہے ۔ حضرت شاہ ہمدانؒ ذخیرۃ الملوک‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جو شحض امیری کے زوراور حکمومت کے غلبہ سے لاچارو عاجز اور غریبوں پر ظلم روارکھے ،اس کی بدبختی اس کے ابدی سعادت کی راہ کو بند کردیتے ہیں۔ وہ شخض ظلم اور ظلمت کی رسوائی میں گرفتار ہوگا۔ ۔اس عظیم المرتبت صاحب علم عارف باللہ اور حق پرست داعی ٔ اسلام نے راہ حق کے سفر میں بڑی صعوبتیں برداشت کیںجب تبلیغ دین کے لئے ایک ملک سے دوسرے ملک تک پا پیادہ پیدل سفرکیا مگر ہر حال میں راضی بہ رضائے حق ر ہے۔حضرت شاہمدانؒ نے کشمیر میں اسلام کو ترویج دینے میں ان تھک محنت کی تب جاکر یہ کفرستان اسلام کا منارہ ٔ نور بنا ۔ آخر کار اس حق نوا وحق پرست اور فنا فی اللہ جید عالم دین ، ولی ٔ کامل ، مصنف ، سخن ور، ادیب ، ماہر معاشیات و معلم سیاسیاست شرعیہ نے اپنی گراں قدر خدمات کی زریں تاریخ اپنے پیچھے چھوڑ کر اللہ کے بلاوے پر۶؍ ذی الحجہ ۷۸۶ھ میں کُنار میں لبیک کرگئے ااور ختلان میں ابدی آرام فرمایا۔ آپؒ کے مزار کے بارے میں ایک روسی عالم پاولوسکی نے ۱۱؍ اگست1947؍ ایک مقالے میں لکھا کہ آں جناب ؒ کا مزار شہر کولاب کے مشرق میں واقع ہے اور مزار سّید علی ہمدانیؒ کے نام سے معروف ہے۔ یہ 596برس قبل بنایا گیا اور چودھویں صدی کے تاجک فن تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔مزار میں داخل ہونے کے چار راستے ہیں ۔مقبرہ کے چاروں طرف محرابیں بنی ہوئی ہیں اور عظیم الشان عمارت گیارہ کمروں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے دو کمرے بڑے ہیں اور نو چھوٹے ۔ ہر کمرے کے اوپر ایک گنبد بنا ہوا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ ’’رسالہ مستورات‘‘ میں ہے کہ شاہ ہمدان ؒ نے ختلان میں زمین خرید کر وصیت کی تھی کہ انہیں یہاں دفن کیا جائے۔بہر حال کشمیر میں شہر خاص سری نگر کے زینہ کدل متصل آپ ؒ کی خانقاہ موجود ہے جس نے نہ صرف آج تک تاریخ کشمیر کے نشیب و فرازدیکھے بلکہ جو یہاں کی روحانی ا ور سیاسی تحریک میں ایک زندہ جاوید کردار کرتی رہی ہے اور اس وقت بھی راہ حق کی سمت رہبری کرتی ہے اور آئند بھی کرتی رہے گی(انشاء اللہ)۔ دعا ہے کہ امیر کبیر حضرت شاہ ہمدان علیہ الرحمہ نے جس کشمیر کو اسلام کی شادابیاں بخشیں وہ کشمیر پھر ایک بار پُر بہار اور آزاد وباوقار خطہ زمین بنے ۔ آمین
رابطہ اومپورہ بڈگام 9419500008
نوٹ: مضمون نگار جموں کشمیر لبریشن فرنٹ
سے وابستہ ہیں ۔