سرینگر// جموں وکشمیر حکومت نے اسکولی بچوں کے بستوں کا بوجھ کم کرنے کے لئے ماہرین کی ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ تشکیل دی گئی کمیٹی اسکولی بستوں کا وزن کم کرنے سے متعلق تجاویز پر مبنی اپنی رپورٹ ایک ماہ کے اندر حکومت کو پیش کرے گی۔ دوسری جانب جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے اسکولی بچوں کے بھاری برکم بستوں کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ معاملے کو ہلکے میں نہیں لیا جاسکتا ہے۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بدر دریز احمد اور جسٹس سنجیو کمار پر مشتمل ڈویژن بنچ نے گذشتہ روز معاملے پر سماعت کرتے ہوئے کہا ’بھاری برکم بستوں کے معاملے میں مکمل تعمیلی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جائے۔ معاملے کو ہلکے میں نہیں لیا جاسکتا ہے‘۔ بنچ نے کہا ’یہ ہمارے بچے ہیں جو متاثر ہورہے ہیں۔ ان کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے اسکولوں کی جانب سے مناسب ٹائم ٹیبلز ترتیب دیے جانے چاہئیں‘۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسکولی بچوں کے کمر توڑ بستوں کے معاملے کو لیکر ایک 21 سالہ طالب علم بدرالدوجا خانیاری نے سال 2016 کے اوائل میں ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ بدرالدوجا جو کہ کشمیر یونیورسٹی میں ایل ایل بی سال اول کے طالب علم ہے، نے معاملے پر دائر کردہ مفاد عامہ کی عرضی میں ہائی کورٹ سے گذارش کی تھی کہ وہ متعلقین کو پالیسی فیصلہ سامنے لیکر آنے کی ہدایات جاری کریں تاکہ معصوم بچوں کو بھاری برکم بستوں کے باعث ہونے والے صحت کے مسائل سے بچایا جاسکے۔ عرضی گذار نے اسکولی بچوں کے بستوں کا وزن کم کرنے کے لئے اسکولوں میں ای کلاس روم، صوتی بصری ٹیکنالوجی اور تدریس کے لئے دیگر تکنیکی ذرائع کے استعمال کی تجویز پیش کی تھی۔ ریاستی حکومت نے اب ہائی کورٹ کی مسلسل پھٹکار کے بعد اسکولی بستوں کا بوجھ کرنے کے لئے ماہرین کی ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ سکریٹری اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ فاروق احمد شاہ نے اس سلسلے میں 28 اگست کو جاری کردہ حکم نامے میں ماہرین کی چار رکنی کمیٹی کی تشکیل کو منظوری دے دی ہے۔ ماہرین کی کمیٹی میں پروفیسر اے جی مدہوش، پروفیسر (ڈاکٹر) نصرت اندرابی ، پروفیسر عبدالجبار اور پروفیسر وینا پنڈیا شامل ہیں۔ حکومت کی جانب سے اسکولی بچوں کو بھاری برکم بستوں سے خلاصی دلانے کے سلسلے میں ماہرین کی کمیٹی تشکیل دینے کے اقدام کی اہلیان جموں وکشمیر نے خیرمقدم کیا ہے۔ سماجی کارکن و سابق بیوروکریٹ فاروق احمد نے اسے انقلابی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسکولی بچوں کو کمر توڑ بستوں سے خلاصی ملنے کی ایک نئی امید پیدا ہوگئی ہے۔ ماجد علی ٹاک نامی شہری نے بتایا ’یہ بھاری برکم بستے ہمارے بچوں کے نازک کندھوں کو شدید نقصان پہنچارہے ہیں‘۔ محمد سلیم نامی شہری نے بتایا ’یہ اسکولی طلباء کے لئے ایک اچھی خبر ہے۔ امید کرتے ہیں کہ ننھے کندھوں پر اب بوجھ کم ہوگا‘۔ ہائی کورٹ نے گذشتہ برس 30 مئی کو اسکولی بچوں کے بھاری برکم بستوں کے معاملے میں ریاستی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس کے تدارک کے لئے پالیسی بنانے کی ضرورت پر تین ماہ کے اندر اپنا فیصلہ لیکر سامنے آئے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ بچوں کو بھاری برکم بستے روزانہ اسکول ساتھ لے جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ اُس وقت کے چیف جسٹس جسٹس این پال وسنت کمار اور جسٹس ڈی راج سنگھ ٹھاکر پر مشتمل ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے بدرالدوجا خانیاری کی مفاد عامہ کی عرضی کی سماعت کرتے ہوئے ریاستی کمشنر سکریٹری ایجوکیشن کو تین ماہ کے اندر خانیاری کی عرضی پر غور کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاملے پر مناسب فیصلہ اکیلے حکومت کو ہی کرنا ہے۔ مہاراشٹر حکومت نے سال 2015 میں اسکولی بچوں کے بھاری برکم بستوں کے معاملے کو لیکر ایک پینل تشکیل دی تھی جس نے اپنی رپورٹ میں ا نکشاف کیا تھا کہ طاقت سے زیادہ وزنی بستے اٹھانے سے 58 فیصد سے زائد دس سال سے کم عمر کے بچے آرتھوپیڈک بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ مذکورہ پینل نے اس مسئلے کے حل کے لئے کتابوں اور کاپیوں کے مشترکہ استعمال کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے جدید تدریسی طریقوں کے استعمال کی سفارش کی تھی۔ بستوں کا وزن کم کرنے کے سلسلے میں پینل نے 44 تجاویز پیش کی تھیں۔ پینل کی سفارشات یا تجاویز کے بعد ریاستی حکومت نے جولائی 2015 ء میں اعلان کیا تھا کہ سکول کے بستے کا وزن طالب علم کے اپنے وزن سے کسی صورت 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اسکولی بچوں کے بستوں سے متعلق قانون ’اسکول بیگ ایکٹ 2006‘ کی رُو سے اسکولی بچوں پر ان کے وزن کا صرف دس فیصد بوجھ بیگ کی صورت میں ڈالا جاسکتا ہے۔ اس قانون میں ذکر شدہ وزن سے زیادہ بوجھ عائد کرنے والے اسکولوں اور اساتذہ کے خلاف قانون میں کارروائی کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ عرضی گذار خانیاری نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ طبی لحاظ سے اسکولی بستے کا وزن ایک طالب علم کے وزن کا دس فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کو اسکول منتظمین کو اسکولوں میںپینے کا صاف پانی دستیاب رکھنے کے لئے کہنا چاہیے تاکہ بچوں کو پانی کی بوتلیں ساتھ نہ لانی پڑیں۔ انہوں نے اس کے علاوہ اپنی عرضی میں اسکولوں میں 8 کاپیوں کے بجائے صرف 2 کاپیوں کے استعمال اور اسکولوں میں کتابوں اور کاپیوں کے لئے ریک اور لاکر دستیاب رکھنے کی تجویز پیش کی تھی۔ بدرالدوجا کا کہنا ہے ’اسکولی بچوں کے بھاری برکم بستے اب گلوبل سطح پر گھمبیر شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ جب میں اسکول میں پڑھتا تھا تو مجھے بھی بھاری برکم بستے کی وجہ سے کمر کی تکلیف سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اب یہ مسئلہ سنگین رخ اختیار کرچکا ہے۔ چوتھی سے دسویں کلاس کے طالب علموں کے بستے اب چھ کلو اور اس سے زیادہ وزن کے ہوتے ہیں‘۔ انہوں نے کہا ’ میں نے وزنی بستوں کے حوالے سے ناظم تعلیم اور کمشنر سکریٹری کو دو مکتوب لکھے تھے مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا تھا۔ اس کے بعد مجھے مجبوراً ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا ‘۔ بدرالدوجا نے کہا کہ حکومت کو اب پالیسی لیکر سامنے آنا چاہیے تاکہ اس مسئلے کو حل کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کرنے سے قبل انہوں نے معاملہ کی سنگینی پر کافی تحقیق کی اور زیادہ وزنی بستوں کے مضر اثرات پر جرائدمیں شائع شدہ مضامین اور اخباری رپورٹیں اکٹھا کیں۔ آرتھوپیڈک ماہرین کا کہنا ہے کہ بھاری برکم بستوں کی وجہ سے اگرچہ کم عمر طلبہ کی جانب سے پیٹھ اور کمر کی شکایت عام ہے، تاہم اس سے ریڑھ کی ہڈی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ بھاری برکم بستے اٹھانے سے نہ صرف بچے تھک جاتے ہیں بلکہ یہ ان کی ریڑھ کی ہڈی اور جوڑوں میں درد کا سبب بن رہے ہیں۔ غلام مصطفی نامی ایک شہری جن کی چھوٹی بچی ایک سرکاری اسکول میں پانچویں جماعت میں پڑھتی ہے، نے بتایا کہ اُن کی بچی قریب پانچ سے چھ کلو وزنی بستہ لیکر اسکول جاتی ہے جس سے صحت پر منفی مضر اثر پڑنے کا قومی احتمال ہے۔