عید سے صرف دو روز قبل ککر پتی دیور لولاب میں ایک نوجوان کی مبینہ زیر حراست گمشدگی سے حقوق انسانی کی پامالیوں کا وہ باب دوبارہ کُھل گیا ہے، جو نوے کی دہائی میں ایک عرفِ عام کی حیثیت اختیار کر گیاتھا اور جسکے دوران حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی انجمنوں کے مطابق تقریباً 10ہزار کے قریب عام شہریوں کو مختلف اوقات پر حراست میں لیا تو گیا لیکن اُنہیں آسماں کھا گیا یا زمین نگل گئی، اس کا آج تک کچھ پتہ نہیں چلا۔ اُن گمشدگان کے اہل خانہ آج بھی سرینگر کے مرکز میں واقع پرتاپ پارک میں پُرنم آنکھوں کے ساتھ خاموش احتجاج کرتے رہتے ہیں، لیکن انکا کوئی پُرسانِ حال نہیں اور نہ ہی گمشدگان کے عالمی دن30اگست پر حکومت کی جانب سے اس پر کوئی بیان جاری کیا جاتا ہے۔ حراستی گمشدگی کا یہ تازہ واقع اس حوالے سے انتہائی فکر و تشویش کا باعث ہے کہ یہ نوجوان ایک عام شہری تھا اور اپنے ہمراہیوں کے ساتھ مویشیوں کی دیکھ ریکھ کے لئے بالائی پہاڑی علاقہ میں واقع ایک بہک کی طرف جارہا تھا۔ میڈیا کے توسط سے جو خبریں آئی ہیں ، اُن کے مطابق ترمکھ بہک جانے کے لئے لوگوں کو ایک فوجی کیمپ سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے، جہاں انہیں اپنے ناموں کا اندراج کرانا ضروری ہوتا ہے۔ گمشدہ منظور احمد کے لواحقین کے مطابق اس کام کے لئے موصوف کو اپنے ساتھی نصراللہ کے ساتھ کیمپ کے اندر بلایا گیا۔ لیکن جب شام تک وہ واپس نہ لوٹے تو لوگوں کے احتجاج کرنے پر نصر اللہ کو زخمی حالت میں چھوڑ دیا گیا، لیکن منظور احمد کے بارے میں کیمپ والوں نے لاعلمی کا اظہار کیا، جس کی وجہ سے علاقہ دیور میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔ عوام کی طرف سے شدید احتجاج کے بعد اگرچہ پولیس کی جانب سے مذکورہ نوجوان کی گمشدگی اور اس کے ساتھی کو تشدد کا شکار کرنے پر ایف آئی آر درج کئے ہیں تاہم تاایں دم فوج متذکرہ واقع کے بارے میں انکاری ہے۔ دیور لولاب کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے، جب جموں و کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے ملک بھر میں میڈیا اور سوشل میڈیا کی جانب سے ایک ایسی مخالفانہ مہم شروع کی گئی ہے، جس کے منفی نتائج جابجا سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ چند ہفتے قبل ہی کپواڑہ ضلع کے تارت پورہ علاقہ میں ایک طالب علم کی لاش اس کے لواحقین کے حوالے کی گئی جس کے بارے میں فوج کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک جنگل میں فوجیوں کے ساتھ عسکریت پسندوں کی مڈبھیڑ میں مارا گیا۔حالانکہ پولیس نے اس کے لواحقین کو یہ سند بھی فراہم کی کہ مذکورہ نوجوان کا نہ تو کوئی پولیس ریکارڈ ہے اور نہ ہی اُس کے بارے میں ایسی کوئی اطلاع تھی کہ اس کا عسکریت پسندوں کے ساتھ کوئی تعلق تھا۔ چند دنوں کے اندر ان دو واقعات نے علاقہ بھر میں خوف و دہشت کے ساتھ احتجاج و اشتعال کا عالم برپا کردیا ہے، جو انتہائی تشویشناک امر ہے کیونکہ اس کے متعدد منفی مضرات سامنے آنے کا اندیشہ ہے، جیسا کہ ماضی میں دیکھنے کو ملا ہے۔ اگرچہ مرکزی و ریاستی سرکار کی جانب سے نوجوان نسل کو مین سٹریم کی جانب مائل کرنے کے لئے کروڑوں روپے کے صرفے سے مختلف منصوبے مرتب کرکے انہیں عملانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، لیکن دوسری جانب تواتر کے ساتھ ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں، جن میں نوجوان نسل ہی نشانہ بن رہی ہے۔ یہ تضاد انتہائی خطرناک اور تشویشناک ہے، کیونکہ اگر یہ ایک رجحان کی صورت اختیار کرتا ہے تو اس کے منفی نتائج برآمد ہونا ہے۔ فی الوقت مذکورہ لاپتہ نوجوان کے اہل خانہ خون کے آنسو رو رہے ہیں اور اس کی ماں عید کے روز بھی ، جب ساری دُنیا خوشیوں سے معمور سرفراز ہورہی تھی، اپنے گھر کے آنگن میں بیٹھ کر اپنے بیٹے کے انتظار میں آنسو بہا رہی تھی۔ ریاستی حکومت جو ’’گولی نہیں بولی‘‘ کی حامل پالیسی کی دعویدار ہے، کی جانب سے دیور واقع پر جو ردعمل ظاہر ہونا چاہئے تھا، وہ اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ خاص کر ایسے حالات میں جب گمشدہ شخص ایک ریاستی وزیر کا رشتہ دار بتایا جاتا ہے۔ حالیہ ایام میں کلہم طور پر جو ماحول بن رہا ہے وہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ’’گولی سے نہ گالی سے‘‘ والے منتر کے بالکل برعکس ہے، جس سے یہ اُمید پیدا ہوچکی تھی کہ کشمیری عوام خاص طور پر یہاں کی نوجوان نسل کو راحت ملے گی۔ مگر فی الوقت دور دور تک ایسا ماحول دکھائی نہیں دے رہا ہے۔