جس مسلم قوم کے جیالوں نے نوے سال تک انگریزوں کی غلامی میں جکڑے ہو ئے اس ملک کو آزادی سے ہمکنار کیا ،اور گوروں کے ہاتھوں ملک یر غمال بننے کے بعد کو از سرنو شادابی و ہریالی سے واقف کرایا، وہ کسی بھی حال میں اس ملک دشمن نہیں ہو سکتے ۔ملک کی پر امن فضا میں زہر نفرت گھولنے والے جھوٹی سیاست کے علمبرداروں کو یہ بات بھی یا د رکھنی چا ہئے کہ مسلمانوں نے اور خاص طور سے علماء دین اور اکابر اسلام نے اس گلستان ِہند کی آبیاری اپنے قلب و جگر سے کرنے کے عوض اپنے لہو سے غاصب و ظالم انگریزکوملک چھوڑنے پر مجبور کیا ، پھانسی کے پھندوں کو ملک کی آزادی کی خاطر خوشی خوشی اپنی گردنوں میں ڈلوایا کہ آج ملک کو مسلمان کو مکت بنانے والے راج تاج کر رہے ہیں ۔آزادیٔ ہند کی خاطر اور حب الوطنی کی مثال بنتے ہوئے ہند وستانی مسلمان اس وقت یہ انمول قربانیاں دے رہے تھے جب آج کے فرقہ پرستوں کے نظریاتی سرپرست انگریز وںکہ کاسہ لیسی اور جی حضوری میں ان کے تلوے چاٹتے تھے اور انقلابیوں کے خلاف انگر یزوں کے دربار میں جاجاکر مخبری کر تے تھے۔ مسلم قوم کی یہ قربانیاں ہر وقت اور ہر آن ہمارے اذہان وقلوب میں نیا جوش و ولولے پید ا کرتی رہیں گی۔مسلمانوں کا یہ خاصا ہے کہ ان میں سچ کی خاطر وقت پڑنے پر محض اللہ اور بندگان ِ خدا کی مجموعی بھلائی میںشوق ِشہادت رقص کرنے لگتاہے، جس کے زیر اثرصالح نوجوانوں پر ایک خاص قسم کی مثالی کیفیت پید ا ہوجاتی ہے ۔ اس لئے یہ سوچنا کہ فرقہ پرستوں اور بزدل و کور نگاہ سیاسی کھلاڑیوں کی بھڑکیوں سے مسلم اقلیت مرعوب ہو کر دب جائیں گے ،یہ تصور کرنا نہایت بچکانہ سوچ ، مجنونانہ عمل ہے۔ کوئی ذی عقل اور خرد مند تاریخ کے انمٹ نقوش کا نظارہ کر کے اگر اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے تو یہ اُس کی ذہنی بیماری کا عکاس ہے۔ہندوستان کو آ زاد کرانے میں جتنی قربانیاں مسلم رہنمائوں نے دیں اُسے زیادہ دیگر مذاہب کے نیتائوں نے نہیں دی ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ آزادیٔ ہند میں رہنمائی کا سب سے بڑا چہرہ گاندھی کا سامنے آیا اور پر وجیکٹ کیا گیا ، وہ ایک پکا ہندو تھا لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اس چہرے کے علاوہ دیگرمذاہب کے لوگوں کی قربانیوں کو فراموش کیا جائے۔اس لئے آزادیٔ ہند کی تاریخ میں مسلمانوں کی قربانیوں کو جھٹلانے کے بجائے تاریخ کو غیر جانب داری کے ساتھ پڑھاجائے تویہ بات اظہر من الشمس ہوجائے گی کہ ہندوستان کوآزادی دلانے میں مسلمانوں کا قد ہر اعتبار سے بلند و ارفع ہے۔پنڈت جواہر لال نہرو، پٹیل بلکہ گاندھی جیسے غیرمسلم نیتاؤں نے بھی مسلمانوں کی وطن عزیز کو آزاد کرنے کی خاطر دی گئی قربانیوں اور کوششوں کا کھل کر اعتراف کر کے ا ن کی ستائش میں کوئی بخل نہ کیا۔
آج واقعی ملک کو ہندو ،مسلم ، سکھ ،عیسائی عظیم اتحاد کو توڑ نے کی ناپاک کوشش کی جا رہی ہیں اور خاص کر آزادی ٔ ہند میں مسلمانوں کی ناقابل ِ فراموش قربانیوں کو تاریخ کے پنوں سے نکال کر ملکی تاریخ کو بدلا جا رہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس گھنائونی سوچ سے تاریخ میں رقم مسلمانوں کی قربانیوں کو مٹایا جا سکتا ہے ؟ کیا اس طرح آر ایس ایس اور بھاجپا کے نا پاک عزائم کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں؟ اپنے موجودہ دورِ اقتدارر میں آرایس ایس اور بھاچپا کے مقتدر عناصر دیش کو اپنی جاگیر سمجھ کر اقلیتی مسلم طبقہ کو زیر کرنے کے طرح طرح کے حربے اپنارہے ہیں لیکن اُن کا ہر نا پاک حربہ ناکام ثابت ہو رہا ہے ۔ملک میں آر ایس ایس اور بھاجپا نے نفرتوں اور کدورتوں کا بازار گرم کر رکھا ہے، حالا نکہہندو اپنی ذات برادری میں ہر مسلمان کو اپنا بھائی سمجھتا ہے اور مسلمان ہندو ہم وطن کا خیر خواہ ہے لیکن حکومت ِ وقت اپنی غلط اور غلیظ سیاسی پالیسوں بالخصوص’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے گورکھ دھندے چلاکر ہندو مسلم طبقات میں شکوک وشبہات پیدا کر کے انہیں آپس میں لڑوارہا ہے۔ ظلم و بربریت کی اس داستان کے بیچ ہندوستان عالمی سطح پر بدنام ہو رہاہے۔اس طرح کی فضا میں ڈیجیٹل انڈیا کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا بلکہ ملک دن بدن نفرتوں کی گرفت میں اس قدر جکڑا جائے گا کہ جمہوری ملک کہلانے والا ہندوستا ن ترقی نہیں پستی وبدحالی کی جانب لڑھکتا جائے گا ۔کسی بھی مذہب کے ماننے والے کو اس کے مذہب کے مطابق عبادت کرنے، من پسند لباس اور کھان پان سے سے روکنا آزاد ہندوستان کی قابل تعریف مثال نہیں بن سکتی۔ یاد رکھئے کہ چشم فلک نے ہندوستانی مسلمانوں کے آہنی عزم و حوصلے کو دیکھا ہے جب انہوں نے وقت کے سپر پاور انگریز کے خلاف علم جہاد بلند کیا تو اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک تحریک آزادی کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا۔ افسوس صدافسوس کہ آج ایسے لوگ جن کا آزادیٔ ہند میں کوئی قابل ذکر کارنامہ ہے ہی نہیں،وہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگا کر انہیں طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے ستائے جا رہے ہیں ۔ان فسطائیت پسندوں کو میں صاف لفظوں میں بتا نا چاہتاہوںکہ ہمارے عزم و استقلال نے انگریز سے بھی لوہے چنے چبوادئے،تم کس کھیت کی مولی ہو؟تم آج ہماری حب الوطنی پر شک پیداکر کے خود کو تیس مارخان بنے ہماری کردار کشی کرر ہے ہو ، یہ ایک انتہائی شرمناک سوچ اور بے ہودہ حرکت ہے۔ ملک کے یہ نام نہاد دیش بھگت جتنی جلد سمجھ جائیں اتنا بہتر ہے کہ مخصوص جمہوری نظریے کے تحت نیا ہندوستان کا تصور بھائی ،چارے ، یگانگت ، امن و امان اور اتحاد کی عدم موجودگی میں ناقابل فہم ہے ۔ دیش بھگتی کا تقاضا واقعی’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ ہے نہ کہ’’ سب کا ساتھ سب کا وناش‘‘ ہے ۔
رابطہ؛9797110175,9103193805
E-mail:[email protected]