ہماری گاڑی کا رُخ مزدلفہ کی جانب تھامگر شوق کا پنچھی ابھی عرفات کے دلآویز مناظر میں کھو یا سا تھا ۔ یہ جاذب ِ نظر مناظر ہوتے ہی ایسے ہیں کہ ان سے ایک ہاتھ میدانِ عرفات کی شان دوبالا ہوتی ہے اور دوسرے ہاتھ ذرا گہرائی سے دیکھئے تو یہ اجتماع میدان ِ محشر کا مثیل لگے گا ۔ شوق کا پنچھی گزرے زمانوں کے اُن ایام کے ادھیڑبُن میں بھی تھا جب عرفات میں دورِ حاضر کی طرح جدید ترین سہولیات کا وہم وگمان میں بھی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہاں کی ریتلی زمین دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں گرم تانبے کی طرح تپ جاتی اور بر ہنہ سر و احرام پوش ضیوف الرحمن ( اللہ کے مہمان یعنی حاجی صاحبان) لُو کی ناقابل برداشت حدت و تپش سے بے نیاز اللہ سے کسی چشمہ شاہی کا آب ِ زُلال نہیں مانگتے بلکہ اپنے کپکپاتے ہاتھوں، لرزتے ہونٹوں اور بر ستی آنکھوں سے اپنی بخشش ومغفرت اور جہنم کی آگ سے نجات کی دعائیں کرتے، اللہ سے منت سماجت کر تے، اس کی صفت ِغفاری کی دہا ئیاں دیتے ۔ میدان عرفات نے وہ ناقابل فراموش دن بھی دیکھا جب ایک لاکھ چوبیس ہزار ( ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ چالیس ہزار صحابہ ؓ ) نے لبیک کی فلک شگاف گونج میں پیغمبر اسلام صلی ا للہ علیہ و سلم کو جن کے دوش ہائے مبارک ساری انسانیت کا بار ہے ، اللہ کے حضور انسان کی درماندگی ، بے چارگی اور بے وقعتی کو دعائے سیدالاستغفار کے قالب میں سمو کر بارگاہ ِ الٰہیہ میں پیش کیا: اے اللہ! تو میری بات کو سنتا اور میری حیثیت کو جانتا ہے ۔ تجھے میرے ظاہر اور میر ے پوشیدہ ہر چیز کا علم ہے، میرے متعلق کوئی بات ایسی نہیں جو تجھ سے مخفی ہو۔ میں بدنصیب مانگنے والا اور التجا کر نے والا ہوں ، فریادی ہوں ، پناہ جُو ہوں ، پریشاں ہوں، ہراساں ہوں ، میں تجھ سے ڈرتااور اپنے گناہ کا اعتراف کر نے والاہوں۔ تیرے آگے سوال کرتاہوںجیسے بے کس تیرے آگے سوال کر تے ہیں۔ تیرے آگے گڑ گڑاتاہوںجیسے گناہ گار ذلیل وخوار ہوکر گڑ گڑ اتا ہے اور تجھ سے طلب کر تاہوں ، جیسے خوف زدہ آفت رسیدہ طلب کر تاہے اور جیسے وہ شخص طلب کر تاہے جس کی گردن تیرے سامنے جھکی ہوئی ہو اور ( شدتِ ندامت سے ) اس کے آنسو بہہ رہے ہوںاور تن بدن سے وہ تیرے آگے فروتنی کئے ہوئے ہو اور اپنی ناک تیرے سامنے رگڑ رہاہو۔ اے اللہ ! تو مجھے اپنے سے دعا مانگنے میں ناکام ونامراد نہ لوٹا اور میرے حق میں بڑا مہربان اور رحیم وکریم ہوجا۔ اے سب سے بہتر سوال کئے جانے والے! اور اے سب سے بہتر اکرام و عطاکی بارش کرنے والے! ( بیہقی ، طبرانی )
یہ منفرد دعائے رسول ؐ ہے ،اس میں بندے کی عجز و انکساری اور ضعف و درماندگی کا جو مرقع کھینچا گیا ہے ، اس کا مطلوب یہ ہے کہ بندہ اللہ کی یاد میں ،اس کی کبریائی کے اعتراف میں بصدجان رطب اللسان ہی نہ رہے بلکہ اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کے اقرارمیں بھی سراپا عجز وانکسار بنارہے ،وہ توبہ و استغفار کے مجرب نسخے سے اپنی معافی تلافی کر واکے زندگی کے ایک ایک گوشے میں اللہ کی رضا کا طالب بن کر جیئے۔ آج بھی یہ دعائیں ارض مقدس میں بآواز بلند ہوتی ہیں، بہت زیادہ ہوتی ہیں ، آنسوؤں اور سسکیوں میں ڈھل کر ہوتی ہیں، آمین کہنے والے بھی بیس تیس لاکھ نفسوس سے متجاوز ہوتے ہیں ، دنیا بھر میں ان دعاؤں پر دلوں سے آہ ِ سوزاں نکلتی ہیں مگر آہ ! بہ حیثیت مجموعی ہم سے اللہ کی ناراضگی کا حال یہ ہے کہ انہیں قبولیت کا شرف حاصل ہی نہیں ہوتا ، کیونکہ ہم میں وہ سوز وگداز نہیں، وہ کامل یقین نہیں ، وہ خدائے برحق کے ساتھ رشتۂ قلب وروح نہیں جو بندگان ِ خدا کی دعا ومناجات کی اجابت وقبولیت کا مژدہ سنانے کی پہلی شرائط ہیں ۔ اسی لئے عرب وعجم میں مسلمان مٹ رہے ہیں اور پٹ رہے ہیں ۔ فی الوقت برما کے روہنگیا مسلمانوں کا ناگفتہ بہ حال احوال اور مسلم اُمہ کی بے ا عتنائی ہمارے لئے درس ِ عبرت وموعظت ہے ۔ بایں ہمہ ہمیں اللہ کی چوکھٹ سے یہ اُمید ضرور رکھنی چاہیے کہ عرفات میں حج کے موقع پر جمع مومنین کے بحر بیکراں میں لا محالہ مخلص اور مستجاب الدعوات بند ہ گان ِخدا لہر در لہرموجود ہیں جن خوش نصیبوں کی دعاؤں کے طفیل نہ صرف اُمت ِ مرحومہ کی بخشش ومغفرت کے سامان ہوتا ہے بلکہ مسلمانوں کے کھلے دشمن اور آستین کے سانپ اپنی زہریلی شقاوتوں اور سازشوں کے باوجود ناکام رہتے ہیں ۔
ہمارا قافلہ مزدلفہ پہنچا۔ مزدلفہ منیٰ اورعرفات کے درمیان واقع ایک بے آب وگیا صحرا ہے ۔ اس پہاڑی علاقہ کا طول چار کلومیٹرہے ۔ اس کی حد وادی ٔ محسر اور مأزمین ( دو پہاڑ جو رُوبرو ہیں ) تک ہے۔ مزدلفہ کو مشعر الحرام بھی کہتے ہیں۔ قرآن مجیدمیں اس کا ذکر موجود ہے : پس جب تم عرفات سے واپس ہو تو معشر الحرام( مزدلفہ )میں ذکر اللہ کرو( بقرہ: ۱۹۸)۔ حرم پاک سے قریباً۶؍ میل کے فاصلے پر یہ شبستانِ جذب وشوق مناسک ِحج کے حوالے سے اہم پڑاؤ ہے ۔ اس کی و جہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ حاجی صاحبان یہاں رات کے اندھیرے میں وارد ہوتے ہیں ۔ کئی لوگ علاقے کے نام کی یہ توجیہہ کرتے ہیں کہ یہاں سے حاجی صاحبان بیک وقت کوچ کر جاتے ہیں ۔ ایک اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ زمین پر اترنے کے بعد اس ی مقام پر ایک ودسرے کے قریب ہوئے۔ حج کے موقع پر عرفات کے میدان کو خطبہ ٔ حج، جمع بین الصلوٰتین اور دعاؤں کی مشقت سے فراغت کے بعد غروبِ آفتاب سے پہلے پہل مزدلفہ میں اللہ کے دیوانوں کی بے خانماں بستی یکایک رات کے اندھیرے میں چند گھنٹوں کے لئے آباد ہوتی ہے ۔ یہ حاجیوں کے لئے سستانے کی جگہ ہے جہاں وہ ایک اذان اور دو اقامتوں سے نماز مغرب وعشاء اداکر کے قرب ِ خداوندی حاصل کر تے ہیں ۔ رندانِ خدا مست تھکے ہارے یہاں فروکش ہوکر لازماً محو استراحت ہوتے ہیں ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ عرفات میں وقوف کے دوران خیمہ زن ہوکر اللہ سے سرگوشیاں کر نا حاجی کے لئے لازم وفرض ہے مگر یہاں اہل ِجذب وشوق کو نیند کی پینگیں لینے کی شرط پوری کرنے میں ہی رضائے الہیٰ مضمر ہے ۔ صدقے جایئے دین فطرت کے کہ انسانی احتیاج اور ضرورتوں کا اس نے کس حد تک پاس ولحاظ رکھاہے ۔ قابل غور ہے کہ مزدلفہ میں ٹھہراؤ کر کے یہ بظاہر ہلکا سا اضافی کام حاجیوں کے تفویض ہوتا ہے کہ یہاں چہار سو پھیل کر ستر عددچھوٹی چھوٹی کنکریاں فرداًفرداً جمع کر کے اپنے پاس ذخیرہ کر لیں۔ دس تابارہ ذوالحجہ ان کنکریوں سے بقیہ مناسک ِحج کی ادائیگی کے ضمن میں ایک اہم رول ہوتا ہے۔ جب منیٰ میں دس ذوالحجہ کو رمی جمرات یعنی شیطان کو سنگسار کر نے کی باری آتی ہے تو متعینہ تعداد میں جمع شدہ یہ کنکریاں ہر ہر حاجی کے ساتھ ہونا لازم ہے۔ رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر مزدلفہ میں مغرب وعشاء کو ملاکر ادافرمایا۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ :’’میں نے یہاں قیام کیا مگر سارا مزدلفہ قیام گاہ ہے ‘‘ حاجی صاحبان جب مزدلفہ میں اپنا پڑاؤ ڈالتے ہیں تو جابجا نمازیں کھڑی ہو جاتی ہیں ۔اس کے فوراً بعد اللہ کے یہ مہمانانِ گرامی قدم قدم پر کنکریاں چنتے دیکھے جاتے ہیں ۔ان کنکریوں کو بڑی دل جمعی کے ساتھ چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں بھر کر رکھاجاتا ہے ۔ اس اہم کام سے فراغت پاکر ہی حاجی صاحبان محو آرام ہوجاتے ہیں ،وہ بھی کھلے آسمان کے نیچے ننگی زمین پر۔ عام لوگوں کا ذکر ہی کیا‘ دنیا کی بڑی بڑی ہستیاں کہلانے والے لوگ اپنے خواب گاہوں کی زیب وزینت ، نرم و ملائم بستروں ، گدوں ، قیمتی صوفوں اور پلنگوں سے بہت دور مزدلفہ کے صحرا میں سر راہ فرش ِزمین پراوڑھنے بچھونے سرہانے کے بغیر ہی پڑے رہتے ہیں ۔ تمام لوگ اونچ نیچ سے بالاتر کسی سڑک کے کنارے، کسی غیرہموار جگہ، کسی چوک چوراہے ، کسی کوڑے دان کی ہمسائیگی میں دراز ہوکر میٹھی نیند کا وہ حظ ونشاط اٹھاتے ہیں کہ نہ بادشاہی محل میں اور نہ غریب کی کٹیا میں نیند اپنی اتنی کیف و سرور کے ساتھ آنکھوں پہ غلبہ پاتی ہے ۔ اس قلندارانہ ادا سے یہ بھی ذہن نشین ہوتا ہے کہ جس سامانِ تعیش پر انسان بالعموم جان چھڑکتا رہتاہے، موت کی ایک ہچکی سے وہ سب کچھ پرایا دھن ہو کر اپنی آنکھیں پھیرلیتا ہے ا ور پھر قبر کی بانہوں میں انسانی پیمانوں میں سے اعلیٰ و ادنیٰ، اونچ نیچ، من ہستم، ایرانی قالین ،افرنگی صوفے سے کوئی سروکارنہیں رہتا، قبر کے گھروندے میں سب ہیچ مند اور مشت خاک ہوتے ہیں ،اِلا یہ کہ آدمی تقویٰ کی دولت اور نیکی کے سرمائے سے مالا مال ہو تو اس کی آؤ بھگت قبر کی سلطنت میںبڑے نا ونعم اور چاؤ سے ہوتی ہے ۔ بہر کیف بے فکری کی نیند کسے کہتے ہیں، اس کا کیا مزا ہوتا ہے، حاجی صاحبان وقوف ِ مزدلفہ سے زندگی میں پہلی بار اس حوالے سے محرم ِراز ہوجاتے ہیں۔ یہاں ٹھہر کر ہر شخص کے رَگ وپے میں گھنٹہ دوگھنٹہ نیند سے ایک عجیب آسودگی اور نرالی راحت کا احساس رَچ بس جاتا ہے اورآدمی ذہنی سکون پاتا ہے ۔ عارفین کہتے ہیں کہ ا للہ نے مزدلفہ کا یہ لق ودق صحرا اپنا شبستان ِ محبت بنایا ہے جو ماں کا روپ دھارن کر کے اپنے تھکے ماندے بچوں کو اپنی آغوش میں تھپکیاں دے کر اُن کی تھکان ہی دور نہیں کر تا بلکہ تازہ دم کر کے انہیں منیٰ میں رمی جمرات کے پُر مشقت فریضہ ادا کر نے کے قابل بھی بناتا ہے۔ سعودی حکومت نے مزدلفہ میں شاندار مسجد مشعر الحرام تعمیر کر نے کے علاوہ یہاں جگہ جگہ ٹھنڈے پانی، وضو خانے اور بیت ا لخلاؤں کی تعمیر کی ہے تاکہ اللہ کے مہمانوں کو ہر نوع کی سہولت میسر رہے ۔ اس علاقے کا زیادہ تر حصہ ہموار کیا گیا ہے ۔ نیز جدید سہولیات سے طبی مراکز کے بین بین پختہ سڑکوں کا جال یہاں چاروں اطراف میں بچھایا گیا ہے ۔
مزدلفہ سے تھوڑے سے فاصلے پر ہمارا قافلہ اب وادی ٔ محسر میں قدم رنجہ ہوا۔ یہ مقام حسرت وتاسف ہے جہاں اللہ نے اپنے ایک سرکش وباغی کو اپنے منطقی ا نجام تک پہنچایا۔ یہ سرکش وباغی انسان یمن کا عیسائی حاکم( روم کی طرف سے نامزد گورنر) ابرہہ تھا جس نے اپنے تعمیر کردہ معابد( گرجے)کی بے حرمتی کے بہانے کعبہ مشرفہ کو ڈھانے کے لئے ایک لشکر جرار جمع کر کے مکہ معظمہ پر چڑھائی کا پکا اقدام کیا ۔اس کے شرپسند لشکر میں نو ہاتھی بھی تھے جو پہلی بار عرب کی سرزمین پر جنگ سازوسامان کے طور شامل کئے گئے تھے ۔ ممکن ہے کہ ابرہہ ہاتھیوں کی موجودگی سے اہل ِمکہ کو اپنے تئیں مرعوبیت کی دھاک بٹھارہاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ایک مختصر سورہ’’الفیل‘‘ میں اس سارے واقعے کا بڑے ہی اختصار مگر جامعیت کے ساتھ تذکرہ فرمایا ہے ۔ بظاہر دشمن ِ کعبہ ابرہہ نے اپنے مدمقابل کوئی ایک بھی فردبشر مکہ میں سامنے نہ پایا مگر اُسے کیا معلوم تھا کہ اللہ کے گھر پر چڑھائی کر نے کی جو فوجی کارروائی وہ بس اب شروع کرنے ہی والاتھا،ا للہ اس کا توڑ کرنے کے لئے انسانوں کا محتاج نہیں ۔ رب ِ کعبہ نے چڑیا کی قد وقامت والے بہت ہی بے ضرر پر ندے ابابیل سے اس جنگ کا پانسہ چشم زدن میں پلٹ دیا۔ اللہ کے اس آسمانی لشکر کے جھنڈ کے جھنڈنمودار ہوئے اور ابر ہہ کے لشکریوں پر مونگ کے دانے کے برابر کنکریاں مارکر مارکر دہشت پسند مسیحی فوج کو نشانہ بنایا کہ یہ سارا لاؤ لشکر قرآن کے الفاظ میں کھایا ہو ابُھس ہوکر رہا۔ یہ ایک خدائی معجزہ تھا جس نے مقدس کعبہ کی عظمت کا سکہ ہی دلوں میں ہی نہ جمایا بلکہ اہل ِ مکہ عرصہ تک اس کے شکرانے میں دامن ِ توحید میں مراجعت کرگئے بت پرستی سے تائب ہوئے۔ وادی ٔ محسر یا موت کی اس وادی سے گزرتے ہوئے آپ ؐ نے تیز قدم اٹھائے تاکہ جلد ازجلد وہاں سے چلا جائے ۔ حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ جب رسول ا للہ وادی ٔ محسر سے گزرے تو آپ ؐ نے قدم مبارک کی رفتار تیز کردی ۔ ابن قیم کی تحقیق ہے کہ جہاں کہیں اللہ کا عذاب نازل ہو ا تھا، وہاں سے آپ ؐ کی عادت مبارک یہ تھی کہ بڑی تیزی سے گزر جاتے۔ اس عمل کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ زمانہ ٔ جاہلیت میں یہاںعرب قبائل جمع ہوتے اور اپنے آباء واجداد کے کارنامے نون مرچ لگاکر اور بڑھا چڑھا کر بیان کر تے ۔ا س بے ہودہ عمل کی مخالفت میںآپ ؐنے وادی ٔ محسر سے جلدازجلد گزرنے کی ہدایت فرمائی ہے ۔ ہمارے ملتانی گائیڈ نے دور سے اس وادی کو دکھاکر ہمیں اس کی تاریخ اور اہمیت سے آگہی دی ۔
نوٹ: بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں، ان شاء اللہ