اسلام آباد// پاکستان کے قومی احتساب بیورو نیب کے رجسٹرار نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے تین بچوں اور داماد کے علاوہ ملک کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف بدعنوانی کے معاملات میں احتساب عدالتوں میں جمعہ کے روز دائر کیے گئے چار ریفرنسز کو نامکمل قرار دیا ہے۔رجسٹرار نے نیب کے حکام کو ان اعتراضات کو دور کرنے کی ہدایت کی ہے۔ابتدائی سکروٹنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان ریفرنسز میں دستاویزات کی نقول مکمل نہیں ہیں۔ عدالتی حکام کے مطابق جب تک ان اعتراضات کو دور نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ ریفرنس سماعت کے لیے مقرر نہیں کیے جا سکتے۔یاد رہے کہ اس سے قبل نیب کے ترجمان نوازش علی کے مطابق نیب کے حکام نے جمعے کو ان ریفرنس کا مواد احتساب عدالتوں کے رجسٹرار کو پیش کر دیا تھا۔ا±نھوں نے کہا کہ چونکہ اسلام آباد میں احتساب کی دو عدالتیں ہیں اس لیے متعقلہ عدالتی حکام فیصلہ کریں گے کہ کن عدالتوں میں کون سے ریفرنس کی سماعت ہو گی۔واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر ایک کے جج نثار بیگ کا تبادلہ کردیا گیا ہے۔ نثار بیگ گذشتہ تین سال سے اسلام آباد میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرر ہے تھے۔ ا±ن کے تبادلے کے بعد اب اسلام آبار کی احتساب عدالتوں میں صرف ایک جج ہی رہ گئے ہیں۔نوازش علی کا کہنا تھا کہ نیب راولپنڈی کا دفتر اسلام آباد میں ہے اس لیے یہ علاقہ بھی ان ہی کی حدود میں آتا ہے اس لیے یہ چاروں ریفرنس اسلام آباد میں ہی دائر کیے گئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ نیب کے حکام نے عدالت عظمی کے 28 جولائی کے فیصلے پر من وعن عمل کیا ہے۔نواز شریف، ان کے بچوں اور اسحاق ڈار کے خلاف ریفرینس دائر کرنے کے احکامات پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاناما دستاویزات کے مقدمے میں اپنے فیصلے میں دیے تھے۔نیب کی پراسیکیوشن برانچ کی طرف سے احتساب عدالت کے رجسٹرار کے پاس جمع کروائے گئے ان چار ریفرنس میں قومی احتساب بیورو کی شق 9 کی تمام ذیلی شقوں کا حوالہ دیا گیا ہے جو کہ رقوم اور تحائف کی غیر قانونی ترسیل سے متعلق ہے۔ اس قانون کے تحت جرم ثابت ہونے کی صورت میں 14 سال قید اور عمر بھر کی نااہلی ہوسکتی ہے۔ان ریفرنس کے ساتھ پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی طرف سے 9 جلدیں بھی لگائی گئی ہیں۔ان ریفرنس میں سابق وزیر اعظم کی بیٹی مریم نواز کی طرف سے جعلی دستاویزات جمع کروانے اور تحققیات کو نقصان پہنچانے پر نیب کے شیڈول دو کا حوالہ دیا گیا ہے جس کی قانون میں سزا تین سال ہے۔اسی فیصلے میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد انھیں وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہونا پڑا تھا۔نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق نواز شریف اور ا±ن کے دو بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس آف شور کمپنیوں اور سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں بیرون ملک قائم کی گئی العزیزیہ سٹیل مل کے متعلق ہیں جبکہ لندن کے علاقے پارک لین میں مے فیئر اپارٹمنٹس سے متعلق ریفرنس میں سابق وزیر اعظم اور ان کے بیٹوں کے علاوہ ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر بھی ملزمان میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے ریفرینس دائر کیا گیا ہے۔حسین اور حسن نواز کے خلاف دو جبکہ مریم نواز کے خلاف ایک ریفرینس دائر کیا گیا ہے۔ ان ریفرنس کی منظوری جمعرات کو قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری کی سربراہی میں ہونے والے نیب کے ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس میں دی گئی تھی۔نیب کے حکام نے ان ریفرنسز کی تیاری کے سلسلے میں میاں نواز شریف اور ان کے بچوں کا موقف معلوم کرنے کے لیے رابطہ کیا تھا تاہم ان میں سے کوئی بھی نیب کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ان افراد کے وکلا کا موقف ہے کہ جب سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ کہہ دیا تھا کہ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف ریفرنس دائر کیے جائیں تو پھر نیب حکام کے سامنے پیش ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔پاناما لیکس سے متعلق سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے 28 جولائی کے فیصلے میں نیب کے حکام کو میاں نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف چھ ہفتوں میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ معیاد آٹھ ستمبر کو ختم ہو رہی تھی۔نیب کے حکام نے ان ریفرنسز کے بارے میں نگراں مقرر کیے گئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن کو آگاہ کر دیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں احتساب عدالتوں کو بھی ریفرنس دائر ہونے کے چھ ماہ کے اندر اندر ان ریفرنسز پر فیصلہ دینے کے بارے میں بھی احکامات جاری کیے ہیں۔سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ا±ن کے بچوں کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بارے میں نظرثانی کی اپیلیں دائر کر رکھی ہیں جنہیں ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔نظرِ ثانی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے محض مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پر ہی انحصار کیا اور اس رپورٹ کے ساتھ ناقابل تردید شواہد بھی نہیں لگائے گئے اور محض 'ذرائع' پر ہی انحصار کیا گیا۔نظرثانی کی ان درخواستوں میں سپریم کورٹ سے اپنا فیصلہ واپس لینے اور نگراں جج کو ہٹانے کے بارے میں استدعا کی گئی ہے۔