2ستمبر 2014کو لگاتار بارشوں کے نتیجے میں ضلع شوپیان و پلوامہ کے درمیان گزرنے والے نالہ رنبی آرہ اور دیگر ندیوں کے پانیوں نے اپنا رُخ نچلی سطح کے علاقوں کی طرف کرکے انہیںزیر آب لایا ۔کولگام کے نالہ ویشو اور اسلام آباد کے نالوں میں طغیانی سے کئی پُل ٹوٹ گئے اور دودنوں کے اندر قصبہ اسلام آباد سے لے کر اونتی پورہ تک کا 30کلومیٹر پر محیط وسیع علاقہ سیلاب کی زد میں آنے لگا ۔6ستمبر کو شہر سرینگر کا کچھ حصہ سیلاب کی زد میں آگیا ،شام 5بجے ریڈیو کشمیر کی نشریات بند ہوگئی اور موبائیل ٹاور بھی ناکارہ ہو گئے ۔سیلابی پانیوں سے کئی اہم شاہراہیںاور سڑکیں بھرگئیں ،بجلی گُل ہوگئی اورلوگ خوف زدہ ہو گئے اور اپنے گھروںسے خیر باد ہوکر بھاگم دوڑ میں محفوظ مقامات پر پناہ گزین ہوتے گئے ۔اسی روز بھارت کے وزیر اعظم شری نریندر مودی جموں صوبہ کے سیلابی حصے کا دورہ کرنے کے بعد ہیلی کواپٹر کے ذریعے جنوبی کشمیر اور سرینگر کے سیلاب زدہ علاقوں کی صورت حال کا جائزہ لیتے رہے اورشام کو واپس دہلی جاکر سیلاب زدگان کے لئے ایک ہزار کروڑ روپیہ کی امداد کا اعلان کرگئے۔7 ستمبر کو سرینگر سیلاب میںڈوب گیا تھا،جموں اور دہلی کے ریڈیو اطلاعات کے مطابق دہلی اور دیگر مقامات سے بچائو کار وائیوںکے لئے وادی میں ہوئی جہازوں میں کشتیاں لائی گئیںاور دن بھر ہیلی کواپٹر اور ہوائی جہازوں کی اُڑانوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ سیلاب میں پھنسے ہوئے لوگوں کو مکانوں کے چھتوںاور دیگر اونچے مقامات سے ہیلی کواپٹروںاور کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات کی طرف لے جایا گیا ۔کشمیر میں فون سروس مکمل طور ٹھپ ہونے کے کارن تین چار دن تک کسی کو کسی کی کوئی خبر نہ رہی اور ہر سُو خوفناک خاموشی چھائی رہی ۔ظاہر ہے کہ کشمیر کی تاریخ میں قریبا ایک صدی کے بعداس طرح کاقہر آمیز سیلاب آیا تھا ،چنانچہ ایک ہزار سال قبل 879ء کے سیلاب میں جب بارہمولہ پہاڑ کھسک کر جہلم کے لئے رکاوٹ بنا،تو کشمیرکچھ عرصہ تک جھیل ہی کی شکل اختیار کر چکا تھا ۔ 1893ء کے قہر انگیز سیلاب نے بھی کشمیر میں زبردست تباہی مچادی تھی اور ستمبر 2014کا سیلاب بھی اس صدی کا بڑا سیلاب قرار دیا جارہا ہے ، جس نے پوری ریاست میںکہرام مچایااور بڑے پیمانے جان و مال کو تباہ و برُباد کرکے رکھ دیا ۔اس قہر انگیزسیلاب کے نتیجے میں پیدا شدہ کربناک صورت حال میں یہاں حکومت نام کی کوئی چیز ہی دکھائی نہیں دی۔سیلاب سے بچے ہوئے علاقوں کے لوگ ہی منظم اور مربوط طریقے پرسیلاب میں پھنسے ہوئے لوگوں کو بچاتے رہے اور انہیں اُن ریلیف کیمپوں میں پہنچاتے رہے جو لوگوں نے خود قائم کئے تھے ،اورجن میں سیلاب متاثرین کو بغیر مذہب و ملت اور رنگ و نسل کے کھانے پینے اور عارضی رہائشی سہولیات مہیا ہورہی تھیں۔11ستمبر کو جنوبی کشمیر کے وہ غیرت مند لوگ جو سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں نہیں آئے تھے،ٹریکٹروں اور گاڑیوں میںغذائی اجناس اور دیگر ضروری سامان لاد کر سرینگر میں قائم ریلیف کیمپوں تک پہنچانے میں مصروف عمل رہے ،جس کی تقلید میں کئی دوسرے اضلاع کے علاقوں کے لوگ بھی کسی طور پیچھے نہیں رہے اور ضروری اشیاء ریلیف کیمپوں اور متاثرہ لوگوں تک پہنچانے میں پیش پیش رہے جبکہ کئی لوگوں نے اپنی جانوں کو کھیل کر دوسروں کی جان بچائی ۔سرینگر میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے لوگوں کو مختلف محفوظ مقامات پر پناہ لینے پر مجبور کیا تھا ،کئی لوگوں کو اپنے عزیزوں اوررشتہ داروںکا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا ،بیشتر لوگ اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں پانتہ چھوک کے پہاڑی راستہ سے پیدل زبر ون پہاڑی سلسلہ کو عبور کرکے نشاط میں قائم ریلیف کیمپوں تک پہنچتے رہے ۔ ہر طرف کہرام اورایک انارکی صورت حال چھائی ہوئی تھی پھر بھی ہرایک کے دل میں ایک دوسرے کے تئیں ہمدردی اور مروت کی لہر موجزن تھی۔12ستمبر سے ریڈیو کشمیر نے عارضی طور شنکر آچاریہ پہاڑی پرایک کمرے میں ریڈیونشریاتی سٹیشن چالو کیا ۔اور سرینگر اور دیگر سیلاب زدہ علاقوں کی سیلابی صورت حال سے لوگوں کو آگاہ کرتا رہا۔ بچھڑے ہوئے لوگوں کو بھی نشریات کے ذریعے اپنی خیر و عافیت اور عارضی سکونت سے آ گاہ کرنے کا اہم کام انجام دیتا رہا ۔جہاں کہیںسے فون یا موبائیل کا رابطہ قائم ہوجاتا ۔لوگوں کو صورت حال سے آگاہ کرتا رہا ۔14ستمبر کو جنوبی کشمیر کے کچھ علاقوں میں دس رو ز بعد بجلی کی سپلائی بحال ہوئی تھی ۔ عارضی ریڈیوسٹیشن سے وقفہ وقفہ کے بعد لوگوں کی گمشدگی اور سیلابی صورت حال کی خبریں نشر ہورہی تھیں،اب تک کشمیر میں سیلاب سے مرنے والوں کی تعداد 160تک پہنچی تھی ۔16ستمبر کو ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ،اپنے ایک وزیر اور چندانتظامی آفیسروں سمیت پہاڑی دامن سے پیدل چل کر شنکر آچاریہ پر قائم عارضی ریڈیو سٹیشن پرپہنچے اور ریڈیو نشریات کے ذریعے عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار کرتے رہے ۔ انہوں نے آفات سماوی سے نمٹنے میں انتطامیہ کی ناقص کارکردگی اورحکومت کی بے بسی کا کھل کر اظہار کیا ۔17ستمبر کو گیارہ یوم کے بعد سرینگر سے صرف ایک اخبار شائع ہوا ۔ جس میں سیلاب کی صورت حال کے متعلق تفصیلات اور تصویریں شائع ہوئیں ،سیلاب کی تباہ کاریوں کی تصاویر سے لوگوں کے دل دہل گئے ،بستیوں کی بستیاں مال واسباب سمیت سیلاب میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ہزاروں کی تعداد میں طے شدہ شادیوں کی تقریبات ،سیلاب کے پیش نظر 5ستمبر سے ہی ملتوی ہوچکی تھیںاور جہاں کہیں بھی کوئی شادی ہوئی وہ انتہائی سادگی اور بغیر کسی تقریب کے منعقد ہوئی۔18ستمبر کو ریڈیو نشریات کے ذریعے وادی میںلئے جانے والے سکولی اور کالج امتحانات کے ساتھ انٹرویوز اور سرکاری تبادلے ڈیڑھ ماہ کے لئے منسوخ ہونے کا اعلان ہوا ۔اسی طرح6ستمبر سے عامین حج کا بیت اللہ کے سفر کاسلسلہ موخر کیا گیا ۔سیکریٹریٹ اور دیگر سرکاری عمارتیں زیر آب کے بعد آج پہلی بار سیکریٹریٹ کھولا گیا ۔19ستمبر کو حیدر پورہ میں گریٹر کشمیر کا میڈیکل کیمپ چالو ہوا ۔لال چوک ،راجباغ ،جواہر نگر میں بدستور سیلابی پانی موجود تھا ۔سرینگر کا مرکزی علاقہ ویران ہوچکا تھا اورشہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا تھا ،ہر طرف کرب ناک خاموشی چھا ئی ہوئی تھی ،سناٹا اور خوفزدگی طاری تھی ،ٹریفک کانام و نشان تک دکھائی نہیں دیتا تھا ۔شہر میں کشتیاں چلتی تھی ۔ ریلیف کیمپوں میں بغیر کسی مذہب و ملت اور مسلک و منصب ،امیر و غریب ،مردو زن، بچے و بزرگ ایک ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے ۔کشمیر میں فوج کے 70کیمپ 12اسلحہ خانے اور بے شمار گاڑیاں تباہ ہوچکی تھیں۔سرینگر کے بیشترپولیس تھانے اور پولیس لائین پانی میں ڈوب جانے کی وجہ سے صرف چار وائر لیس سیٹ سسٹم کام کررہے تھے۔21ستمبر کو ریڈیوسے نشر ہونے والی خبروں کے مطابق اب تک 350افرادلاپتہ تھے،میوہ باغات کے نقصان کا تخمینہ ایک ہزار کروڑ تک پہنچ چکا تھا ۔ضلع اسلام آباد کے کچھ گائوں کے نقشے سیلاب نے بالکل ہی تبدیل کردئے تھے ۔سرینگر میں لوگ کشتیوں کے ذریعے یا مصنوعی نائو بناکر ادھر اُدھر آتے جاتے تھے ۔مندروں ،مسجدوں اور گوردواروں میں سیلاب زدہ لوگ پناہ گزین تھے ۔22ستمبر کو گاندربل ،بارہمولہ ،بڈگام ،شوپیان اور پلوامہ اضلاع کے مختلف علاقوں کے لوگ( جو سیلاب سے محفوط رہے تھے) سیلاب متاثرین کے لئے راشن ، سبزیاں ،کھانے کے دیگر اجناس اور ملبوسات ٹرکوں اور ٹریکٹروںکے ذریعے سرینگر پہونچاکر لوگوں میں تقسیم کررہے تھے۔سرینگر کا مرکزی حصہ بدستور کھنڈرات کا نظارہ پیش کررہا تھا ،بجلی کی نایابی ،سیلابی پانیوں کی موجودگی ،غلاضت کے انباراور کیچڑ کی بہتات سے ہر طرف عفونت سی پھیلی ہوئی تھی۔سیلاب کی تباہ کاریوں کی رپورٹیں تصاویر سمیت اخبارت کے ذریعے عوام تک پہنچنے لگیں۔23ستمبر ۔سرینگر کے شالی اسٹوروں میںجمع ذخیرہ 28ہزار کوئنتل چاول،24ہزار کونتل کھانڈ،سیلاب کی نذر ہوچکا تھا۔ کشمیر میں 550واٹر سپلائی سکیمیں ناکارہ ہوچکی تھیں اور 5ہزار گاڑیاں سیلاب سے تباہ ہوچکی تھیں۔ 28ستمبر اتوار کوسرکاری اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر صوبوں میں 5642گائوں سیلاب سے تباہ ہوچکے تھے، 12لاکھ 60ہزار خاندان متاثر ہوگئے تھے جس میں کشمیر کے 5089گائوں شامل تھے ۔ایک لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ،10ہزار مویشی اور 20ہزار بھیڑ بکریاں سیلاب میں بہہ کر لقمہ اجل بن گئی تھیں۔مکانات ،رہائشی کالونیاں اور دفاتر میں موجود مال و اسباب اور ریکارڈ سب سیلاب کی نذر ہوچکا تھا ،سرینگر کے اہم مرکزی اور مصروف بازار بالکل ناکارہ ہوگئے تھے۔ حکومت کی طرف سے سرینگر ضلع کے 15ہزار گھرانوں کو فی کس 50کلو چاول مفت تقسیم کیا گیا ۔اول اکتوبر کو سرینگر میں حکومت کے خلاف ناقص انتظامی کارکردگی کے خلاف زبردست احتجای جلسے و جلوس نکلے۔سرینگر ،بٹہ وارہ ،لال چوک ،بمنہ،راج باغ ،جواہر نگر ، بالگارڈن سمیت شہر کی سینکڑوںپاش کالونیاںویرانی کا منظر پیش کررہی تھیں ۔سیلاب نے توتاجر طبقے کو تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کردیا تھا ۔
نوٹ :حمید اللہ حمید ؔسابق انفارمیشن آفیسر اور محفل بہار ادب شاہورہ پلوامہ کے صدر ہیں اور ان کے ساتھ [email protected]پر رابط کیا جاسکتا ہے۔
�����