’عوامی اعتماد بحال کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات لازمی ‘
سرینگر //سی پی آئی ایم کے سینئر رہنما و ممبراسمبلی کولگام محمد یوسف تاریگامی ،پی ڈی ایف کے صدر و ایم ایل اے خانصاحب حکیم محمد یاسین اور ڈی پی کے سربراہ و سابق وزیر غلام حسن میر نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ کشمیر میں پائے جارہے زبردست عوامی غم و غصہ کو ختم کرنے کیلئے ٹھوس اقداما ت کی ضرورت ہے ۔ انہوںنے کہاکہ وہ مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں جس میں انہوںنے اعلان کیاہے کہ حکومت ہند نے نہ ہی دفعہ 35اے کی تنسیخ کیلئے پہل کی ہے اور نہ ہی وہ عدالت عالیہ گئی اور ایسا کوئی بھی اقدام نہیں کیاجائے گاجس سے کشمیر کے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے تاہم انہوںنے اس بات پر زور دیاکہ نئی دہلی وہ غلط اقدامات واپس لے جو ماضی میں کئے گئے ۔ان کاکہناہے کہ نئی دہلی میں قائم ہونے والی حکومتوں کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کے نتیجہ میں جموں وکشمیر اور ملک کے عوام کے درمیان گہری خلیج پیدا ہوئی ،اس خلیج کو ختم کرنے اور جموں کشمیر کے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچانے کیلئے اعتماد سازی کے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ۔انہوںنے کہاکہ مرکزی وزیر کے بیان کے بعد دفعہ 35اے کے مقدمہ کا سپریم کورٹ میں دفاع کیاجاناچاہئے اوراس سلسلے میں ایپکس کورٹ میں affidavitفائل کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوںنے کہاکہ مرکزی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آئین ہند اوراس کی دفعہ 35اے کا دفاع کرے اور یہ بات حیران کن ہے کہ کاﺅنٹر affidavitجمع کرانے میں کیوں کر تاخیر کی جارہی ہے ۔ان کاکہناتھاکہ نئی دہلی فوری طور پر سپریم کورٹ میں کاﺅنٹر affidavitفائل کرے اور یہی اس یقین دہانی پر عمل کرنے کا واحد طریقہ کار ہے ۔انہوںنے مزید کہاکہ اگر نئی دہلی اپنے پانچ نکات ہمدردی ، روابط ، بقائے باہم ، اعتماد سازی اقدامات اور استحکام کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کیلئے سنجیدہ ہے تو ایسا کوئی بھی اقدام نہیں اٹھاناچاہئے جس سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے ۔انہوںنے کہاکہ ایسے اقدامات کاجائزہ لینے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے لوگوں میں بداعتمادی میں اضافہ ہوااور غم و غصہ بڑھ گیا۔ انہوںنے کہاکہ کشمیر اور بقیہ ملک کے درمیان خلیج کافی گہری ہے جس کو ختم کرنے کیلئے غلط پالیسیوں کا جائزہ لیاجاناچاہئے جن کی بدولت بداعتمادی اور یہ خلیج پیدا ہوئی ۔ان کاکہناتھاکہ اس مرحلے پر ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔
’ آئینی و قانونی پہلوﺅں کو ملحوظ نظر رکھنے کی ضرورت‘
سرینگر// سینئر کانگریس لیڈر پروفیسر سیف الدین سوز نے دفعہ35اے کے حوالے سے اپنے تفصیلی بیان میں کہا ہے کہ ”آر ایس ایس کی جو رٹ درخواست دفعہ35A کو آئین ہند سے خارج کرنے کی خاطر سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اُس درخواست کا اثر ونفوذ دوسری سمت میں بھی پھیل گیا ہے اور جموں و کشمیر کے لوگوں کو اس طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ ریاستی عوام کوآر ایس ایس کی لن ترانیوں اور چودھراہٹ سے گھبراہٹ میں نہیں رہنا چاہئے کیونکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور اس کے اندر ایک مضبوط عدالتی نظام موجود ہے۔ انہوں نے کہاکہ اب جب کہ جموں میں مقیم مغربی پاکستان سے آئے ہوئے مہاجرین میں سے کچھ لوگوں نے سپریم کورٹ کے سامنے دفعہ 35A کو آئین سے خارج کرنے کےلئے رٹ دائر کی ہے تو اس مسئلے کو خاصی توجہ ملنی چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مہاجرین مستقل باشندوں کی طرح 35A کے دائرے میں شہری حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔اب اِس رٹ درخواست کے ذریعے وہ دوسرے طریقے سے بلاواسطہ ان ہی کی مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں۔پروفیسر سوز نے کہاکہ ریاستی عوام جموںوکشمیر سماج کے اُن لوگوں کی ضروریات بشمول مہاجرین ملحوظ نظر رکھیں جو اپنے تحفظات کےلئے جدوجہد کرتے آئے ہیںیا تحفظات کے مستحق ہیں اور ریاستی سرکار نے ماضی میں اُن کے بارے میں کچھ فیصلے بھی لئے تھے۔ بیان میں کہا گیا کہ میری توجہ کشمیر کے چند حساس اور درد مند لوگوں نے اس امر کی طرف مبذول کی ہے کہ ریاستی حکومت نے Resettlement Bill (پھر سے بحالی کی بل ) پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا تھا جبکہ سپریم کورٹ کے ایک آئینی بینچ جس میں جج صاحبان سید شاہ قادری، این.سنتو ش ہیکھڑے، ایس۔ این۔ وریوا اور شیوراج .وی.پٹیل شامل تھے،نے15 نومبر 2001ئ کو اپنے فیصلے میں J&K Resettlement Bill کو مکمل قانون قرار دیا تھا اور 18 برس پہلے اس وقت کے صدر جمہوریہ گیانی ذیل سنگھ کی اُس ریفرنس کو آئین ہند کی دفعہ 143 کے تحت واپس کر دیا تھا جس میں انہوں نے سپریم کورٹ سے Resettlement Bill پر رائے مانگی تھی۔ سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر اُس ریفرنس کو واپس کر دیا تھا کہ سپریم کورٹ اس بارے میں کچھ بھی نہیں کر سکتی کیونکہ Resettlement Bill اُس دن ہی مکمل قانون بن گیا تھا جس دن ریاستی اسمبلی نے دوبارہ اس کو منظور کیا تھا اور گورنر نے قوائد کے تحت اپنی منظوری دی تھی!جب سپریم کورٹ نے یہ تاریخی فیصلہ لیا تھا اُس وقت کے ریٹائر ہونے کے والے چیف جسٹس شری آدھرش سین آنند نے اس آئینی بینچ کے ساتھ مکمل اتفاق کیا تھا تعجب انگیز بات یہ بھی ہے کہ نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا نے سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کو ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی ذات کےلئے بھی بہت بڑی کامیابی قرار دیا تھا!اس وقت کی ایک اور خوش آئندبات یہ تھی کہ ان دونوں قوانین کو نافذ العمل بنانے کےلئے جموں نے کشمیر کا پورا ساتھ دیا تھا!ان حساس شہریوں نے مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ جب این ڈی اے کی حکومت نے ریاستی اسمبلی کا جون 2000ئ میں پاس کردہ Resolution Autonomy غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے 4 جولائی 2000 ئ کو رد (Reject) کر دیا تھا ،تو اُس وقت ریاستی حکومت نے قانونی راستہ کیوں اختیار نہیں کیا تھا حالانکہ اُن کو معلوم تھا کہ سپریم کورٹ نے ریاستی اسمبلی کی آئینی قدرو منزلت پہلے ہی تسلیم کی تھی !ان حساس شہریوں کو میں نے سمجھایا کہااُن کے دونوں سوالات درست ہیں اور ان سوالات کے جوابات مانگے جانے چاہیں! فی الحال میری ریاستی عوام سے درخواست ہے کہ جو بھی وکیل صاحبان سپریم کورٹ میں ان کی وکالت کر رہے ہیں ان کو دفعہ 35A سے متعلق آئینی اور قانونی پہلووں کے دائرے میں ریاستی عوام کی خواہشات اور جدوجہد کے بارے میں مکمل بریفنگ (Briefing) دی جانی چاہئے ۔ مجھے خاص طور فالی ناریمان (Fali Nariman) کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ وہ نہ صرف اعلیٰ درجہ کے قانون دان ہیں بلکہ وہ بہت بڑے دیانتدار انسان ہونے کے علاوہ ایک درد مند انسان بھی ہیں۔
’مرکزی حکومت سنجیدگی کامظاہرہ کرے‘
سرینگر // پردیش کانگریس کمیٹی کے ئانب صدر اور ایم ایل سی جی این مونگا نے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔ جی این مونگا نے کہا ہے کہ مرکزی سرکار کو سپریم کورٹ میں آرٹیکل 35ائے کی دفاع کیلئے حلف نامہ داخل کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کے ساتھ وعدے کرنا اور پھر انکو پورا نہ کرنا بالکل بھی نہیں چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بیان کا خیر مقدم تب کرتے ہیں جب مرکزی سرکار دفعہ 35ائے کو بچانے کیلئے حلف نامہ سپریم کورٹ میں داخل کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ نئی دلی کشمیر میں ادھورے من سے اقدامات کررہی ہے جو زمینی سطح پر حالات کو تبدیل نہیں کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی ترقی تھم گئی ہے، ریاست خاص کر کشمیر کے لوگ مشکلات کا سامنا کررہے ہیں اورناسازگار حالات کی وجہ سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا، ٹرانسپورٹروں ، تاجر اور سیاحت سے جڑی لوگ سخت مشکلات میں ہیں۔ مونگا نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ ایسے صورتحال میں لوگوں کو وزیر داخلہ کے بیان سے کافی اُمیدیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگربی جے پی والی مرکزی سرکار سنجیدہ ہے تو انہیں دفعہ 35ائے کو بچانے کیلئے عدالت عظمیٰ میں حلف نامہ جمع کرنا چاہئے۔
’ آئینی تخصیص کا ہر حال میں دفاع ہوگا‘
سرینگر//آئین ہند کے دفعہ35 اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو نا قابل قبول قرار دیتے ہوئے تعمیراتی معماروں کے مشترکہ پلیٹ فارم سینٹرل کانٹریکٹرس کارڈی نیشن کمیٹی نے کہا کہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت بیرون ریاستوں کے ٹھیکداروں کو وادی کے تعمیراتی و ترقیاتی کام تفویض کئے جارہے ہیں،جس سے نہ صرف ریاست کی خصوسی حیثیت بلکہ یہاں کی دم توڑتی معیشت پر مزید ضرب لگائی جا رہی ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران سینٹرل کانٹریکٹرس کارڈی نیشن کمیٹی کے جنرل سیکریٹری فاروق احمد ڈار نے الزام عائد کیا کہ درپردہ طور پر دفعہ370اور دفعہ35Aکے خلاف سازشیں رچائی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا” بھاجپا اور آر ایس ایس نے جب اس بات کا احاطہ کیا کہ عدالتی اور قانونی طور پر وہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو چلینج نہیں کرسکتے،تو انہوں نے انتظامی راستہ اپنایا،اور خفیہ طریقے سے دفع370کو زخ پہنچایا جا رہا ہے“۔مثال پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہ نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ کے وزیر نگران محکمہ شہری ترقی و مکانات نے”اٹل مشن برائے شہری تبدیلی وریجویشن““(امرُت) کے ذریعے جو ٹینڈر طلب کیں،ان میں ایسے ضوابط مرتب کئے گئے کہ ریاستی ٹھیکدار اس میں شمولیت نہ کرسکیں۔فاروق احمد ڈار نے کہا ان کاموں کیلئے8کروڑ روپے سے اپر واحد ٹینڈر طلب کئے گئے جس میں یہ شرط عائد کی گئی کہ اسی نوعیت کا80فیصد کام پہلے واحد(سنگل) ٹینڈر کے ذریعے کیا ہو،جو کہ ناممکن ہے۔انہوں نے کہا کہ سرینگر مونسپل کارپوریشن اور سٹی ڈرینج سرکل نے1982سے لیکر2016تک ایک کروڑ50لاکھ روپے سے اپر کوئی بھی ڈرینج کا سنگل ٹینڈر طلب نہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ یہاں کے ٹھیکداروں ن6کروڑ روپے کا کام کیا ہو۔انہوں نے دعوی کیا کہ نیز بیرون ریاستی کمپنیوں کو جو ٹینڈر دئیے گئے ان میں قریب10کرورڑروپے کا خسارہ خزانہ عامرہ پر پڑنے کے خدشات ہے۔ کارڈی نیشن کمیٹی کے چیئرمین اور جنرل سیکریٹری نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ایک منصوبہ بند طریقے سے جہاں ریاست کی معیشت کو زخ پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے،وہی بیرون ریاستی کمپنیوں کو کام تفویض کر کے براہ راست ریاست کی خصوصی حیثیت اور دفعہ35A پر ضرب لگایا جا رہا ہے۔انہوںنے کہا کہ اب انتظامیہ طریقے سے غیر ریاستی باشندوں اور تاجروں کیلئے ریاست میں آنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔کارڈی نیشن کمیٹی کے چیئرمین حاجی محمد اکبر پال نے تعمیراتی کاموں کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ” جی ایس ٹی“ ادائیگی کو سالانہ طرز پر وصول کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ تعمیراتی ٹھیکداروں نے سب سے پہلے جی ایس ٹی کے نفاذ کے خلاف آواز بلند کر کے لوگوں کو بیدار کیا تھا ۔انہوں نے کہا” ہمیں معلوم تھا کہ جی ایس ٹی کی تلوار سب سے زیادہ تعمیراتی ٹھکیداروں کے سروں پر ہی لٹکتی رہے گی۔انہوں نے بتایا کہ اب جب سالانہ37ریٹرن کی ادایئگی کرنی ہے،تو یہ تعمیراتی ٹھکیداروں کیلئے سب سے زیادہ پریشان کن مرحلہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف تعمیراتی کاموں پر ٹھیکداروں کی حاضری ضروری ہے،اور دوسری جانب انہیں بیشتر ایام محکمہ کمرشل ٹیکس میں ہی گزارنا پڑے گا۔پال اور ڈارنے مطالبہ کیا کہ جی ایس ٹی کی ادائیگی کو سالانہ سطح پر عملایا جائے۔انہوں نے نے کہا کہ جی ایس ٹی کا بھوت اب بوتل سے باہر نکل گیا اور اس کے اثرات اب سامنے آنے لگے۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ضلع سطح پر اب مہم چلائی جائے گی اور ٹھکیداروں کو فیصلہ کن مرحلے کیلئے تیار رہنے کی ہدایت دی جائے گی۔ کارڈی نیشن کمیٹی نے دھمکی دی کہ اگر انکے مطالبات کو پورا نہیں کیا گیا تو وہ تعمیراتی کاموں کا بائیکاٹ کرینگے،جبکہ عنقریب ہی سرینگر میں ایک جامع جلسہ منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا۔