’’اب میں اِس کہانی کو مختصر کر دینا چاہتا ہوں۔‘‘ دونوں کی اِس مختصر سی ملاقا ت میںمختصر سی گفتگوکا اختتام وہ اِسی جملے سے کرنا چاہتا تھا۔وہ اُسے بچپن سے جانتا تھا،بہت قریب سے جانتا تھا اور اُسے یقین تھا کہ طبیعتاًخاموش رہنے والی سمینہ اِس کے بعد ایک لفظ بھی نہ کہے گی لیکن اُس دن اُس کا اندازہ غلط نکلا۔اُس دن وہ بولی اور کچھ اِس انداز میں بولی کہ چند سال قبل اگر اِس صداقت و خلوص سے اُس نے بات کی ہوتی تو وہ اپنی جان تک اُس پر لٹا دینے کے لئے راضی ہو جاتا۔
’’ نہیں ۔۔۔تم اِس کہانی کو اِس طرح مختصر نہیں بلکہ ختم کر رہے ہو۔۔۔تم مجھے ختم کر رہے ہو ۔۔۔عدیل!‘‘ اُسے خود پر یقین نہیںآرہاتھا کہ اُس اپنائیت کے ساتھ اسکی زبان سے اپنا نام سنتے اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔کچھ لمحہ بعد عدیل نے خاموشی توڑ کر کہا’’دیکھو! تم ایک سنجیدہ لڑکی ہو۔۔۔اور تم۔۔۔‘‘وہ فوراََاُس کی بات کاٹ کر پُرنم آنکھوں سے بول پڑی۔’’تو کیاسنجیدہ لوگ محبت نہیں کرتے؟۔۔۔‘‘
اُس دن اُسے اپنی زباں اورہوش دونوں پر اختیار نہ تھا۔ وہ اپنے سینے میں دفن احساس ِمحبت پر پردہ ڈالنے میں ناکام رہ گئی تھی۔شاید اُسے اِس سے قبل یہ محسوس ہی نہیں ہوا تھا کہ عدیل کی عادت حُسن پرستی کے باوجود وہ اُس سے محبت کر بیٹھی ہے۔ز ندگی میں بعض دفعہ ہم بعض لوگوں کی محبت کا جواب محبت سے نہیں دے پاتے کیوں کہ ہم نے اپنے ذہن پراُن کی خامیوں کے نام کے پردے ڈال رکھے ہوتے ہیںاور اُنہیں اُس توجہ سے محروم کر دیتے ہیں جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ پھر ہمارے دل میں یہ پوشیدہ محبت تب حرکت میں آجاتی ہیںجب وہ لوگ ہم سے دوری اختیار کرلیں لیکن ہم حرکت کرنے میں بہت دیر لگا دیتے ہیں۔ اِتنی دیر کہ پھرکتنے ہی ہاتھ پیر کیوں نہ مارلو، اُن کی محبت میں شدت نظر نہیں آتی جو اِس سے قبل ہوتی ہے۔
عدیل اُس کا چچا زاد بھا ئی تھا اورکئی سال قبل گھر کے بڑوں نے سمینہ اور عدیل کا رشتہ طے کیا تھا۔وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر عدیل میں اِس قدرغیر متوقع تبدیلی آئی تو آئی کیسے ۔جوشخص چندسال قبل اُس پر جان لٹانے کے لئے تیار تھا اور اس سے شادی کرنے کے لئے مچل رہا تھا ،اب وہی شخص اُ س کو کیسے ٹھکرا سکتا ہے ۔
عدیل نظریں چراکر جانے ہی لگا تھا کہ سمینہ اُس کے پشت پر نظریں جما کر بے ساختہ بول پڑی’’جس کی خاطرتم نے اپنے خاندان کے عزت کی پروا کرنا چھوڑدی ہے ،جس کے واسطے تم اپنے والدین کی حکم عدولی کر رہے ہواور جسے پانے کے لئے تم مجھے چھوڑ رہے ہو ۔۔۔آخر اُس میں ایسا کیا ہے؟کیا وہ بہت خوبصورت ہے۔۔۔؟ یا وہ زیادہ مال دار ہے؟‘‘
’’سب سے منفرد۔۔۔سب سے خوبصورت ۔۔۔بہت نایاب ۔۔۔اُسے دیکھنے کے بعد مجھے کچھ اور نظر نہیں آتا۔۔۔!اُسے پانے کی خاطر میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں۔۔۔کچھ بھی کر گذر سکتا ہوں۔۔۔چچا جان سے میںخود بات کر لوں گا۔۔۔ تم سے بس اِتنا کہنے آیا تھا کہ اب مجھ سے کوئی اُمید نہ رکھنا۔‘‘ کُھلے صحن میں وادی ِ کشمیرکو گھیرے دل کش پہاڑوں سے اُٹھنے والے مہین بادلوں میں کھو کر وہ اِس طرح بول پڑا جیسے کسی نے اُس کے دل کو مائل کرنے کے لئے اُس پر سحر کر دیا ہو۔یہ کہہ کر وہ بے رحموں کی مانند وہاں سے چل دیا۔
’’وہ کبھی سکون نہیںپائے گا۔۔۔حسُن پرست اور رنگین مزاج لوگ کبھی سکون نہیں پاتے کیوں کہ وہ مستقل مزاج نہیں ہوتے۔۔۔ہر اِک شے اُن کے دل سے ایک نہ ایک دن اُتر ہی جاتی ہیں۔‘‘سمینہ کی سہیلی رابعہ اُس کے آنسوں پونچھ کر دلاسہ دیتے ہوئے بولی۔آج رخصتی کے لئے دلہن کے جوڑے میں ملبوس سمینہ نے اُس دن کے بعد پہلی بار اپنی سہیلی سے دل میں چھُپے درد و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’رابعہ!!زندگی کا یہ مرحلہ میرے لئے آسان نہیں ۔۔۔مجھے صرف اِس بات کی فکر کھائے جا رہی ہے کہ آنے والا وقت میرے لئے کیسی کیسی آزمائشیں لے کر آئے گا۔۔ ۔ مجھے اُسی گھر میں رہنا پڑے گا ۔۔۔عابد کی بیوی اور عدیل کی بھابھی بن کر۔۔۔یہ سب کیسے ممکن ہوگا؟‘‘ کمرے میں سمینہ کی بڑی بہن صائمہ داخل ہوئی اور سمینہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگی’’ یہ جوڑا اُتار دو ۔۔۔عابد نہیں آئے گا۔۔۔‘‘
’’کیوں؟ کیا ہوا باجی؟عابد ٹھیک تو ہے نا؟ـ‘‘سمینہ اسرار کرکے پوچھنے لگی تو صائمہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوںبہنے لگے’’عابد عدیل کی لاش لینے گیا ہے۔۔۔ خبر ملی ہے کہ ایک انکائونٹر میں عدیل اور اُس کے چند دوست جانحق ہوگئے ہیں‘‘
���
طالبہ شعبہ اُردو کشمیر یونیورسٹی،سرینگر