سرینگر //سی پی آئی ایم کے سینئر لیڈر و ممبراسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے پارٹی کے 15ممبران کی قیادت کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی سربراہی والی کانگریس پینل سے ملاقات کی۔ وفدنے کانگریس گروپ پر زور دیاکہ مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کی خاطر قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔وفد نے کہاکہ کشمیر میں پچھلی کئی دہائیوںسے حالات خراب ہیں اور لوگ متاثر ہورہے ہیں جبکہ پچھلے دو سال کے حالات بہت ہی خراب ہیں جس دوران بڑی تعداد میں لوگ خاص کر نوجوان مارے گئے ، ان کی آنکھوں کی بینائی متاثر ہوئی ۔وفد نے کہاکہ فورسز حالات کو قابو تو کرسکتی ہے لیکن کس قیمت پر ،یہ لوگوں کی پریشانیوں اور ان کے متاثر ہونے کی قیمت ہے۔وفد نے کہاکہ کشمیر کے تئیں اپنائی گئی پالیسی اب تک ناکام رہی ہے اس لئے مسئلے کی جڑ کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے ۔وفدنے کہاکہ کشمیر کا مسئلہ تاریخی ہے جس کو حل کرنے کی ضرورت ہے ۔وفد نے یہ باور کرایاکہ برصغیر کا امن ہندوپاک دونوں کیلئے اہم ہے اوراس کیلئے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے ترجیحی بنیادوں پرکام ہوناچاہئے نہ کہ زیبائشی طور کے اقدامات سے ۔ وفد نے بتایاکہ کشمیر کے حالات کو وقت پر قابو کیاجاسکتاہے لیکن لوگوں کے غم و غصہ کا کوئی حل نہیں نکالاجاسکتا،لوگوں میں طویل عرصہ سے غم و غصہ پنپ رہاہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے ۔وفد نے انتباہ دیاکہ اگر ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے توحالات سے پھر سے خراب ہونے کا اندیشہ ہے ،کشمیر کے حوالے سے انسانی اپروچ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقل اور پائیدار امن کا قیام ہوسکے اوراس کیلئے بھارت کی سیاسی جماعتوں چاہے وہ اپوزیشن میں ہو ں یا حکومت میں ، کو متحد ہوناپڑے گا لیکن بدقسمتی سے کشمیر ہمیشہ گھریلو سیاست کا شکاربنارہا ۔وفد نے مزید کہاکہ وزیر اعظم نے یہ اعلان کیاتھاکہ گالی اور گولی سے مسئلہ حل نہیں ہوگالیکن کشمیر میں حالات کو قابو کرنے کیلئے اب تک صرف اور صرف فورسز کا استعمال کیاگیاہے جس سے عوام میں مزید بے چینی پیدا ہوئی ہے ،مودی حکومت کے دور میں ایک بار بھی سیاسی مذاکرات کی کوشش نہیں ہوئی ۔وفد نے پالیسی گروپ کی سراہنا کرتے ہوئے کہاکہ ایسی کوششیں جاری رہنی چاہئیں تاکہ جموں ،کشمیر اور لداخ ایک رہ سکیں لیکن ریاست کے خصوصی تشخص کو مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔وفد نے کہاکہ ملک کی سیکولر طاقتوں کو کشمیر کے لوگوں کے مسائل پر بات کرنی چاہئے اور اس خلیج کو کم کرناچاہئے جو ملکی عوام اور یہاں کے لوگوں میں پائی جارہی ہے ۔