ہمارے ہمسایہ ملک برما( میانمار )میں روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ بہت ہی دردناک اور غم انگیزہے، یہ بات ہم سب مانتے ہیں لیکن یہ مسئلہ اتنا ہی پیچیدہ ہے،جوہم کو سمجھنا اورماننا ہوگا۔اس کے حل کے لئے جذباتی نعروں سے کام نہیں چل سکتا ہے، نہ ہی غصیلے اور جوشیلے لفظوں سے اس زخم کا مرہم ہوسکتا ہے ۔ اس دلدوز صورت حال کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کا تجزیہ کرکے ایک دُرست اور با اثر حکمت عملی کی وقت کی اہم ضرورت ہے۔برما کا ہندوستان سے بہت پرانا رشتہ ہے۔انگریزوں نے اسے پہلے بنگال کی گورنری اور پھر برطانوی ہندوستان کا حصہ بنا دیا تھا اور 1937 ء میں اسے الگ کر دیا تھا۔ ملایا کی طرح ہی انگریزوں کو برما میں بھی ربڑ کی کھیتی کا یقین تھا۔ انہوں نے بنگال سے مزدوروں کی بھاری تعداد لے جا کر جنگل صاف کروائے۔ ربڑ کی کھیتی تو کامیاب نہیں ہوئی لیکن یہ مزدور وہیں رُکے رہے جہاں سے جنگل صاف کئے تھے اور کھیتی باڑی کرنے لگے۔بعد میں یہ لوگ اور جنگل صاف کرتے رہے جن میں رہائش اور کھیتی ہوتی رہی۔ کھیتی اچھی تھی لیکن آمدو رفت اور تجارت کا کوئی انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اس سے آمدن ندارد تھی۔ ان کے پاس زمینوںکی ملکیت کی صرف آپسی پنچایتی تقسیم ہی رائج ہے، کوئی سرکاری دستاویز یا جمع بندی نہیں۔ دستاویز تو ان کے پاس اپنی رہایش کے بھی نہیں، کوئی ووٹر کارڈ نہیں، کوئی شناختی کارڈ بھی نہیں، برماکی حکومت ان کو غیر ملکی پناہ گزیں مان کر واپس اپنے ملک بنگال یا بنگلہ دیش دھکیلنے پر عمل پیرارہی ۔لیکن وہ 200 سے زائد سال سے وہاں رہ رہے ہیں اور اب کہیں جا سکتے ہیں اور نہ ان کے کہیں آبائی گھر کہیں موجود ہیں۔ دنیا میں قریب قریب ہر ملک کی موجودہ آبادی کہیں نہ کہیں بیرونی ممالک کے مہاجرین پر مشتمل ہے۔ برما میں بھی بڑی تعداد کی بودھی آبادی کسی وقت جنوبی اور مغربی چین سے آکر یہاں آباد ہوئی ۔ یہ گورے ہیں۔ ان کے علاوہ آبادی کا ایک حصہ تامل، ملیالی اور اُڑیا لوگوں کا بھی ہے جو زیادہ تر مسلم ہیں ۔ عرب ملکوں کے لوگ بھی یہاں پائے جاتے ہیں، کچھ ہندواور سکھ بھی برما میں رہائش پذیر ہیں۔رنگون میں گرودوارا بھی تک ہے۔ ایک بڑی تعداد تو برماکے اصل باشندوں یعنی آدیواسیوں کی بھی ہے جو ننگے دھڑنگے صرف جنگلوں میں ہی رہتے ہیں۔یہ کہاں سے آئے؟کب آئے؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔اس حساب سے تو ملیشیا، سنگا پور، ہانگ کانگ، فجی، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ جیسے ملک باہر سے آئے لوگوں سے ہی آباد ہیں۔ امر یکہ کا بھی یہی حال ہے ۔ ہمارے اپنے بر صغیر کے آریہ قبیلے بھی باہر سے یہاں آئے ۔امریکہ اور کینیڈا یورپ کے لوگوں نے ہی آکر بسایا ہے۔ اگر برما میں صرف خالص مقامی آبادی ہی رکھنی ہے پھر تو سارا ملک جنگلی آدیواسیوں کے حوالے کر کے باقی سب شہریوں کو نکل باہر ہونا پڑے گالیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ تواریخ نے جن لوگوں کو جہاں جا بسایا ہے، وہی ان کاگھر اور وطن قرار پاتا ہے۔ تین چار پشتوں سے ایک جگہ رہنے والے لوگوں کو کہہ دیا جائے کہ وہ بیرون ملک کے باشندے ہیں تو بہت دُکھ ہوتا ہے۔ روہنگیامسلموں کا اصل گھر اب برما ہے اور انہیں وہیں رہنا چاہیے۔ اس بارے عالمی برادری کا پورا دبائو برما پر بننا چاہیے تھا جو ابھی تک نہیں بن رہا۔
حال ہی میںبھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی برما کے دورے پر گئے لیکن انہوں نے وہاں روہنگیا کی پریشانی اور مصیبت کی بھولے سے بھی کوئی بات نہیں کی بلکہ صرف دہشت گردی کی راگ چھیڑی۔ دُرست ہے دہشت گردی بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے لیکن ہزاروں نہتوں کا مارا جانا، لاکھوں لوگوں کا بے گھر ہونا، ان بھوکا اور بیمار ہونا بھی کچھ کم سنگین معاملہ نہیں، بلکہ انسانیت کے ناطے یہ فوری توجہ کا ہنگامی مسئلہ ہے۔ بھارت کی اس مدعا پر گفتنی برما کے اندرونی معاملوں میں دخل اندازی نہیں کہلا سکتا کیونکہ پناہ گزینوں کی آمد سے بھارت بھی ہمسایہ متاثر ملک ہے اور اس کا بات کرنے کا حق بنتا تھا مگر مودی اس سے گریزاں رہے۔کیوں ؟ اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں۔ بہر صورت بھارت کافی دیر سے برما کے ساتھ کئی مشترکہ پروجیکٹ بنانا چاہتا ہے۔وہ برما سے تیل اور گیس کا بھی طلب گار ہے، برما سے ہوکر 3200 کلومیٹر ریلوے لائن بنانے کی تجویز بھی ہے۔ یہ سارے دوطرفہ مراسم دُرست ہیں۔ ان پراجیکٹوں سے لوگوں کو فایدہ ہوگا لیکن انسانی پریشانیوں کے بارے میںمنصفانہ بات کرنا کسی پراجیکٹ کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے تھی۔برما کی آزادی کی جدوجہد میں بھارت کا اہم رول رہا ہے۔ جب وہاں کی فوجی لیڈرشپ نے موجودہ لیڈرآنگ سان سوچی کو لمبی مدت تک جیل میں رکھا تو بھارت سرکار اور لوگوں نے بھی اس خاتون کا ساتھ دیا ۔ سوچی کافی دیر دلّی میں مقیم رہی، یہاں سے پڑھائی کی اور وہ ہندی بھی اچھی طرح جانتی ہے۔بھارت کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قبر بھی برما میں واقع ہے جس پر اپنے دورے کے دوران مودی نے بھی چادر چڑھائی تھی۔
بھارت میں اب تک قریب چالیس ہزار روہنگیا پناہ گز ین ہیں۔ یہ الگ الگ جگہوں پر کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیںلیکن یہ جہاں بھی جائیںگے ، ان کے لئے مقامی آبادی کے ساتھ پریشانیاں پیدا ہونے کے خدشے موجود ہیں۔ حیدرآباد اور دلّی میں ان سے جھگڑے کئے گئے ہیں، جموں میں تو ان کے رہن سہن کے بارے میں احتجاج بھی ہوئے اور کچھ فرقہ پرست سیاسی کارکنوں نے ان کا ڈیرا وہاں سے ہٹانے کی مانگ بھی کی۔ پاکستان کے شہر کراچی میں سندھی لیڈروں نے پروٹیسٹ کیا کہ ان کے کیمپ سندھ میں نہیں لگنے چاہیے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب دُکھی لوگ ہمارے پاس پناہ لینے آئیں تو ہم ہمدردی کی بنیاد پر ان کی ہر ممکن مدد کریں اور انہیں عزت بھی دیں اور جائے پنہا بھی فراہم کریں ۔ ہاں ہم سب جانتے ہیںکہ ہر آبادی کی پہلے ہی اپنی دقتیں اور مشکلیں ہوتی ہیں اور سب لوگوں کے جذبے بھی ایک جیسے نہیں ہوتے، اس لئے سرکاروں کو ہی چاہیے کہ روہنگیا کے لئے کسی جگہ حفاظتی بندوبست کے ساتھ عارضی کیمپ لگائیں۔ ان کو خوراک، کپڑا اور صحت کی سہولتیں دیں۔ ان پر ہونے والے خرچے کے بارے عالمی اداروں سے امداد کی اپیل کریں ، وہ نہ بھی دیں تو بھی عوامی چندے سے معاملہ ہوگا ہی۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ یہ کیمپ سرحدوں کے پاس لگیں تاکہ میانمار پر دبائو بنا رہے کہ انہوں نے ایک دن واپس اپنے گھر میانمار جانا ہے۔ اس کے برعکس بھارت کے جونئیر وزیر داخلہ کرن رجیحو نے علانیہ کہا کہ یہ غیر قانونی پناہ گزیں ہیں۔ قانونی ہوں یاغیر قانونی ہوں مگر ہیں تو لٹے پٹے لوگ۔ ان کو واپس برمابھیجنے کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں لیکن کیااُس کے لئے میانمار سرکار سے بات نہیںکرنی ہے تاکہ انہیں وہاں سے تحفظ ملے۔ آخر ان کو سمندر میں تو پھینکا نہیں جا سکتا۔ اس سے پہلے 1978 ء میں میانمار سرکار نے بنگلہ دیش سے پناہ گزینوں کو آپسی سمجھوتے سے واپس بھی لیا تھا۔ اس بار بھی آخر ان کو یہ واپس لینے ہوں گے اور یہ لوگ بھی احساس تحفظ اور عزت کے ساتھ اپنے وطن ہی جانا چاہیںگے۔ حالانکہ اس بار جن گھرں کو یہ خالی کرکے آ رہے ہیں ان کو جلا دیا جا رہا ہے تا کہ ان کے مکینوں کی واپسی کا کوئی چانس نہ رہے۔
در اصل ابھی تک بھی میانمار میں جمہوریت اپنے پاؤں زمیں پر نہیں جما سکی ہے۔ ان کی لیڈر آنگ سان سوچی نہ صدر ہے اور نہ وزیر اعظم۔ اس کے پاس کونسلر کاعہدہ ہے۔ لگتا ہے کہ ابھی بھی وہاں فوجی گروہ کا دبدبہ ہے لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ڈکٹیٹر شپ کے کٹھن دور کے بعدرنگون او ر برما کے کچھ اور شہروں میں جمہوریت پسند اور مذہبی غیر جانبدار لوگ سرگرم ہونے لگے۔ انسانی حقوق کی جماعتیں قائم ہوئی ہیںجن کی صفوںمیں صحافی اور پروفیسر لوگ شامل ہیں۔ ان میں بودھی اور تامل مسلم وغیرہ کئی شخصیات پیش پیش ہیں۔ ان تنظیموں نے روہنگیا علاقوں میں تعلیم اور صحت کے کچھ کام بھی شروع کئے تھے لیکن فرقہ پرست لوگ کئی ایک جگہ مذہبی فساد ات کروانے میں کامیاب ہوتے رہے جن کے اثرات شہروں تک بھی پہنچ گئے ، نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں بہت سارے مسلم اور بودھ مارے جاتے رہے۔ بہرحال ان روہنگیاؤں کے خلاف تازہ مار دھاڑ اور مصائب کے نزول کی جڑ مبینہ طور ’’روہنگیا اراکان لبریشن آرمی‘ ‘کا وجو د بتایا ہے۔ روہنگیا مخالف رخائین بودھوں اک الزام ہے کہ انہوںنے کئی ملکوں سے باروداور ہتھیار حاصل کیا اور یہ اپنے صوبے کو آزاد ملک بنانے کی مانگ کرتے ہیں۔ کہا یہ بھی گیا کہ ان کی طرف سے برما کی فوج اور پولیس پر حملے ہو ئے جس کے ردعمل میں روہنگیائی لوگوں پر مصیبتوں کا پہاڑ آگراہے۔دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ الزام سچائی پر مبنی ہے تو اس وجہ سے انسانی حقوق کا اہم مسئلہ دہشت گردی سے خلط ملط کیا گیا ہے۔ اصولی طور جو ہمسایہ ممالک دہشت گردی کے مخالف ہیں انہیں ورہنگیائی آبادی کو ہاتھ تھامنا، پناہ دینا اور کھلانا پلانا انسانی فرض ہے تاکہ بدلے کی بھاؤنا سے یہ لوگ شدت پسند سوچ کے ہتھے نہ چڑھ جائیں ۔ اطلاعات یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ڈھاکہ اورچٹا کانگ کے گرودواروں کے لوگ بارڈر پر لنگر لے کر جا رہے ہیں۔ کیا اس طرح دوسرے شہروں میں نہیں ہوسکتا؟کیا میرے ملک کے 100؍ کروڑ لوگ دو تین سال کے لئے 40؍ ہزار لوگوں کو دال روٹی نہیں دے سکتے؟
ہمارے کچھ بھائی بہن سوشل میڈیا پر غصے اور منافرت کی پوسٹیں ڈال رہے ہیں اور کچھ تو نفرت بھری بھی۔ غصہ اور نفرتوں سے کسی کو فائدہ نہیں دے سکتیں بلکہ نقصان ہی کریںگی۔ کچھ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ مسلم ملکوں کی طاقت ور فوجیں کہاںہیں؟لیکن کوئی فوج وہاں کچھ نہیں کر سکتی، سوائے روہنگیا کے مظلوم لوگوں پر ہلاکتوں اور بربادیوں کی بوچھاڑ کے۔ کوئی توپ خانہ یا کوئی بندوق کچھ نہیں کر سکتی بجز اس کے کہ پہلے ہی خون سے لت پت وہاں کی زمین کو مزید لال کریں۔ اس مسئلے کا حل برما سرکار کی لعنت ملامت بھی نہیں بلکہ انسانیت کے خیرخواہوں اور روہنگیا کے مظلومین کے ہمدردوں کو چاہیے کہ برما پر عالمی سطح کا اخلاقی دباؤ بڑھا یا جائے۔ میانمار کی بات سنی جائے، سمجھی جائے، اسے اپنی بپتا سنائی جائے ، سمجھائی جائے۔ اس انسانی بحران کا آخری حل دیر سویر برما کے اندر جمہوری، امن پسند اور مذہبی غیر جانبدار (secular) طاقتوں کی مضبوطی سے مشروط ہے جو ایک دن ضرور ہوںگی۔ لندن سے ملالہ یوسف زئی نے نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو خط لکھا ہے کہ وہ اس عالمی انعام کو عزت دے اور اس کے لئے انسانی حقوق کی حفاظت کا بیڑہ اٹھائے۔ بھارت میں رہ رہے دلائی لاما نے بھی سوچی کو اپنے خط میں لکھا ہے کہ اگر آج گوتم بودھ خود ہوتے تو روہنگیا مسلمانوں کا پورا ساتھ دیتے۔ترکی اور انڈونیشیا کے وزیروں نے برما کا دورہ کرکے حکام سے حالات میں بہتری لانے کی فہمائش کی ہے۔برما میں بچے روہنگیا لوگوں کو راحت وامداد دینے کے فیصلے بھی ہوئے ہیں۔ اس طرح کے کام اور بھی انسانیت نواز مشن فوری طوربرما آنے چاہیے کیونکہ بھاری ہجرت کے باوجود دو تہائی لوگ ابھی بھی روہنگیا لوگ اپنے وطن میں مقیم ہیں۔ کچھ دنوں سے ہجرت کی تیزی میں بھی سبک رفتاری آئی ہے۔ دعا کرنی چاہیے کہ روہنگیا کو عزت ومحافظت کے ساتھ اپنے ہی گھربار اور وطن میںجینے کے بے خوف مواقع ملیں،انہیں تشدد کی قہر سامانیوں سے نجات ملے ، بقائے باہم کی ہوائیں پورے برما میں چلیں ، کوئی بندوق چلے نہ بارود پھٹے اورپوری برمی آبادی سکھ شانتی کے ساتھ جیو اور جینے دو کے حیات بخش اصول پر گامزن رہے۔
رابطہ؛ 098783 75903