جموں و کشمیر میں بدنام زمانہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کا کس قدر بیجا استعمال ہورہا ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ 2008سے اب تک عدالتوں نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربندیوں کے 1706حکمنامے کالعدم قرار دئے ہیں ۔جس سے ان الزامات کی تصدیق ہوتی ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے اس قانون کے معقول استعمال کے بجاے اسے مختلف سیاسی آوازوں کو دبانے کا ایک ذریعہ بنایاگیا ہے۔صرف سال2016کے دوران 512ایسے حکمنامے عدالتوں کی جانب سے کالعدم قراردئے جاچکے ہیں جبکہ 2011میں یہ تعداد307رہی ہے ۔قانونی و آئینی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر اتنے بڑے پیمانے پر پی ایس اے حکمنامے عدالتوں نے کالعدم قرار دئے ہیں ،تو اس کا صریحی مطلب یہ ہے کہ اس قانون کا انتہائی غلط استعمال ہورہا ہے۔اکثر معاملات میں عدالتوں نے نظربندی کی وجوہات کو نامعقول قرار دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بندی کے حکمنامے جاری کرنے والی اتھارٹیاں پولیس کے ہاتھوں ربڑ کی مہریں بن چکی ہیں اور وہ اپنے شعور کا استعمال کئے بغیرپولیس کی جانب سے پیش کی گئی نظر بندی کی وجوہات کو حتمی تسلیم کرکے حکمنامہ صادر کردیتی ہیں ۔ قانونی اعتبار سے ایسے افراد معائوضہ کے مستحق ہیں جن کی نظر بندی کے احکامات عدالتیں منسوخ کریں لیکن چونکہ کشمیر میںالٹی گنگا بہتی ہے ،یہ معاوضہ فراہم کرنا تو کجا ایک کے بعد ایک سیفٹی ایکٹ لگانا بھی اب معمول بن چکا ہے ۔کئی مزاحمتی رہنمائوں پر بار بار سیفٹی ایکٹ کا اطلاق ایک معمول بن چکا ہے۔سینئر مزاحمتی رہنما مسرت عالم بٹ فی الوقت32ویں سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند ہیں جس سے یہ اندازہ لگا نا مشکل نہ ہوگا کہ سرکاری مشینری کس عنوان سے اس قانون کا استعمال کررہی ہے ۔یہ اس تصویر کا ایک پہلو ہے ۔ تصویر کا دوسرا بھیانک پہلو یہ بھی ہے کہ ریاست میں 1988میں مسلح تحریک کے آغاز سے اب تک اس قانون کے تحت 20ہزار کے قریب افراد کو زینت زنداں بنادیا گیا جن میں کئی ایک کو ایک سے زائد دفعہ اس قانون کے تحت برسہا برس تک قید و بند صعوبیش برداشت کرنا پڑ رہی ہیں ۔حکومت کے نزدیک امن و قانون کی صورتحال بنائے رکھنے کے لئے اس قانون کے تحت مزاحمتی لیڈروں و کارکنوں اور سنگ ہاتھوں میں لئے نوجوانوں کی گرفتاریاں ناگزیر ہیں ۔اگر چہ حکومتی موقف کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست اور ملکی آئین کے مطابق ہر فرد کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے ۔ریاست کے اپنے آئین میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ حکومتی نظریات سے اختلاف کرنے والوں کو اپنی بات رکھنے کی مکمل آزادی میسر ہونی چاہئے تاہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی ایک جمہوری ریاست ہونے کا دعویٰ کرنے والی ریاستی حکومتیں تواتر کے ساتھ سیاسی مخالفین کو زیر کرتی آئی ہیں اور اس ضمن میں پبلک سیفٹی ایکٹ حکومت کے پاس اب ایک ایسا ہتھیار بن چکاہے جس کااستعمال کرکے مخالفین کو زیرکرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیاجاتا ہے۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے بدنام زمانہ قانون کی جڑیں برطانوی سامراج کے ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ میں پائی جاتی ہیں جس کا استعمال اُس وقت برطانوی حکومت نے ہندوستان میں آزادی کے متوالوں کے خلاف کیا تھا۔ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کو مہاتماگاندھی سمیت ہندوستان کے تمام قومی لیڈروں نے کالا قانون قرار دیکر اس کے خلاف کھل کر لب کشائی کی تھی لیکن افسوس کا مقام ہے کہ کل تک جس قانون کو ہندوستان کے قومی لیڈر انسانیت دشمن کہتے تھے ،آزادی کے بعد اسی قانون کو صرف نام بدل کر اپنایا گیا اور1967میں پبلک سیفٹی ایکٹ کی صورت میں ایک ایسا قانون وجود میں آیا جس کا مقصد صرف اورصرف حکومت وقت کے خلاف اْٹھنے والی آوازوں کودبانا تھا۔جموں و کشمیر میں1978میں اس قانون کواُسی صورت و شکل میں لاگو کیا گیا جس صورت میں برطانوی دور حکومت میںہندوستان پر لاگو تھا۔حکومت کیخلاف اْٹھنے والی آوازوںکو دبانے کیلئے 1978میں ہی اس قانون میں مزید ترامیم کی گئیںاور اس وقت عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مذکورہ قانون ریاست میں جنگل سمگلروں کو قابو کرنے کےلئے نافذ ہے۔1990میں مذکورہ قانون کو اس قدر سخت بنایا گیا کہ اب اس کا نفاذ ریاست سے باہر بھی ممکن ہوا اور ریاستی حکومت کو یہ قانونی اختیار ملا کہ وہ پی ایس اے کے تحت نظربند کسی بھی ریاستی شہری کوریاست سے باہر کسی بھی جیل میں مقیدرکھ سکتی ہے۔ انسانی حقوق کیلئے کام کر رہی جماعتوں کا اصرار ہے کہ مہذب دنیا میں ایسے قانون کی کوئی گنجائش نہیں ہے جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کئی برس قبل اس قانون کو ’’قانون بے قانون‘‘کا نام دیکر اس کی مکمل تنسیخ کا مطالبہ کیا تاہم عملی طور کچھ نہ ہوا۔آج تک کئی بار انہی سطور میں حکومت کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے منفی اور تباہ کن اثرات سے آگاہ کرکے انہیں مشور دیا گیاتھا کہ وہ اس قانون کے تحت روا رکھی گئی حکمت عملی پر نظر ثانی کریں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کے ذیلی ادارے یا تورائے عامہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے ،یا پھر اسے خاطر میں لانا گوارا نہیں کرتے کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پبلک سیفٹی ایکٹ کایوں بیجا استعمال نہیں ہورہا ہوتا ۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں اس نوعیت کی بے ہنگام انتقامی کارروائی کو استحسان کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتاہے،لہٰذاوقت کا تقاضاہے کہ جمہوری نظام کی آبیاری کا دعویٰ کرنے والی ریاستی حکومت کو قطعی یہ زیب نہیں دیتا ہے کہ مخالف سیاسی نظریات رکھنے والوں کو اس قانون کے سہارے مسلسل قیدوبند میں رکھ کر ا ن کی سیاسی مکانیت مسدود کرے یا اس قانون کے ذریعے ایسے الزامات ، جو عدلیہ کی جانچ کے سامنے ڈھیر ہو جاتے ہیں ،کے تحت ان کی نظر بندی یقینی بنائے۔وقت آچکا ہے جب ارباب اختیار کو جمہوری اقدار اور اصولوں کاپاس و لحاظ رکھتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی یقینی بنانے کی خاطر اس قانون کو فوراً سے پیشتر منسوخ کرنا چاہئے کیونکہ جمہوری دور میں سامراجی دور کے قوانین کے نفاذ کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے ۔