گزشتہ چند دنوں سے روہنگیا کے تعلق سے اخبارا ت کے صفحات میں بڑے دلخراش مناظر اور خبریں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔اخبارات میں بس دو ہی طرح کی خبریں سب کی توجہ کھینچ رہی ہیں ،یا تو برمی مسلمانوں کے قتل عام کی یا پھرقتل عام کے خلاف ہونے والے احتجاجات کی،مذمتی جلسے جلوسوں کی۔ہماری قوم مذمتی کھجلی مٹانے میں بڑی ایکسپرٹ ہو چکی ہے۔یہ اور اس کے بڑے اس وقت بھی کھجاتے ہیں جب معاملہ اپنی قوم کا ہو اور اس وقت بھی کھجاتے ہیں جب معاملہ غیر قوم کا ہوبلکہ معاملہ اگر غیر قوم کا ہو تو بڑی شدو مد سے کھجاتے ہیں۔کیونکہ نہ کھجانے کی صورت میںان پر دہشت گردی کا لیبل لگ جانے کا ڈر ہوتا ہے ۔اب قوم کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ اپنے سر پر پڑے یا دوسروں کے یہ کھجاتے ہی رہتے ہیں۔اس سے آگے کبھی بڑھتے نہیں ،وہ بھی جو غیر مسلم ممالک میں رہتے ہیں اور وہ بھی جو مسلم ممالک میں رہتے ہیں۔خیر یہ بھی غنیمت ہے ۔کم سے کم زندگی کا ثبوت تو ملتا ہے،مگر ہم مدھیہ پردیش کے جس شہر میں رہتے ہیںیہاں تو ناحق کے خلاف احتجاج کرنے بھی لوگ ڈرتے ہیں۔یہاں تو ہر مرض کی دوا آیت کریمہ کا ختم ہے۔ہم گذشتہ ۶ ؍سالوں سے یہاں مقیم ہیں۔ان سالوں میں کئی موج خوںسر سے گزریں۔ابھی گذشتہ سال ریاست کی راجدھانی بھوپال میں سیمی کے۸ ؍قیدیوں کو جیل سے بھگا کر گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔مہاراشٹر میں تو درجنوں شہروں میں اس پر احتجاج ہوا تھا مگر مدھیہ پردیش میں کہیں احتجاج ہوا ہو،نہ سننے میں آیا، نہ دیکھنے میں اور نہ پڑھنے میں۔
ہم وہ قوم ہیںجس کے تعلق سے اس کے نبی ﷺنے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا جب دنیا کی قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ہم یہ سمجھتے ہیں کے نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو یہ وارننگ دی تھی مگر میاں حضرات نے اسے پیش گوئی سمجھا اور تن من دھن سے صدیوںسے اسے پورا کرنے میں لگے رہے۔آج کون سی قوم ہے جو ہم پر ٹوٹی نہیں پڑ رہی ہے۔یہود و مشرکین تو ہمارے ازلی دشمن ہیں ہی، نصاریٰ کا مسلمانوں کے خلاف سارا تاریخی ریکارڈ صلیبی جنگوں سے بھرا پڑا ہے ،حالانکہ نصاریٰ جس نبی کی اُمت ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں یعنی حضرت عیسیٰ ؑ ، انہوںنے دشمن سے ایک گال پر طمانچہ کھانے کے بعد دوسرا گال بھی اسے پیش کردینے کی تلقین کی تھی ۔بودھ مذہب کے بانی گوتم بدھ(ممکن ہے یہ بھی نبی رہے ہوں جیسا کہ بعض علماء کی ثقہ رائے ہے)نے بودھوںکواَہنسا کا سبق دیا تھا، لیکن آج بودھ بھکشوبھی ہمیں ناکردہ گناہ بخشنے اور زندہ چھوڑنے پر تیار نہیں۔اکثر مسلمان چین اور پاکستان کی دوستی بڑی بغلیں بجاتے رہتے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ چین سنکیانگ میں نہ مسلمانوں کو برداشت کرنے کو تیار ہے نہ اسلام کو ۔معروف پاکستانی صحافی جناب مسعود انور اس پرروزنامہ ’’جسارت ‘‘کراچی میں اب تک کئی مضامین لکھ چکے ہیںجس میں یہ تفصیل بیان کی گئی ہے کہ چین کس طرح ایشیاء میں اپنے سامراجی ہاتھ پاؤں پھیلا رہا ہے ،اور سی پیک کے ذریعے اس کا سب سے بڑا نشانہ فی الوقت پاکستان ہے ۔انہوںنے لکھا ہے کہ سی پیک کا قرضہ اُتارنے کے لئے پاکستان کو گوادر کی بندر گاہ اور غالباً بلوچستان کا ایک بڑا علاقہ چین کے حوالے کرنا پڑے گا، چین یہی کچھ سری لنکا اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ کر چکا ہے۔
ہم نے قرآن و حدیث کو طاق پر رکھنے کے بعد اتنے فرقے بنا لئے ہیں کہ ان کو گننا بھی مشکل ہے ۔ہر فرقے نے اپنا ایک الگ ملجا و ماویٰ
بنا لیا ہے اور قرآن و حدیث کی بجائے اس کا اتباع کیا جا رہا ہے ۔ہمیں نہیں معلوم نبی ﷺ نے آیہ کریمہ کا ختم کب کہاں اور کیوں کیا تھا۔
ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ نبی رحمت ﷺ نے خدائی ہدایات پر لبیک کہتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی انتہائی قلیل تعداد کے ساتھ بے سروسامانی کی حالت میں کہ نہ گھوڑے نہ اونٹ نہ صحیح طرح کا اسلحہ میسر مگر پہلے بدر کے میدان میںپہنچ کر باطل کے خلاف صفیں جمائی تھیں اور بعد میں دعا میں مشغول ہوئے تھے۔دعا کے بعد بھی فتح کا وعدہ لے کر بھی تلوار تو اٹھانی پڑی تھی ،زخم تو کھانا پڑے تھے ،شہیدوں کے لاشے دفنانا تو پڑے تھے۔ ہم مسلمان اگر آیت کریمہ کے ختم کے چکر میں نہ پڑتے،قرآن سے حقیقی رہنمائی حاصل کرتے تو ہمیں سورۃ الرعد کی دسویں آیت ضرور نظر آجاتی ۔اسی آیت کا تو منظوم ترجمہ مولاناظفر علی خاں نے یوںکیا ہے ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اس کا مطلب یہ ہے کہ بلا عمل دعائیں ،وظیفے ،چلے اور ختم اس وقت تک بے کار ہیں جب تک آپ اپنی حالت کے بدلنے کے لئے عملی کوششیں نہ کر لیں۔علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب پر نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ
دوسری قومیں تو ممکن ہے مجرد طاقت کے بل بوتے پر فتح حاصل کر لیں مگر مومن بغیر طاقت کے تو ممکن ہے فتح حاصل کرلیںمگر بغیر اللہ کی خوشنودی کے فتح حاصل نہیں کر سکتا ۔ایک بار ایک غزوے میں صحابہ کرامؓ کو اپنی تعداد پر غرور ہو گیا تھا، اسی وقت ان سے رضائے الہٰی اٹھا لی گئی تھی اور انہیںشکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔اگر ہم قرآن کا بغور مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ خود رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو بھی یوم الفرقان میں فتح اس وقت حاصل ہوئی تھی جب وہ مشرکین مکہ کے غیر انسانی ٹارچر سے گزرتے ہوئے بنیان مرصوص بن گئے تھے ،یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے تھے ۔ ہم کہاں ہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار ؟ ہم لکڑیوں کے گٹھر بھی نہیں بن پاتے ہیں۔بچپن سے سنتے اور دیکھتے آرہے ہیں کہ عالم اسلام کا قلعہ عرب ہے ۔آج عرب کا انتشار مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی کمزوری اور جگ ہنسائی کا سبب بنا ہوا ہے۔حالت اس درجہ دگر گوں ہے کہ آج کل خود شاہی خانوادے اور تانا شاہ تخت وتاج کے لئے اپنی تلواریں نکال کر رعیت کو ہی نہیں بلکہ سگے سمبندھیوں کو بھی کاٹ پھینکتے ہیں ۔ان کی وجہ سے مسلمانوں کے قاتلوں کو یہ پیغام جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو مارو اور پھر ان تاناشاہوں سے اعزازات بھی حاصل کرو۔ہمارے ملک انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کو پہلے ہی سعودی دورے پر شاہ سلمان نے اپنے اعلیٰ سول اعزاز سے نواز دیا ۔ یہ تمغہ ملک ہند کو نہیں ملا بلکہ گجرات کے قتل عام پر اظہارِ افسوس کے دوبول تک نہ بولنے والی سیاسی شخصیت کو دیا گیا۔ عین ممکن ہے کہ کل کلاں ریاض میں یہی سلوک آنگ سان سوکی کے ساتھ کیا جائے ۔ سعودی حکمران ہی وہ حضرت ہیں جنہوں نے زوال آمادہ امریکہ کے مسلم بیزار صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی خوشنودی کے لئے اپنے ہی عرب بھائی قطر سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کر لئے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خود امریکہ نے قطر سے تعلقات ابھی تک منقطع نہیں کئے ہیں اور نہ اس کا فوری ا رادہ ہے بلکہ وہ قطر کو خوف زدہ کرواکے اسے اپنا اسلحہ بیچتا جارہاہے۔ ملت اسلامیہ پر مسلط ایسے ہی حکمرانوں کو میانمار کی وہ دہشت گردی نظر ہی نہیں آرہی ہے جسے دیکھ کر ساری دنیائے انسانیت چیخ رہی ہے اور یہ سب میڈیا میں رپورٹ بھی کیا جا رہا ہے۔اگر محلاتی عیاشوں میں مست ان کم ظرف حکمرانوں کو بودھ بھکشوؤں کی حیوانیت نظر آ گئی ہوتی تو یہ میانمار سے کم ازکم مالدیپ کی طرح تجارتی تعلقات ہی منقطع کرچکے ہوتے یا تر کی کے صدر طیب اردواں کی طرح بنگلہ دیش کو فہمائش کر تے کہ لٹے پٹے بر می مسلمانوں کے لئے ملکی سرحدیں کھول دو ، ہم ان کا خرچہ اٹھائیں گے۔ قرآن کریم بزدل انسانوں کو اندھا بہرہ اور دل سے عاری قراردیتا ہے جب کہ مومن آپس میں نرم اور کفار کے لئے سخت ہوتے ہیں اور وہ ہر چیز سے بالاتر ہوکر انسانیت کے درد میں ڈوبے رہتے ہیں۔اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ اب دنیا میں مومن اتنے کم یاب ہوچکے ہیں کہ انگلیوں پر گنے جائیں۔رہے ہم جوبظاہر ایمان کا دعویٰ رکھنے والے لوگ ہیں ، اندر سے ہم اتنے کھٹور ہیں کہ کسی کی تکلیف ، مصیبت ،المیہ اور زخم دیکھ کر آنکھیں دوسری طرف پھیر لیتے ہیں ع
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
7697376137