گردش ماہ وسال کے عمل سے ایک بار پھر محرم الحرام کامہینہ چل رہا ہے۔ تاریخ اسلام میں واقعہ کربلا ایک اہم ترین حادثہ ہے جس نے تاریخ کے سفر کو اشک بار کر کے چھوڑا اور یہ امت مسلمہ کے لئے عبرتوں اور نصائح کا ایک وسیع وعریض دفتر اپنے اندر رکھتاہے ۔دنیا کی تاریخ کا ہرورق ابن آدم کے لئے عبرتوں اور نصیحتوں کا مرقع ہے۔ قرآن پاک نے تاریخ کو تاریخ کی حیثیت یا کسی قصہ اور افسانہ کی حیثیت سے مدون ومرتب شکل میں پیش نہیں کیا۔اس میں یہی مترشح ہوتا ہے کہ تاریخ خود اپنی ذات میں کوئی مقصد نہیں بلکہ وہ نتائج ہیں جو تاریخ اقوام اور ان میں پیش آنے والے واقعات سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس لئے قرآن پاک نے ازمنۂ رفتہ کے تعلق سے جستہ جستہ قصص پیش کرکے ان سے عبرتیںحاصل کر نے کا اشارہ دیا ۔سیدنا حضرت حسین ابن علی ؓ کا واقعہ شہادت اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے ۔اس میں ایک طرف ظلم و جور،سنگ دلی اور محسن کشی کے ایسے ہولناک واقعات اور حیرت انگیز واقعات منسلک ہیں اور دوسری طرف آل اطہار رحمت دوعالمؐ کے چشم وچراغ اور ان کے ۷۰/۷۲ مصاحبین کی چھوٹی سی جماعت کا گر انڈیل باطل کے مقابلہ میں ثابت قدمی کے ساتھ جہاد اور قربانی و جانثاری کے ایسے محیرالعقول واقعات کی جیتی جاگتی تصویر ابھر گئی کہ جن کی نظیر تاریخ میں ملنا مشکل ہے ۔ بہر طوراس تصویر کے دورخ ہیں جن میں آنے والی نسلوں کے لئے ہزاروں عبرتیں او ر حکمتیں پوشیدہ ہیں ۔۶۱ ہجری میں جب یہ واقعہ شہادت پیش آیا، اس وقت سے لے کر آج تک اس پر مفصل کتب اور رسالے ہر زبان میں لکھے گئے ہیں۔یہ واقعات ایک دریائے خون کی طرح چشم تصور کے سامنے رقصاں ہوتے ہیںمگر ان کو پڑھنے ، لکھنے اور سننے کے لئے جگر تھام کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ کر بلا کے میدان میں جگر گوشہ رسولؐ سید شباب اہل الجنۃ حضرت حسینؓ کی درد ناک و مظلومانہ شہادت پر توزمین رویا ،ملائکہ روئے، آسمان تھرایا، اور ہر انسان اس کا درد محسوس نہ کرے ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ شہید کربلا حضرت حسین ؓ کی روح مقدس دردوغم کا رسمی یا روایتی مظاہرہ کرنے والوں کی بجائے ان لوگوں کو ڈھونڈتی ہے جو آپ ؓ کے دل مبارک میں اسلام کے لئے درد میں شریک اور مقصد کے ساتھی ہوں ۔امام عالی مقام کی رودادِ غم اور زبان مبارک ہمیشہ مسلمانوں کو اس مقصد عظیم کی دعوت دیتی ر ہے گی جس کے لئے حضرت حسین ؓ بے چین ہوکر مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کوفہ جانے کے لئے مجبور ہوئے اور جس کے لئے آپ ؓ نے اپنے سامنے اپنی اولاد اور اپنے اہل بیت اور جان نثار ساتھیوں کوقربان ہوتے دیکھا اورخود بھی اس پر قربان ہوگئے ۔واقعہ شہادت کو اول سے آخرتک دیکھئے ،حضرت حسین ؓ کے خطوط اور خطبات کو غور سے پڑھئے تو یہ معلوم ہوگا کہ مقصد یہ تھا
(۱) کتاب وسنت کو صحیح طور پر رواج دینا۔
(۲) اسلام کے نظام عدل کو ازسر نو قائم کرنا۔
(۳) اسلام میں خلافت نبوت کے بجائے ملوکیت وآمریت کی بدعت کے مقابلے میں مسلسل جہاد کرنا۔
(۴) حق کے مقابلے میں زور زرکی نمائشوں سے مرعوب نہ ہونا۔
(۵) حق کے لئے اپنا جان ومال اور اولاد سب قربان کردینا۔
(۶)خوف وہراس اور مصیبت ومشقت سے نہ گھبرانا اور ہر وقت رب کریم کو یاد رکھنا ، اسی پر توکل اور ہر حال میں رب کریم کا شکر اداکرنا۔ ہم میں کوئی ہے جو جگر گوشہ رسولؐ مظلوم شہید کربلا شہید کی اس پکارکو سنے اور ان کے مشن کو ان کے نقش قدم پر انجام دینے کے لئے تیار ہو، ان کے اخلاق فاضلہ اور اعمال حسنہ کی پیروی کو اپنی زندگی کا مقصد ٹھہرائے؟؟؟
خلافت اسلامیہ پر یورش کا آغاز
خلیفہ سوم حضرت ذی النورین عثمان غنی ؓ کی شہادت سے اُمت مسلمہ میں فتنوں کا ایک غیر منقطع سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس میں منافقین کی سازشوں سے بھولے بھالے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے متعدد واقعات پیش آتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان آپس میں تلوار چلتی ہے ۔حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے بعد حالات نے کروٹ لی اورخلافت کا سلسلہ جب امیر معاویہ ؓ پر پہنچتا ہے تو حکومت میں خلافت راشدہ کا وہ مثالی رنگ نہیں رہتا جو خلفاء راشدین ؓکی حکومتوں کو حاصل تھا ، حضرت معاویہ ؓ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ زمانہ سخت فتنہ کا ہے، آپ اپنے بعد کے لئے کوئی ایسا انتظام کریں کہ مسلمانوں میں پھر تلوار نہ نکلے اور خلافت اسلامیہ پارہ پارہ ہونے سے بچ جائے۔ باقتضائے حالات یہاں تک کوئی نامعقول یا غیر شرعی بات بھی نہ تھی لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کے بیٹے یزید کا نام مابعد کی خلافت کے لئے تجویز کیا جاتا ہے۔ کوفہ سے چالیس مسلمان آتے ہیں کہ امیرمعاویہؓ سے اس کی درخواست کریں کہ آپ کے بعد آپ کے بیٹے یزید سے زیادہ کوئی قابل اور ملکی سیاست کاماہر نظر نہیں آتا۔ اس کے لئے بیعت خلافت لی جائے۔ حضرت معاویہؓ کو شروع میں کچھ تامل بھی ہوتا ہے، اپنے خاص مصاحبین سے مشورہ کرتے ہیں ،ان میں اختلاف ہوتا ہے، کوئی موافقت میں رائے دیتا ہے اور کوئی مخالفت میں ،یزید کافسق وفجور بھی اس وقت تک کھلا نہیں تھا، بالاخر بیعت یزید کا قصد کرلیا جاتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یزیدبہ حیثیت حاکم وقت اپنا حکم سناتا ہے کہ اولاد رسولؐ مجھے اپنا امیر المؤمنین تسلیم کرلیں، لیکن حضرت حسین ؓ نے یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی،اور آپ ؓ بوجوہ انکار بیعت پراصرار کر تے رہے ۔ آپ ؓاپنے نانا محترمﷺ کے شہر میں مقیم تھے، حکومت یزید کے کارندوں اوراس کے عمال نے آپ ؓ کے انکار بیعت کو وہ اہمیت دی جو حضرات عبد اللہ ابن عمرؓ اور عبد اللہ ابن زبیر ؓ وغیرہ کے انکار کو اہمیت نہیں دی تھی، کیونکہ وہ اصحاب حضرت حسین ؓ کے مقام ومرتبہ اور رحمت دوعالمؐسے ان کے رشتہ اور نسبت کے سبب لازم تھی، اور وہ اس کے دور رس اثرات سے واقف تھے۔ چونکہ ان کے بعد ان کے عظیم المرتبت والد کی تاریخ سے یہ بات مربوط تھی اور حضرت معاویہ ؓ کی حکومت میں جو واقعات پیش آئے تھے، اور وہ بھی ان کے کارندوں کے علم میں تھے، مگر ان کی کوششوں کے باوجود حضرت حسین ؓ نے یزید کو تسلیم کرنا قبول نہیں فرمایابلکہ انہوں نے جو اصولی موقف اختیار فرمایا تھا وہ پورے ایمان، بصیرت اورعلم پر مبنی تھا اور انہیں اہل کوفہ نے مکتوبات لکھ لکھ کر بیعت کے لئے دعوت دی اور آپ ؓ تا وقت ِشہادت حالات کی ناموافقت کے باوجود بھی وہ سر مو منحرف نہیں ہوئے۔چنانچہ حضرت حسین ؓ نے بصیرت کے ساتھ حالات کا جائزہ لیا اور پھر حج کو عمرے میں بدلتے ہوئے مدینہ طیبہ میں اپنے نانا جان محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پاک سے رخصت ہوئے اور کسی بھی قسم کے تصادم کو ٹالتے ہوئے حجاز مقدس کی حدود سے باہر ہجرت کا ارادہ فرمایا۔ اُدھر یزید نے اپنی ایجنسیوں کو متحرک کرکے قافلہ حسینی ؓکو کربلا میں روک لیااور ان پر پانی بند کرکے عملی طور پر آپ ؓ پرجنگ مسلط کردی۔ حضرت حسین ؓنے شیر خوار بچہ، جواں سال بیٹا، نوعمر بھتیجے، بوڑھے انصار، عصمت مآب بیبیاں اور بیٹیاں سب کچھ راہ حق میں پیش کردیں،اس طرح آپ کے ساتھی تنہا یا دو دو کر کے آپؓ کی نگاہوں کے سامنے جنگ کرتے رہے اور آپؓ ان کے لیے دعائے خیر کرتے رہے ۔چنانچہ سب جان نثار آپ کے سامنے شہیدہو تے گئے تو شمر ذی الجوشن نے آواز دی کہ اب حسین ؓ کا کام تمام کرنے میں کیا انتظار ہے ۔ حضرت حسین ؓ کی طرف زرعہ بن شریک التمیمی بڑھا اور آپؓ کے شانہ مبارک پر وار کیا، پھر سنان بن انس بن عمر والنخعی نے نیزہ چلایا اور گھوڑے سے اُتر کر سرمبارک تن پاک سے جداکردیا۔حضرت حسین ؓ کی شہادت کے بعدآپ ؓ کے جسم اطہر کو دیکھا گیا تواس پر ۳۳ نشان نیزوں کے اور ۳۴نشانات دوسری ضربوں کے آئے تھے۔ اس طرح آپ کے ساتھ ۷۱؍ افراد شہید ہوئے، اور وہ سب سیدہ فاطمہؓ کی اولاد سے تھے۔ حضرت حسین ؓ جس روز شہید ہوئے، وہ یوم عاشورہ جمعہ کا دن، محرم کا مہینہ،اور سنہ ۶۱ ہجری تھا، اور آپ کی عمر شریف ۵۴ سال ساڑھے چھ ماہ تھی۔
قاتلان حسینؓ کا عبرتناک انجام
جس وقت حضرت حسینؓ پیاس سے مجبور ہوکر دریائے فرات پر پہنچے اور پانی پینا چاہتے تھے تو کم بخت حصین بن نمیر(بعض اہل تاریخ نے دوسرانام ذکر کیا ہے) نے تیر مارا جوآپ کے دہن مبارک پر لگا، اس وقت آپ کی زبان سے بے ساختہ بددعا نکلی کہ:یا اللہ تیرے محبوبؐ کی بیٹی کے فرزند کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے، میںاس کا شکوہ آپ ہی سے کرتا ہوں یا اللہ ان کو چن چن کر قتل کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے فرمادے ۔ان میں سے کسی کو بھی باقی نہ چھوڑ اول تو ایسے مظلوم کی بددعاء اور پھر سبط رسولؐ اس کی قبولیت میں شبہ کیا تھا دعا قبول ہوئی اورآخرت کی عدالت لگنے سے پہلے دنیا ہی میں ایک ایک کرکے بری طرح مارے گئے ۔امام زہریؒ فرماتے ہیں کہ جو لوگ قتل حسینؓ میں شریک تھے ان میں سے ایک بھی نہیں بچا جس کو آخرت سے پہلے دنیا میں سزا نہ ملی ہو، کوئی قتل کیا گیا، کسی کا چہرہ سخت سیاہ ہوگیا،یا مسخ ہوگیا، یا چند ہی روز میں ملک و سلطنت چھن گئے اور ظاہر ہے کہ یہ ان کے اعمال کی اصلی سزا نہیں بلکہ اس کا ایک نمونہ ہے جو لوگوں کی عبرت کے لئے دنیا میں دکھا دیا گیا۔
صالح نظام حکومت کے قیام کی کوششوں اور غلط صورت حال کی تبدیلی کی کاوشوں اور ان کی قیمت سے متعلق مورخ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی الندوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ خلفاء راشدینؓ کے بعد جو خلافت قائم ہوئی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ موروثی اور خاندانی نظام پر قائم تھی، عرب اور مسلمان جس کے زیر نگیں تھے، کسی کی ہمت نہ تھی، کہ خلفائے بنی امیہ یا خلفاء بنی عباس سے مقابلہ کی ہمت کرتا، اور کامیابی کی ذرہ بھی توقع ہوتی، صرف وہ شخصیتیں اس بارہ میں مستثنیٰ تھیں جن کی اعلیٰ نسبی اورعلو یت خاندانی معروف ومسلم تھیں اور ان کو وسیع پیمانے پر مسلمانوں کی حمایت ودینی حمیت کی قوت حاصل ہو، حقیقت میں لوہاہی لوہے کو کاٹتا ہے، اور ہواکہ مقابلہ آندھی ہی کرسکتی ہے،اسی لیے دیکھا گیا کہ اموی وعباسی خلفاء کے مقابلہ میں جس نے بھی جہاد کاعلم بلند کیا، اور اصلاح ِ احوال کے لیے آواز لگائی وہ رسول پیغمبر اسلامؐ کے خانوادہ کے افراد گرامی اور علوی خاندان کے گل سرسبد تھے۔ انہیں لوگوں کواس کا حقیقی غم تھا کہ زمین پر فساد پھیل رہا ہے، بگاڑ بڑھ رہا ہے، خلافت کی روح ختم ہوگئی ہے ،مسلمانوں کی دولت وقوت نفسانی خواہشات کے پوراکرنے اور عیش کوشی کے اسباب فراہم کرنے اور جاہلیت کی سنتوں کے احیاء میں صرف ہورہی ہے، علامہ ابن الاثیر علیہ الرحمۃ کی تاریخ الکامل میں مذکورہے کہ امام مالک ؒسے محمد ذوالنفس الزکیہ کے جہاد کے بارے میں فتویٰ مانگا گیا اور استفتاء میں کہا گیا کہ کیا یہ جائزہے اس حال میں کہ ابو جعفر(منصور) کی بیعت کا قلادہ ہماری گردنوں میں ہے۔ امام مالک ؒنے فرمایا!تم لوگوں سے زبردستی بیعت لی گئی ہے مکروہ یعنی جس سے اس کی ناپسند یدگی کے باوجود کوئی کام کرایا جائے کی قسم کا اعتبار نہیں۔اس فتویٰ کے بعد لوگ محمد ذوالنفس الزکیہ سے جاکر مل گئے اور امام مالکؒ اپنے گھر سے نہیں نکلے۔ محمد ذوالنفس الزکیہ کوسنہ ۱۴۵ ہجری میں رمضان المبارک کے مہینہ میں شہید کردیا گیا، اور ان کے بھائی اسی سال ذوالقعدہ میں شہید ہوئے یہ کوششیں ناکام رہیں اور ان کا عملی نتیجہ نہیں نکلا، چونکہ جن حکومتوں کے خلاف یہ اقدام کیا گیا تھا، وہ نہایت مستحکم اور منظم تھیں ان کے پاس ہتھیار اور مکمل جنگی سامان تھا ۔ زمانہ حال کی تاریخوں میں بکثرت ایسی کوششوں کا حال دیکھنے کو ملتا ہے جو باوجود اس کے اخلاص، شجاعت ایمان اور سرگرمیوں پر مبنی تھیں، ان کے علمبرداروں اور رہنماؤں کے اخلاص میں کوئی شک نہیں، ان کے پیرؤوں نے بھی ایثار وقربانی ومہم وجوئی میں کوئی کمی نہیں کی، یہ تحریکیں منظم اور مضبوط حکومتوں کے مقابلہ میں ناکام رہیں۔
المختصر! حضرت حسین ؓ عملًا یہ ثابت کرگئے کہ ظلم کے قلعے اس طرح مسمار کرو کہ جس طرح میں نے کئے، ان کی عزیمت وجرأت اور ہمت وشجاعت قلب، کا سب سے بڑا ظہور اسی واقعہ سے ہوا ہے کہ جس چیز کو وہ حق سمجھ چکے تھے، اس پر جان دینی گواراکی زورزبردستی کے سامنے سر جھکانا گوارا نہ کیا،اور باوجود بے یاری و مددگاری کے مقابلہ میں آگئے اور شہادت عظمیٰ کے مقام پر جا پہنچے۔
آخری بات! اہل ایمان آج بھی کربلا میں ہیں ،خدا کی اس زمین کا ذرہ ذرہ خون آلود ہے، انسانیت کراہ رہی ہے اور شرافت خاک وخون میں غلطاں ہے۔بالخصوص میانمار کے حالات بہت ابتر ہیں۔ رب کریم سے دعا ہے کہ وہ اس مظلوم ومقہور خطہ پر اپنا خصوصی فضل واحسان فرمائے اور اقوام عالم کو غیرت اور شرم عطا کرے کہ وہ روہنگیا کے نہتے مظلوم و مغموم اور دکھوں سے لبریز مسلمانوں پر ڈھائے جارہے یزیدی مظالم دیکھ رہے ہیں مگر بیچ بچاؤ کا کوئی کردار نہیں نبھا رہے ہیں ۔ رب کریم اس خطہ کے باشندگان پر اپنا خصوصی فضل اور بھلائی کا معاملہ فرمائے تاکہ وہ سب لوگ اپنی مرضی کے مطابق عزت و وقار کی زندگی جی سکیں۔