ڈاکٹر سر محمد اقبال کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا کشمیر سے روحانی تعلق تھا۔اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے آباء و اجداد کا تعلق کشمیر سے ہی تھا۔اقبال کے فکر و نظریہ نے کشمیر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دئے ۔ اہل کشمیر کے دلوں میں اقبال کے لئے جو عقیدت اور محبت کا جذبہ موجود ہے، اس کا اظہار لفظوں میں ممکن نہیں ۔کشمیر کے اہل علم ، دانشوروں،، قلم کاروں ، ادیبوں شاعروں ، نوجوانوں، بزرگوں غرض ہر ایک طبقہ سے وابستہ انسان نے اقبال کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھااور پڑھا ہوگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر اقبال اہل کشمیر کے لئے ایک موضوع نہیں بلکہ کشمیر کی روح کا حصہ ہے ۔ تعلیمی اداروں کی بات کرلیں توہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اقبال کے نام پر درجنوں تعلیمی ادارے اور لائبریاں ہیں ۔صحیح معنوں میں بولا جاے تو اہل کشمیر کے لئے ذکر اقبال ذکر محبوب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال کو سر زمین کشمیر سے جو نسبت اور کشمیر کی تحریک آزادی سے جو قربت رہی ہے اس کے پیش نظر اقبال کی زندگی، شخصیت، اور فن کے مختلف گوشوں پر حاوی رہی ہے۔اقبال نے نظم "گل خیابان جنت کشمیر" لکھ کر اپنے کشمیری نثراد ہونے پر فخر کیا ہے ۔فقیر وحیدالدین اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر اقبال ؒ کے حوالے سے کچھ اس طرح سے رقمطراز ہیں کہ ـ’’جناب ممتاز حسن فرماتے ہیں کہ ایک روز علامہ اقبال کی صحبت میں کشمیر کی سیاسی تحریک پر گفتگو ہو رہی تھی تو علامہ اقبال فرمانے لگے کہ میں نے جو کشمیر کے متعلق نظم نشاط باغ میں بیٹھ کر لکھی تھی اس میں ریشم ساز کارخانوں اور کاریگروں کا ذکر شامل تھا۔عجیب بات یہ ہے کہ بعد میں جب کشمیر کی سیاسی تحریک وجود میں آئی تو اس کی ابتداء بھی سری نگر کے ریشم کارخانے میں کاریگروں کی بغاوت سے ہوئی۔علامہ اقبال کی شہرہ آفاق تصنیف "پیام مشرق" میں کشمیر کے بارے میں چند اشعارلکھے گئے ہیں۔اقبال کا شمار دنیا کے عظیم ترین فلسفی شعر میں ہوتا ہے۔ یوں تو ان پر دنیا کے متعدد مصنفین اور محققین نے اپنی اپنی زبانوں میں مقالے بھی لکھے ہیں اور کتابیں بھی اور ان پر دنیا کے کئی طالب علم ریسرچ بھی کر رہے ہیں ۔ ان کے کلام کا ترجمہ بھی کیا جارہاہے اور ان کی شرحیں بھی لکھی گئی ہیں،ان کی شخصیت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور سوانح حیات پر بھی لیکن سب سے پہلے اقبال پر جو ٹھوس اور جامع نوعیت کا کام کیا گیا وہ ایک کشمیری اہل قلم کا ہی نتیجہ ٔ فکر تھا جن کا نام منشی محمد الدین فوق تھا اور انہوں نے اقبال کی سب سے پہلی سوانح حیات لکھی۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی کی بات ہے کہ منشی محمد الدین فوق لاہور سے ایک ماہانہ ’’کشمیری میگزین ‘‘شائع کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اس کے اپریل کے پہلے شمارے میں اقبال کے حالات زندگی لکھ کر اس صنف میں اولیت کا شرف حاصل کیا۔ اقبال کے بارے میں سب سے پہلی کتاب جو اردو میں لکھی گئی تھی وہ شرف بھی ایک کشمیری مصنف مولوی احمد دین ایڈوکیٹ کو حاصل ہوا۔
اقبال اگر چہ سارے جہاں کو اپنا وطن سمجھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ سارے جہاں میں کشمیر کا ایک چھوٹا سا ملک جو 222284 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جس کی کل آبادی ایک کروڑ پچیس لاکھ ہے، تاہم آپ نے اپنے آبائی وطن کشمیر کے مظلوم و محکوم عوام کے درد و کرب کو اپنے دل میں جگہ دے کر اپنی شاعری کے ذریعے اس کا جو اظہار کیا ہے ،وہ ارضِ کشمیر کے عوام کے لئے سرما یہ افتخار ہے ۔ آپ کی جو نظمیں سب سے پہلے کسی اخبار یا رسالے کی زینت بنیںوہ بھی کشمیر اور کشمیریوں کے دردوکرب سے متعلق ہیں۔انگلستان سے واپس آکر آپ پہلے کشمیری انجمن کے اور اس کے بعد آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس کے سیکریٹری مقر ر ہوئے ۔نواب سر سلیم اللہ GCIA نواب آف ڈھاکہ جب مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے جلسے میں امرتسر تشریف لائے تھے تو کشمیریانِ پنجاب کی طرف سے سر محمد اقبال ہی نے آپ کی خدمت میں خیر مقدم کا ایڈریس فارسی زبان میں پڑھا تھا۔ اقبال اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ کشمیر آنے کی خواہش ایک مدت سے تھی، ان کی یہ خواہش جون۱۹۲۱ء میں پوری ہوئی۔ وجہ سفر یہ تھا کہ منشی سراج الدین نے انہیں ایک معاملے میں قانونی مشاورت کے لئے بلایا تھا۔اگست ۱۹۲۱ء وہ تاریخی مہینہ ہے جب اقبال آخری بار کشمیر تشریف لائے اور اس سر زمین کا درد بھرے دل سے مطالعہ کیا جس کے تاثرات ان کے کلام میں موجود ہیں۔اس سفر کے متعلق خاص بات یہ ہے کہ جب مہاراجہ پرتاپ سنگھ کو معلوم ہوا کہ اقبال کشمیر تشریف لائے ہیں تو انہوں نے فوری طور پر اقبال کو دعوت نامہ پیش کیا جو اقبال نے بخوشی قبول کیا اور وہ ایک دو روز مہاراجہ کے مہمان بنے۔ اقبال کے اس سفر کشمیر کا حاصل ان کی نظم "ساقی نامہ" میں بالخصوص کشمیر کے بارے میں جو انہوں نے نشاط باغ میں لکھا ہے ؎
ازاں مے فشاں قطرہ بر کشمیری
کہ خاکسترش آفریند شرارے