سیاہ حاشیے
افسانچے کے عنوان کے لئے جدید اُردو افسانے کے بانیوں میں شامل
سعادت حسن منٹو سے معذرت گزار ہوں
پچھلے کئی برس کیا کئی دہائیوں سے اخبار میں سیاہ حاشیے دیکھنے کو مِلے……
ـ’’آج اِنسانیت کا قتل ہوا‘‘…’’ آج رواداری کا خون ہوا‘‘…
’’ آج معصومیت کی بھی عصمت دری ہو گئی‘‘… آج دوستی حوس کی بھینٹ چڑھ گئی‘‘
…’’ آج امن و آشتی کو دفنا یا گیا‘‘ …’’ آج سکھ ، چین کو کفن پہنایا گیا‘‘
…’’آج ہر انسانی رشتہ بیکار ہوا ‘‘…’’ آج شفا خانہ ہی بیمار ہوا‘‘…
’’ آج اخلاقیت تار تار ہوئی‘‘…’’آج بربریت بھائی چارے پہ سوارہوئی‘‘ …
’’ آج انصاف کی دیوی بھی شرمسار ہوئی ‘‘ … وغیرہ وغیرہ۔
’’ لیکن آج کے شمارے میںکوئی بھی سیاہ حاشیہ نہیں ہے ، بابا،‘‘……بیٹے نے باپ جو کہ
بینائے چشم سے محروم تھا ، سے کہا۔
’’اسکا مطلب یہ ہوا نا بیٹے کہ موت کی بھی موت ہوئی اور جو کچھ بھی بچ گیا وہ اب زندہ ہے،…صحیح
سلامت ہے۔ ‘‘
’’کاش یہی ہوتا بابا …لیکن ایساہے نہیں کیونکہ جو کچھ یا جو کوئی بھی بچا وہ زندہ لاش ہے اور زندہ لاشوں
کو سیاہ حاشیوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘
رابطہ؛مر کالونی ، تالاب تِلو، جموں،حال گُڑ گا ؤں ، ہریانہ
فون نمبر؛9419119591، 9821127187
ای میل : [email protected]
مِٹی کی قیمت
تمہاری مِٹی کی قیمت کچھ بھی تو نہیں ہے ، تم ایک عام چوپائے سے بھی کمتر ہو ؛
وہ ہل تو جوت سکتا ہے یا گاڑی کھینچ سکتا ہے؛یا دودھ دے کر تمہارے اطوار کے باوجود تم اور تمہارے اہل و عیال کو پال پوس سکتا ہے؛ یا پھر اپنی کھال سے تمہارے آرام کا سامان میسر کرا سکتا ہے:
تم ایک جنگلی جانور سے بھی گھٹیا ہو؛کچھ بھی نہیں تو چِڑیا گھر میں مقید ہو کر وہ تمہارا اور تمہارے بال بچوں کا دِل تو بہلا سکتا ہے؛ تم کیا ہو ، محض سماج کے دشمن یا پھر اناج کے دشمن؛
کیا ہوا جو پرسوں ہی تم نے اپنی مِٹی کی قیمت پچاس لاکھ لگوائی؛
حیران نہ ہو…تمہارے ہی اِنشورنس ایجنٹ نے مجھے یہ بات کل بتائی؛
اب تم اس بیچارے انشورنس ایجنٹ پر غصہ نہیں ہونا اور میری بات غور سے سُن لینا؛
یہ پچاس لاکھ تمہاری زندگی کی قیمت نہیں؛
یہ تمہاری اُس زندگی کی قیمت ہے جو ا گر تم نے اوروں کیلئے وقف کی ہوتی؛
اوروں کے دکھ درد مِٹانے کیلئے صرف کی ہوتی:
دُنیا میں سے نفرت و تشدد کا قلع قمع کرنے اور پیار کا امرت بانٹنے میں لگائی ہوتی؛
لوگوں کی بھوک، پیاس، افلاس، اقتصادی بدحالی، نابرابری اور استحصال ہٹانے کے واسطےاستعمال کی ہوتی؛تب تمہاری اس زندگی کی قیمت پچاس لاکھ کیا پچاس لاکھ کروڑ لگا کے بھی کم ہوتی؛
تب تم خدائی کا بھی دعویٰ کر سکتے تھے، کیونکہ کسی غریب و لاچار انسان کی دُعا کی بدولت اسکا محسن اس کیلئے خدا کا درجہ تک اِختیار کر سکتاہے ۔مگر افسوس… تم نے ایسا نہیں کِیا۔
لیکن تم پچھتا نا مت…تم نے کچھ کھویا ہے مگر مکمل طور گنوایا نہیں:
اب بھی وقت ہے… اُٹھو، اپنی اِس مِٹی کی حقیقت پہچانو اور پھر جِتنی چاہو اسکی قیمت لگواؤ؛
کوئی اعتراض نہیں کرے گا…میں بھی نہیں۔