سرینگر // اخروٹ اور اخروٹوں کی گری کی قیمتوں میں گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال 50فیصد کمی واقع ہوئی ہے جس سے اس کاروبار سے وابستہ افراد کو ایک مرتبہ پھر کروڑوں کے نقصان کا خدشہ ہے ۔ریاست بھر میں اس سال اگرچہ اخروٹ کی پیداوار کافی اچھی رہی لیکن اس کاروبار سے وابستہ لوگ قیمتوں میں بتدریج کمی سے سخت پریشان ہیں ۔ بتایا جاتا ہے ملکی اور عالمی منڈیوں میں بیرونی ممالک سے کم قیمت پر دستیاب اخروٹ کی وجہ سے کشمیری اخروٹ کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ایک اندازے کے مطابق گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال اخروٹ گری کی قیمتوں میں 50فیصد کمی واقعہ ہوئی ہے جبکہ ثابت اخروٹ میں بھی 70فیصد کمی بتائی جا رہی ہے ۔محکمہ ہاٹی کلچر نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ قیمتوں میں کمی واقعہ ہوئی ہے ۔ قیمتوں میں کمی کی وجہ سے وادی ، پیر پنچال اور خطہ چناب کے تاجر بے حد پریشان نظر آرہے ہیں۔ضلع کپوارہ کے ہایہامہ ،کلاروس ،لولاب ،کرالہ پورہ ،رامحال اور ٹنگڈار،چھمکوٹ ایسے علاقے ہیں جہاں کااخروٹ عالمی بازار میں بھی مشہورہے۔ان علاقوں سے سالانہ 50000سے 80000کوئنٹل گری تیار ہوتی ہے اور اس کاروبار کے ساتھ ہزاروں لوگ وابستہ ہیں۔کپوارہ کے ایک بیوپاری لا لہ میر نے بتایاکہ اس سال 50فیصد کا نقصان ہورہا ہے ۔لالہ میر نے کہا کہ اس وقت ایک کلو گری دوپھاڑ 5سو سے 6سو میں فروخت ہو رہی ہے جبکہ گذشتہ سال اس گری کی قیمت 9سو سے 11سو فی کلو تھی ۔انہوں نے کہا کہ ثابت اخروٹ کی قیمت پچھلے سال فی کلو 350تھی لیکن اس سال 120ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس شعبہ سے وابستہ لوگوں کو کتنا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ۔لالہ میر نے کہا کہ کپوارہ میں اس کاروبار سے جڑے لوگوں کو ایک ارب روپے کا نقصان ہونے کا احتمال ہے ۔لگامہ اوڑی جہاں شمالی کشمیر کی سب سے بڑی گری منڈی ہے، میں بھی اس سے وابستہ لوگ پریشان ہیں ۔لگامہ کے ایک تاجر غلام احمد بٹ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ امریکہ اور دیگر بیرونی ممالک سے آنے والی گری اور اخروٹ پر 12فیصد جی ایس ٹی لگنے کے سبب یہاں پر قیمتوں میں 50فیصد کمی آئے ہے ۔انہوں نے کہا کہ امریکہ سے آنے والی گری اگرچہ سفید ہے لیکن مزیدار نہیں جبکہ کشمیر کی گری کافی لذیز ہے ۔انہوں نے کہا کہ لگامہ میں اس وقت 30سے 40دوکانیں تاجروں کی ہیں، جو گری کا کام کرتے ہیں اور اس علاقے سے سالانہ 5لاکھ کلو سے زیادہ کی گری تیار ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امسال زیادہ تعداد میں لوگ اس کاروبار کے ساتھ جڑے تھے لیکن ان کی امیدوں پر پانی پھیر گیا۔ڈرائی فروٹ ایسو سی ایشن کے صدر حاجی بہادر خان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کشمیر ی لوگوں کی کوئی آمدن تھی تو وہ سیب یا اخروٹ کی آمدن تھی ۔ انہوںنے کہا کہ وزیر اعلی سے ان کی ملاقات آج کپواڑہ میں ہوئی جس دوران انہوں نے یقین دلایا کہ تین دنوں کے اندر اندر معاملے کو حل کیاجا ئے گا۔ تاہم اس سے پہلے وزیر خزانہ نے یقین دلایا تھا کہ گری پر کوئی ٹیکس نافذ نہیں ہو گالیکن نوٹفکیشن نکالنے کے باوجود بھی کشمیری گری پر پانچ فیصد ٹیکس لگایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیلفورنیا،چلی اور یورپ سے آنے والی گری نے یہاں کی گری کو مارکیٹ سے باہر نکال دیا ہے ۔کرناہ کے ایک تاجر محمد مقصود نے سرکار کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ کشمیر گری پوری دنیا میں مشہور تھی اور عالمی منڈیوں میں سرفرست رہتی تھی لیکن اب اس گری کو سرکاری کی عدم توجہی اور لاپروہی کی وجہ سے منڈیوں میں زیادہ فوقیت نہیں دی جاتی ہے ۔محکمہ اگریکلچر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اخروٹ اور اخروٹ کی گری کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ڈپٹی ڈائریکٹر ہاٹیکلچر محمد یوسف ڈار نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وادی کے جو لوگ اس پیشے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اُن کو معیاری گری بیرون ریاست فروخت کرنی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ سفید اور لال گری کے ساتھ ملاوٹ کر کے اُس کو فروخت کرتے ہیں اور یہ بھی ایک اہم وجہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ بیرون ممالک میں اخروٹ کے حوالے سے کچھ اچھا کام کیا جارہا ہے اور ریاستی سرکار بھی کشمیر ی اخروٹ کو مزید لذیز بنانے اور گری کی کوالٹی کو بہتر بنانے پر کام کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اخروٹ کے پودوں میں پیوند کاری کی ضرورت ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر نے مزید بتایا کہ ہمارے یہاں کئی اخروٹ کے اقسام بھی ہو تے ہیں جو دنیا کے کسی بھی حصے میں نہیں پائے جاتے، اس لئے یہاں کا اخروٹ دوسرے ممالک کی بہ نسبت زیادہ لذت دار ہو تا ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ نے مشن مول کے تحت اخروٹ کو فروغ دینا ہے ۔