تاریخ کا پہیہ ہمیشہ آگے ہی نہیں چلتا، ایسے بھی ادوار ہوتے ہیں جب تاریخ کی سمت پیچھے کی طرف یا دائیں بائیں ہوتی ہے۔ایسی صورتحال میں اگربرما میں ہوئے حملے کی طرح یہاں بھی بھارتی فورسز کے درجنوں جوان ایک ایکشن میں مارے جاتے ہیں، تو اس سے کچھ اور ہو نہ ہو، تطہیری آپریشن کی صورت میںایک نیا طوفان ضرور آ سکتا ہے۔
جان کے لالے پڑیں تو کشمیری کہاں جائیں گے؟ راولپنڈی روڑپر فوج ہے، شمال مغرب میں لداخ ، اور جنوبی راستہ تو جموں کی طرف جاتا ہے۔ستم یہ ہے کہ کشمیری ہجرت کے بھی اہل نہیں۔یہ واقعی ایک مہیب صورتحال ہے، اور ایسی صورتحال میں عاقبت اندیشی کے بغیر کوئی اور ہتھیار کام نہیں آتا۔کیا حزب المجاہدین، پاکستان یا حریت کانفرنس یا قوم کو مزاحمتی چورن کھلانے والی سوشل میڈیا آرمی آنے والے طوفان کی پیش بندی کے اہل ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کیا سبیل ہے جس پر قوم کو مجتمع کیا جائے؟
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پناہ گزین (UNHCR) کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق اپنے گھروں اور آبائی وطن سے جبری طور بے دخل کئے گئے لوگوں کی تعداد 6کروڑ 56لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔یہ تعداد برطانیہ کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔حد یہ ہے کہ مسلمانوں کی برما میں جبری بے دخلی ، سومالیہ اور سوڈان میں تشدد اور شام میں بحران کی وجہ سے صرف گزشتہ ایک برس کے دوران اس تعداد میں دس لاکھ پناہ گزینوں کا اضافہ ہوا ہے۔ اکثر پناہ گزینوں کا تعلق عراق، افغانستان، شام، سوڈان، سومالیہ، میانمار وغیرہ سے ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق جنگ عظیم دوم کے بعد فی الوقت پناہ گزینوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اور اس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔کمیشن کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران دنیا میں فی منٹ 20افراد کو اپنا گھر اور آبائی وطن چھوڑنا پڑا ہے، یا یوں کہیے کہ ہر تین سیکنڈ میں ایک شخص جبری بے دخلی کا شکار ہوتا ہے۔ دو سری جنگ عظیم کے بعد1950 میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں یو این سی ایچ آر قائم کیا گیا تھا۔ کمیشن کے مطابق فی الوقت پوری دنیاکولوگوں کی جبری بے دخلی کی بدترین صورتحال کا سامنا ہے۔
کمیشن نے اس سلسلے میں Global Trends Studyعنوان سے جو تحقیق شایع کی ہے، اس کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ساڑھے چھہ کروڑ سے زیادہ رفیوجیوں میں سے 84فی صد ایسے ہیں جن کا تعلق ترقی پذیر یا غریب ممالک کے ساتھ ہے، اور ہر تین میں سے ایک یعنی 50لاکھ افراد نے بنگلہ، دیش، پاکستان، ہندوستان یا دوسرے کم ترقی یافتہ ممالک میں پناہ لے رکھی ہے۔ فی الوقت ایک کروڑ لوگ ، جن میں بیشتر مسلمان ہیں، ایسے ہیں جن کا کوئی وطن نہیں اور ان میں سے 32لاکھ stateless لوگ ہیں جو 75ممالک میں دھکے کھا رہے ہیں۔
دلچسپ اور حیران کن امر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ان اعدادو شمار میں نہ کشمیری پنڈت ہی پناہ گزینوںکی حیثیت سے درج ہیں، نہ کشمیری قوم کو At the verge of statelessness یعنی بے وطنی کی دہلیز پر دکھایا گیا ہے۔کشمیر کا تنازفی الوقت گونا گوں پیچیدگیوں کا شکار ہے۔ ایک طرف پاکستان پراکسی وار کے متبادل کی تلاش میں خاصا کنفیوز ہے، دوسری طرف ہندوستان میں زعفرانی انقلاب اپنے جوبن پر ہے۔برما میں روہنگیا مسلمانوںکی جو حالت ہے ، یا مشرق وسطیٰ یا افریقہ کے مسلمانوں کو جو مصائب درپیش ہیں، وہ راتوں رات الل ٹپ پیدا نہیں ہوئے۔ع
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
برما کی ’راخی نے‘ یا ’روہانگ‘ ریاست میں 25اگست کو روہنگیا عسکریت پسندوں نے ایک حملے میں 12فوجیوں کو ہلاک کردیا۔ اس کے جواب میں فوج نے جو آپریشن شروع کیا اس کا نام Clearanceرکھا گیا ہے۔ یعنی فوج اپنے زعم کے مطابق برما کو روہنگیا مسلمانوں سے پاک کررہی ہے۔ اس ’’تطہیری‘‘ آپریشن کے لئے قیام امن کی کوششوں کے لئے نوبل انعام یافتہ سربراہ مملکت آنگ سانگ سوچی نے طویل خاموشی اختیار کرلی۔ظاہر ہے امریکہ نے برما پر لگی اقتصادی پابندیاں ختم کردی ہیں، اور بھارت بھی سُوچی کے ساتھ سفارتی سانٹھ گانٹھ کررہا ہے جبکہ روس اور چین خاموش تماشائی ہیں۔ سعودی عرب نے ہمدردی کے دو بول بولنا تک گنوارا نہیں کیا۔ قطر، اردن، عمان، یمن ، ملیشیا وغیرہ اپنے اپنے مسائل یا ترقیاتی منصوبوں میں غرق ہیں۔ لے دے کے ترکی ، بنگلہ دیش ، ایران اور پاکستان نے پناہ گزینوں کے لئے اپنے دروازے کھول دئے اور عالمی سطح پر مسلمانوں کی نسل کشی پر واویلا کیا۔ ایسے میں کون مائی کا لال روہنگیا مسلمانوں کے مٹھی بھر عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی فہمائش کرے۔ وائس آف امریکہ کے مطابق برما میں عسکریت پسندوں کی تعداد بہت کم ہے اور فوج پر حملوں کی صلاحیت بھی برائے نام ہے ، لیکن برمی افواج ملی ٹینسی کے نام پر خفیہ نسلی صفائی کررہی ہیں۔
برما میں مسلم کش لہر ایسے وقت چلی ہے جب یہاں اکثر حلقوں کو خدشہ ہے کہ کشمیری بھی روہنگیا بننے جارہے ہیں۔ کیونکہ جب بھارتی آئین کی دفعہ 35-Aکا قلع قمع کیا جائے گا، تو جو کروڑوں لوگ یہاں آباد ہوجائیں گے، ان کا براہ راست ٹکراؤ یہاں کی مسلمان آبادی کے ساتھ ہوگا۔ پھر کچھ مزاحمت ہوگی، کچھ شور شرابہ ہوگا، اور اس مزاحمت کو دبانے کے لئے یہاں بھی ایک ’’تطہیری ‘‘ آپریشن شروع ہوجائے گا۔ تاریخ کا پہیہ ہمیشہ آگے ہی نہیں چلتا، ایسے بھی ادوار ہوتے ہیں جب تاریخ کے سفر کی سمت پیچھے کی طرف یا دائیں بائیں ہوتی ہے۔ایسی صورتحال میں اگربرما میں ہوئے حملے کی طرح یہاں بھی بھارتی فورسز کے درجنوں جوان ایک ایکشن میں مارے جاتے ہیں، تو اس سے کچھ اور ہو نہ ہو، لیکن اس کا جواب تطہیری آپریشن کی صورت میں مل سکتا ہے۔
عجیب اتفاق ہے کہ وادی میں انسدادِ عسکریت کے آپریشن کا نام بھی ’’آل آؤٹ‘‘ رکھا گیا ہے۔ انگریزی زبان میںAll Out کی اصطلاح 1905ء میں مستعمل ہوئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب کئی شکستوں کے بعد برطانیہ افغانستان پر قابض ہونے کے لئے تمام تر وسائل اور قوت جھونکنے پر آمادہ ہوگیا تھا، لیکن جنگ عظیم اول کی وجہ سے منصوبہ روبہ تکمیل نہ ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا کی عظیم نیوکلیائی قوت ، جو امریکہ، جرمنی، جاپان جیسی بڑی قوتوں کی حلیف ہے، نے اپنے سارے وسائل اور ساری قوت کوتقریباً200 نیم تربیت یافتہ کشمیری عسکریت پسندوں کے خلاف بروئے کار لایا ہے۔یہ بھی اہم بات ہے کہ جان کے لالے پڑے تو کشمیری کہاں جائیں گے؟ راولپنڈی روڑپر فوج ہے، شمال مغرب میں لداخ ، اور جنوبی راستہ تو جموں کی طرف جاتا ہے۔ستم یہ ہے کہ کشمیری ہجرت کے بھی اہل نہیں۔یہ واقعی ایک مہیب صورت حال ہے، اور ایسی صورت حال میں عاقبت اندیشی کے بغیر کوئی اور ہتھیار کام نہیں آتا۔کیا حزب المجاہدین، پاکستان یا حریت کانفرنس یا قوم کو مزاحمتی چورن کھلانے والی سوشل میڈیا آرمی آنے والے طوفان کی پیش بندی کے اہل ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کیا سبیل ہے جس پر قوم کو مجتمع کیا جائے؟
) بشکریہ ہفت روزہ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر(