سنہ 1947ء میں جب پاکستان بحیثیت ایک آزاد ملک کے نیا نیا ہی وجود میں آیا تھا، تو ابتدا ء میں ملک کے سیاسی ،سماجی اور معاشی حالات ظاہر طور پر اچھے نہیں تھے ۔اُدھر سے ہندوؔ اور سکھؔ ہندوستان کی طرف بھاگ رہے تھے اور ہندوستان سے مسلمان پاکستان کی طرف ہجرت کررہے تھے ۔ایک افراتفری کاعالم تھا ۔۔۔۔۔ٹرینوں میں لاتعداد لوگ سوار ہوتے تھے بلکہ ٹرین کی بوگیوں کی چھتیں بھی لوگوں کی کثرت سے بھرجاتی تھیں ۔صرف متحرک زندہ انسان ہی انسان نظر آتے تھے، ٹرینیں دکھائی نہیں پڑتیں ۔مہاجر وں کی ان ٹرینوں پر مختلف مقامات پر ہر دو جانب سے حملے ہوتے تھے اور جب بے حال ہوکر ٹرین مطلوبہ سٹیشن پر آکر اپنی لمبی لمبی سانسیں چھوڑتی تو پلیٹ فارم لاشوں سے بھر جاتے تھے ۔انسان اپنے جامے سے نکل کر درندہ بن چکا تھا ۔یہ الگ بات ہے کہ اس مہاجرت کی آوا جاہی میں مسلمانوں کا حد سے زیادہ نقصان ہوا۔خالی جموں میں جہاں سے لوگ اپنے طور سے پیدل چل کر سیالکوٹ ،مظفر آباد اور میر پور کی جانب چل دئے، ایک تو وہ اور بیشتر کو سرحد پار کرانے کا جھانسہ دے کر نوشہرہ اور دومانہ وغیرہ کئی جگہوں پر بحالت مسافرت شہید کر ڈالا گیا اور لڑکیوں کا اغواء کیا گیا ۔اس کانڈ میں لگ بھگ پانچ لاکھ مسلمان شہید کردیئے گئے ،جن میںدو لاکھ کے بارے میں یہ بھی پتہ نہ چلا کہ وہ کن بے نام و نشان قبرستانوں میں آسودہ ہوگئے۔
سنہ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی میں انگریزوں نے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام کرکے جو کسر باقی چھوڑی تھی وہ غیر مسلموں نے 1947ء پوری کردی۔یہاں مسلمان خاص طور پر کافی عرصہ سے رنجیدہ ہے جس کی برملا وجوہات دیکھنے کومل رہی ہیں۔بہرحال میں عرض کررہا تھا کہ پاکستان ابتدائی دور میں بہت مشکلات سے دوچار تھا بلکہ ہر سُو پریشانی ہی پریشانی تھی۔مہاجر تو مہاجر ،مقیم بھی حد سے زیادہ بے حال تھے ۔مہاجر ین کے لئے نہ رہنے کا ٹھکانہ تھا اور نہ کھانے کو دانہ۔سرکار خود پریشان ،ہندوستان کی طرف سے خزانے کا مشخص حصہ ابھی آنا باقی تھا ۔ہر طرف افراتفری کا عالم تھا ۔اُس حالت کو مزاحیہ شاعر مجیدؔ لاہوری نے ان الفاظ میں قلم بند کیاتھا ؎
ہمارے حال پرسرکار کی بڑی مہربانی ہے
نہ آٹا ہے نہ چینی ہے نہ بجلی ہے نہ پانی ہے
اگرچہ یہ چوٹ اس وقت کے پاکستان کے سماجی معاشی حالات پرتھی مگر اپنے یہاں آج ستھر سال بیت جانے کے بعدبھی اُس سے کئی گنا زیادہ ابتر حالات ہیں۔ایک بہت بڑے مثالی ملک میں جہاں بیس کروڑ مسلمان اور ان سے دوگنے ہریجن بے چین وبے قرار ،خوف زدہ و پریشان ہوں ،اُس ملک کی داخلی ،سیاسی اورسماجی حالت کیا ہوگی وہ سمجھ سے تعلق رکھتی ہے ۔حال ہی میں یہاں مذکوردونوں طبقوں کے ایک کاروبار پر دعویٰ بولا گیا جس سے میٹ اور چمڑا انڈسٹری کے طفیل بوٹ ،چپل ،بیلٹ ،بیگ ،جاکیٹ اور چرمی کوٹ سازی کے کاروبار پرتالا لگ کر اُن اشیاء سے وابستہ لاکھوں کاریگر بے کار ہوئے اور دانے دانے کے محتاج ہوگئے ۔اسی پر بس نہ ہوا بلکہ اگر کوئی دودھ کے کاروبار کے لئے جانور خریدے تو اُسے راستے میں ہی پکڑ کر پیٹ پیٹ کر قتل کردیا جاتا ہے ۔اس وحشیانہ پن میں مقتول کو حتمی طور پر قصاب ہی مانا جاتا ہے گوالا نہیں۔
اپنی ذاتی تجوریاں بھرنے کے لئے گرچہ اس وقت بھی ہندو مالکان کے اسلامی نام کے ساتھ کئی ایسے ذبح خانے موجود ہیں جہاں سے بیف یعنی گائے کا گوشت عرب دیشوں میں سپلائی کیا جاتا ہے مگر مسلمان کے لئے ایسا کرنے پر قدغن لگی ہوئی ہے ۔اس روک تھام سے ایک دوسرا مسئلہ کھڑا ہونے والا ہے ۔شوگر مل والے چینی کو سفید رنگ کا بنانے کے لئے اُس کو جانوروں کی ہڈیوں کی تھیراپی دیتے ہیں۔اُن کے پاس حلال جانور کی ہڈیاں نہ ہوئیں تو انہیں دوسری ہڈیوں کی طرف رجوع کرنے کی مجبوری ہے ۔اس طرح سے حرام خور جانوروں کی ہڈیوں پر سے تیار ہونے والی چینی ہر خاص و عام کی غذائی ضرورت پوری کرنے کے لئے مارکیٹ میں دستیاب ہوگی۔اچھا ہے ہندو راشٹر بنانے کے لئے اور بھی نہ جانے کیاکیا کچھ سہنا پڑے گا ۔زاہدوں کی عبادتیں ،عابدوں کے خشوع و خضوع،سنیاسیوں کے دھیان ،سادھوئوں کی دُھونی اور جوگیوں کی سادھنا جب بھنگ ہوجائے گی توکیا رومانی اور روحانی ماحول ملک میں پیدا ہوگا ؟سوچنے والی بات ہے!
ابھی چند رزقبل ہی حکومت وقت کے ایک ’’امیرالبحر ‘‘نے یہ گوشٹی کی ہے کہ تواریخ کی کتابوں سے مغل بادشاہوں کی تعریف و توصیف کو حذف کرنا اور عربی ،فارسی و اُردو شعراء کے کلام کوبھی درسی کتابوں سے فوراًنکال دینا چاہئے ۔گویا مسلمان کا ذکر یا نام کتابوں میں بھی نہیں ہونا چاہئے ،البتہ یہ بات ذرا سوچنے کی ہے کہ ہندوستان کے ستھر کروڑ لوگ جو اُردو کے نغموں ،گیتوں اور غزلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔اُن کوفلم سنگیت،غزل گائیکی وغیرہ سننے کونہیں ملے گی کیونکہ اس سارے سنگیت کی بنیاد اُردو کی دل لبھانے والی پیاری شاعری کے ساتھ ہے ۔صورت حال یہ ہے کہ اُن حالات میںہندوستان کا ایک عام ناگرک اردو کے میٹھے میٹھے اشعار جیسے ؎
میرے زخم تمنا نے لہو دینے کی ٹھانی ہے
رچانے اپنے ہاتھوں میں حنا کیا تم نہ آئو گے
سے محظوظ نہیں ہوگا بلکہ اُس کوسنسکرت اور ہندی زبان کے وِدھوانوں ،دانشوروں اور کویوں کے چھند ،وینگ ،کویتااور سنسکرت کے شلوک اور دوہے سننے پڑیں گے اور فلمی گیتوں سے اُس کی اُمنگ پر آنے والی طبیعت میں جوش و خروش اور جولانی کے بجائے مایوسی اور قنوطیت کی دبیز تہیں چھائی رہیں گی۔صبح صبح منہ اندھیرے میںجب وہ آرتی بھجن کے سادہ سرل الفاظ والے گیت نہیں سنے گا ۔ جب وہ ؎
تیرا من درپن کہلائے
بھلے برے کرموں کودیکھے اور دکھائے
کے بجائے بھاری آواز میں بھاری بھاری ثقل سنسکرت کے شلوک سنے گا تو وہ خود ہی سڑکوں پر آکر اذان کے لئے نہیں بلکہ مندروں کے لاوڈ سپیکروں پر قدغن لگانے کے لئے احتجاج کرے گا ۔وہ واقعی ایک ا چھا نظارہ ہوگا اور ہمیں وہ خوبصورت منظر دیکھنے کاانتظار کرنا چاہیے۔بھاجپا کے ’’امیر البحر‘‘اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی شعری حصہ کو بھی درسی کتابوں سے حذف کرنے کے درپے ہے۔جس کا یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ اب ہندوستان میں ان زبانوں کو نہ کوئی پڑھ سکتا ہے اور نہ ہی ان کی کلاسز تعلیمی اداروں میں موجود ہوں گی اور نہ ان زبانوں پر مشتمل کتابیں ہی بازار میں دستیاب ہوں گی۔حیرانگی ہوتی ہے کہ ایک انسان تعصب میں کس حد تک گر جاتا ہے !!!یہ لوگ اس ملک کو کہاں لے جارہے ہیں ،ایسا سمجھ سے باہر ہے ۔خیر صاحب! ہمیں کیا،مرضی اُن کی ۔واقف ؔرائے بریلوی کے الفاظ میں ؎
بہار لو ٹ لیں کہ پھولوں کا قتل عام کریں
وہ جیسے چاہیں گلستان کا انتظام کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995
�����