مرکزی وزیر جتیندر سنگھ کا یہ دعویٰ کہ کشمیرکے حوالے سے مباحثہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بقول انکے ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کی کو حقیقت نہیں ہے ،سوائے اسکے کہ ریاست کے اُس حصے کو واپس حاصل کیا جائے جو پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ وزیر موصوف کا یہ بیان ایک ایسے منظر نامے میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں مرکزی حکمرانوں کی جانب سے کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کےلئے تمام متعلقین اور فریقین کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ دیا گیا ہے حتاکہ چند روزقبل ہی پارٹی جنرل سکریٹری رام مادھو نے اسی عنوان سے بیان دیا، جس کا مختلف سیاسی حلقوں کی جانب سے خوب خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ وزیر موصوف نے یہ بیان دیتے ہوئے اُن حقائق کوکلیتاً نظر انداز کر دیا ہے، جو گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیر اور کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے زیر بحث رہے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو بھی فراموش کر رہے ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے دہلی اور اسلام آباد سے لیکر اقوام متحدہ تک جو سرگرمیاں ہوتی رہی ہیں وہ برصغیر کی سیاسی تاریخ کا ایک حصہ ہے ، جو محض ایک بیان یا کسی کی نجی رائے سے حزف نہیں ہوسکتا۔ اس حقیقت سے انکا رنہیں کیا جاسکتا کہ سابق این ڈے اے سرکار کے دوران اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کے ساتھ حالات کار بہتر بنانے کےلئے لاہور کا دورہ بھی کیاتھا ارو یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اختلافات کی بنیاد وجہ کشمیر ہی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ہوئی تین جنگوں میں دو کا براہ راست تعلق کشمیر سے ہی رہاہے۔ وزیر موصوف نے یہ رائے ظاہر کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے انسانی پہلو کو مکمل نظر انداز کر دیا ہے، جو اب تک زائید ایک لاکھ جانوں کے زیاں اور لاکھوں لوگوں کے لئے مصائب اور مشکلات کی سبب رہا ہے۔ گزشتہ پون صدی کے دوران اربو ں روپے مالیت کے اقتصادی نقصانات اس سے علاوہ ہیں جو ریاست کو جھیلنا پڑے ہیں۔ دونوں ممالک کی جانب سے حفاظتی امور پر جو اخراجات ہوئے ہیں اور جنکی وجہ سے برصغیر کے کروڑوں عوام کو مشکلات کا سامنا رہا ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ وزیر موصوف کی نظروں میں ہیں ہی نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کشمیر کے حوالے سے مباحثے کو تبدیلے کرنے کی کوشش کا عندیہ دینا ایک مرکزی وزیر کی جانب سےپہلی بارکھل کر سامنے آیا ہے اور یہ کہ حالیہ مہینوں میں مختلف ٹیلی ویژن نیوز چینلوں پر کشمیر اور کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے چھیڑی گئی منفی مہم کے اصل مقاصد کو سمجھنے میں ممدو معاون ثابت ہوسکتا ہے ۔ یہ مہم فی الوقت سارے ملک میں کشمیر اور کشمیری عوام کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ایک ایسی صورتحال کو پروان چڑھا رہا ہے، جسکے منفی نتائج تیزی کے ساتھ سامنے آرہے ہیں اور آئے روز ملک کے مختلف حصوں میں کشمیریوں پر زیادتیوں کے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ جموںوکشمیر کے تاریخی حقائق سے اس طرح انکار کرنا ملکی رائے عامہ کو زمینی صورتحال کے متعلق گمراہ کرنے سے کچھ کم نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کسی بھی مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لے رائے عوامہ کے مثبت ردعمل کا اہتمام بنیادی اہمیت رکھتا ہے ، اور اس طرح کے بیانات اسکی مخالف سمت میں چلنے کی دانستہ کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ حقائق کے تئیں آنکھیں موند لینے سے حقائق نہیں بدل سکتے ، یہ ایک آفاقی حقیقت ہے۔زیر بحث بیان ریاست کے اندرمخلوط سرکار کے فکری اتحاد کی حقیقت کو بھی عیاں کر رہا ہے، جبکہ بی جے پی اور پی ڈی پی کے درمیان طے پائے ایجنڈا آف الائنس میں مسئلے کشمیر کو حل کرنے کی خاطر اسکے سبھی فریقین اور متعلقین کے ساتھ مذاکرات کرنا ایک اہم نکتہ رہا ہے ۔اور جسکا ذکر پی ڈی پی کی جانب سے فخریہ انداز میں وقتاً فوقتاً کیا جار رہا ہے۔