ماہ محرم وہ مہینہ اور سانحہ کربلا وہ واقعہ ہے جو صدیوں سے ظلم ، بربریت ، سامراجیت ، صیہونیت اور شیطانی قوتوں کا پیچھا کرتا آیا ہے اور انشاء اﷲ ظہورِ امام مہدی عجل اﷲ تعالیٰ تک ان کا یہ عمل جاری رہے گا ۔ سانحہ کربلا مظلومین و مستعضفین اور حق و صداقت کا سہارا بن گیا۔سانحہ کربلا سے پہلے بے شمار واقعات دنیا میں رونما ہوئے اور آج بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن واقعہ کربلا نے وقت کے تیز بہائو کا رُخ ہی موڑ دیا اور وقت کے تیز بہائو میں اپنی شناخت قائم کی۔ یہ وہ واقعہ ہے جس کی یاد تا قیامت منائی جائے گی ۔ ماہ محرم میں جو عزاداری کے جلوس نکالے جاتے ہیں یہ حُسینی ؑ پیغامِ مزاحمت کو دنیا کے کونے کونے تک پھیلانے کا ایک ذریعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سانحہ نے انسان کو ایک آفاقی پیغام دیا ہے جس کے سہارے یہ واقعہ دن بدن روشن سے روشن تر ہوتا جاتا ہے ۔ سانحہ کربلا وہ آفتاب ہے جو انسان کے ضمیر کو جھجوڑ کر اس میں حق و صداقت کے تیئں نہ تھمنے والا جوش اور جذبہ پیدا کرتاہے ۔ سانحہ کربلا حق و باطل کے درمیان ایک ایسا پیمانہ ہے جس سے ہر قوم و ملت اپنا کر ا س سے استفادہ کرسکتے ہیں کیو نکہ یہ ایک ایسا بے عیب اور منصفانہ پیمانہ ہے جو ذات پات ، رنگ و نسل ، مذہب و ملت کے امتیاز سے بالاتر ہوکر انسانیت کی رہنمائی کر سکتا ہے اور یہ پیمانہ تمام کثافتوں سے پاک و منزہ ہے۔
دنیا میں حضرت آدم کے وقت سے ہی حق و باطل کا معرکہ شروع ہوالیکن اﷲ تعالیٰ نے ہر زمانے میں باطل کی شکست وریخت کیلئے اپنے ہادی ، رسول اور پیغمبر بھیجے جو انسان کو ہمیشہ حق و صداقت کا پیغام دیتے رہے۔ بنی نوع انسان کی ہدایت کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں تشریف آور ہوئے۔ ہر نبی اور رسول نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے فرائض منصبی بہ حسن و خوبی سرانجام دئے۔ پیغمبروں کے اس طویل سلسلے کے دوران بھی کئی متاثر کن اور حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے ۔ان میں حضرت یحییٰ ؑکا واقعہ، حضرت یعقوب ؑ کا واقعہ ، حضرت یونس ؑ کا واقعہ ، حضرت یوسف ؑکا واقعہ ، حضرت نوح ؑکا واقعہ ، حضرت ابراہیم ؑ کا واقعہ، حضرت موسیٰ ؑ اورحضرت عیسیٰ ؑ کا واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان ایمان افروز واقعات کے بعد آخری پیغمبر حضرت محمد عربی ؐ تشریف آور ہوئے جن کے بعد سلسلہ نبوت اختتام پزیر ہوا لیکن جہاں تک احادیث اور قرآنی آیات کا تعلق ہے یہ وہ ذاتِ پاک ہے جس کا وجود حضرت آدم ؑ سے پہلے بھی تھا ۔ جیسا کہ ارشاد ہے: میں اس دنیا کو تخلیق ہی نہیں کرتا اگردنیا میں آپؐ کا وجود مقصود نہ ہوتا ـ۔ قرآن میں ایک جگہ ارشاد رب العزت ہے:ــ’’میں نے آپ ؐ کوشاہد یعنی گواہی دینے والا ، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ( احزاب ۴۵)۔ ــ گواہی وہی دے گا
جو خود صدورواقعات کے وقت موجود ہو اور بنفس ِنفیس اپنے آنکھوں سے ان کو بہ ہوش وگوش دیکھ چکا ہو ۔ واضح ہوا کہ محمد عربی صلی ا للہ علیہ وسلم شاہد علی الحق ہیں ۔ﷲ کے سارے ہادی اور رہبر حق کا تبلیغ کرتے رہے لیکن وہ باطل قوتوں کو یکسر نیست و نابود نہ کر سکے اور ان کے ادوار میں جہاں حق اور صداقت نے اپنا سفر جاری رکھا ،وہاں باطل بھی فسق وفجور، کفروفتن،حق تلفی وناانصافی کی شکل میں دبے پائو ں پہنچتا رہا اور عوام کو اپنے کذب وافتراء اور ظلم و جبر سے دبایا ۔ پیغمبر خداؐ نے عرب کو جہالت و گمرہی کے اندھیرے سے نکال باہر کیا لیکن آپ ؐ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد باطل کے بطن میں دبی جہالت ، مکروفریب ، حسد اور تعصب کی قوتوں نے سر اُبھارا ، یہ پھلنے پھولنے لگیںیہاں تک کہ انہوں نے تنا و درخت کا روپ اختیار کیا۔ امام حسین ؑ چونکہ پیغمبر خدا ؐ کی آغوش ِ محبت کے تربیت یافتہ تھے ، لہٰذا جب اُنہوںنے اسلام کو لاحق ان ناگفتہ بہ حالات کا بغور تجزیہ و مشاہدہ کیا اور وہ دین مبین خطرے میں نظر آیا جس کی حفاظت اور تبلیغ کا کام ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے انجام دیا تھا اور وہ محنت ضائع ہوتی ہوئی نظرآئی جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خون جگر پلایا تھا تو آپ ؑ نے مصمم ارادہ کر لیا کہ ان باطل قوتوں کے خلاف قیام کرنا ہے ۔ اگرچہ اُن کے پاس نہ حکومت تھی ، نہ فوجی طاقت تھا ، نہ ہی کسی قسم کا سرمایہ و مال و زر یا ماسوا اللہ کا ظاہری سہارا تھالیکن امام عالی مقامؑ کے پاس ان سب چیزوں سے فائق تر لافانی اثاثہ ایمان کی بے پناہ دولت اور اپنی اور اپنے پیاروں چہیتوں کی ذات مقدس تھی ۔اسی انمول اثاثے اور کامل ایمان کے بل پر اُنہوں نے اُس باطل قوت کے خلاف ٹکر لی جو دین مصطفیٰؐ کو اپنے نفس پرست من کے مطابق ذاتی اغراض کے قالب میں ڈھالنا چاہتے تھے ۔ امام عالی مقام ؑسے دین کی یہ بے حرمتی یہ کیسے برداشت ہوتی کہ وقت کا یزیدی اقتدارآپ ؑ کے محترم ومکرم نانا ؐ کے دین میں کسی قسم کی تحریف وتغیر کریں۔ لہٰذا امام عالی مقامؑ نے صرف اپنے نہتے ۷۲؍ نفوس قدسیہ کو میدان کارزار میں اُتارکرر دین اسلام کو اپنے پاک ومطہرخون سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سینچا اور اسے زندہ و جاویدکرد کھا یا۔ آپ ؑ نے دین مصطفیٰ ؐ کو اپنے پاک لہو اور اپنے عزیزوں کی شہادتوں سے ایسی شادابی عطا کی کہ اب یہ دین کبھی بھی نہ مر جھا نہ جائے گا اور نہ ہی اب کسی باطل پرست حکمران کو یہ جرا ٔت ہوگی کہ وہ اس دین مبین میں کسی قسم کی تحریف یا ترمیم کر ے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام باطل ماہِ محرم کی گونج سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔ ماہ محرم اور یوم عاشورہ صرف حق پرست لوگوں کا عظیم سرمایہ ٔ حیات ہے ۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس کے سامنے مال و دولت ، جاہ وحشمت ، اولاد اور حکمرانی ہیچ ہے ۔ امام حسینؑ نے دنیا کو انسانیت کے تمام مثبت وفضیلت مآب اقدار کے ضوفشا نی کو جلا بخشنے کو قرینہ سکھایا اور مظلوم و محکوم فرد اور اجتماع کو حق وصداقت کے زیر سایہ سر اٹھاکرزندہ رہنے کا ہنر دیا، خوف ودہشت کے طوفان میں سچائی اور صداقت کی شمع جلائے رکھنے کا لافانی اصول سکھایا۔ اس لئے آج کی بحران زدہ دنیا کی اولیں ضرورت حضرت حسین ؑ ہیں ۔