ناگپور //آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو بھارت کیساتھ مکمل طور پر رچ بس جانے کیلئے ریاست کے آئین میں مطلوبہ ترامیم کرانے کی ضرورت ہے نیز1990میں بے گھر ہوئے کشمیری پنڈتوں کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ایک گھنٹے سے بھی زیادہ اپنی سالانہ تقریر میں موہن بھاگوت نے یہ بھی کہا کہ گائو رکھشکوں کو حکومتی یا عدالتی احکامات کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔آر ایس ایس ہیڈکوارٹر ناگپور میں خطاب کرتے ہوئے انکا کہنا تھا’’ آئین میں ضروری ترامیم کر کے پرانی شقوں کو بدلنے کی ضرورت ہے، جب آئینی ترامیم کی جائیں گی تب جموں و کشمیر کے باشندے بھارت کیساتھ مکمل طور پر رچ بس جائیں گے ‘‘۔بھاگوت آئین کے دفعہ 370کے بارے میں اشارہ کررہے تھے جس میں ریاست کو خصوصی درجہ حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی امتیازی سلوک کے بغیر جوابدہ اور صاف ستھری حکومت کے ذریعے ترقی کے ثمرات کو جموں اور لداخ سمیت پوری ریاست کے لوگوں تک پہنچایا جائے،جموں و کشمیر میں رفیوجیوں کے مسئلے کو دہائیوں سے حل نہیں کیا گیا ہے،وہ کسمپرسی کی حالت میں ہیں کیونکہ انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ بھارت کیساتھ رہنا چاہتے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا’’ بھارت کے شہری ہونے کے باوجود بھی انہوں بنیادی ضروریات میسر نہیں، تعلیم، روزگار اور جمہوری حقوق نہیں۔موہن بھاگوت نے کہا’’ ریاست کے مستقل باشندے پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے 1947میں جو ہجرت کرکے یہاں آئے اور 1990میں جو ریاست سے باہر چلے گئے، انکے مسائل جوں کے توں ہیں‘‘۔انکا کہنا تھا کہ انکے لئے ایسے حالات پیدا کئے جائیں تاکہ وہ بھارت کے دیگر شہریوں کی طرح خوشحال ، آبرو مند اورمحفوظ زندگی بسر کر سکیں، یہی نہیں بلکہ انہیں اپنے مذہب اور قومی شناخت قائم رکھنے کیلئے مساوی جمہوری حقوق دیئے جائیں۔آر ایس ایس سربراہ نے کہا’’ اور بس اس کام کیلئے، آئین میںمطلوبہ ترامیم کرنے کی ضرورت ہے،تب بس تب، ریاست کے لوگ بھارت کیساتھ رچ بس جائیں گے،اور انکے حصے کی مساوی مدد قومی ترقی کیلئے ممکن بن سکتی ہے‘‘۔بھاگوت نے کہا ’’حکومت کی کوششوں سے کشمیر میں ملک مخالف قوتوں کی اقتصادی کمر ٹوٹ گئی ہے، حکومت نے پولیس اور فوج کو پوری چھوٹ دی ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ پہلے کی حکومتوں نے جموں اور لداخ کے ساتھ سوتیلا رویہ اپنایا۔انہوں نے کہا کہ علیحدگی پسندوں کو ہونے والی فنڈنگ کو ختم کردیا گیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات سامنے آ چکے ہیں۔ اس سے ہی مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
گائو رکھشک کا معاملہ
بھاگوت نے کہا’’ہمارے ملک میں گائے کے دودھ سے زیادہ اس کے پیشاب اور گوبر کا استعمال ہوتا ہے، چھوٹے کسانوں کے لئے گائے انتہائی ضروری ہے، گائے اور گائے سے منسلک زراعت کی حفاظت کے لئے آئین نے ہدایت دی ہے،گائے کی حفاظت مذہبی معاملہ نہیں ہے، میں بہت سے ایسے مسلمانوں کو جانتا ہوں جو گئو رکشا کے کام میں مصروف ہیں، بہت سے مسلمانوں نے بھی گائے کی حفاظت کرتے وقت اپنی جانیں گنوائی ہیں‘‘۔انہوں نے کہا’’یہ افسوسناک ہے کہ گئورکشا کے نام پر لوگوں کا قتل کیا گیا۔ کسی بھی شکل میں تشدد قابل مذمت ہے۔ وہیں کئی گائے اسمگلروں نے بھی بہت سے لوگوں کو قتل کر دیا۔ ہمیں گئورکشا کے مسئلے کو مذہب سے اوپر اٹھ کر دیکھنا چاہئے۔بھاگوت نے مرکزی سرکار سے کہا ہے کہ وہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کرے، بلکہ اس مناسبت سے صرف جرائم پیشہ افراد کو سزا دی جائے نہ کہ دائو رکشا کرنے والوں کو، کیونکہ گائو رکشا کے واقعات میں مزید اضافہ ہوگا۔وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ گائو رکشا کے نام پر تشدد کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائیگی، بھاگوت نے آر ایس ایس رضاکاروں کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا’’ آپ حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائض افراد کے بیانات اور سپریم کورٹ کے ریمارکس سے بد دل نہ ہوں،جس میں ریاستی سرکاروں سے کہا گیا ہے کہ زیر چوب ہلاکتوں میں ملوثین کے خلاف کارروائی کرے‘‘۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ جرائم پیشہ ہیں اور تشدد کرتے ہیں انہیں فکر کرنے کی ضرورت ہے۔بھاگوت نے مرکزی سرکار سے کہا’’ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے دور رہے،بلکہ جرم کرنے والوں کو سزا دی جائے اور بے گناہوں کو نہ چھیڑا جائے‘‘۔