سید محمد شبیب ؔ رضوی ۲۵ جون ۱۹۳۵ء کو اتر پردیس میں پیدا ہوئے ہیں۔فارسی ‘عربی‘دینی اور طبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۶۳ ء میں انہوں نے اپنے آبائی وطن لکھنو اتر پردیس سے وادی کا رخ کیا اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔۱۹۶۳ ء میں ہی گورنمنٹ طبیہ کالج سری نگر میں استاد کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوگیا اور ۱۹۹۳ ء میں میڈیکل آفیسر کے منصب سے‘ سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوگئے اور ایک مقامی طبی کالج میں پروفیسر اور صدر شعبہ کی حیثیت سے کئی سال تک کام کرتے رہے اور تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔
ڈاکڑ شبیبؔ رضوی نے اپنے آبائی گھر میں موجود بھر پور علمی اور ادبی ماحول میں ‘کم عمری ‘لگ بھگ گیارہ سال کی عمر میں ہی‘ شعر کہنا شروع کردیا۔ابتدائی کلام پر اپنے برادر اکبر سے اصلاحِ سخن لیتے رہے۔مختلف اصناف سخن ‘ حمد و نعت‘ منقبت وسلام ‘مرثیہ و غزل‘نظم وقصیدہ‘ قطعہ ورباعی اور مثنوی وغیرہ میں طبع آزمائی کرتے رہے اور آج تک لگ بھگ پنتالیس ہزار سے بھی زیادہ اشعار کہہ چکے ہیں ۔ جن میں فارسی اور عربی زبان میں کہے گئے اشعار بھی شامل ہیں اور شعر گوئی کا سلسلہ ابھی تک شد ومد سے جاری ہے۔
ڈاکٹر شبیب ؔرضوی نے کشمیری زبان کے کئی سر برآوردہ شعراء کے کلام کا اردو ترجمہ بھی اپنے مخصوص بیان و اسلوب میں کیا ہے۔اپنے غیر مطبوعہ کلام کی اشاعت میں ان کی عدم دلچسپی کے باعث ان کا کافی کلام ابھی زیورِ طبع سے آراستہ ہونا باقی ہے پھر بھی چار شعری مجموعے‘ آتشِ چنار(شعری مجموعہ) حرفِ فروزاں(نعت و منقبت) بچوں کے مشاعرے(تمثیلی اور موضوعاتی شاعری) لہو لہو غزل(اب تک کا آخری شعری مجموعہ) چھپ چکے ہیں اور اسوقت بھی لگ بھگ چار پانچ مجموعے زیر طبع ہیں۔’’لہو لہو غزل‘‘ ۲۰۱۲ ء میں شائع ہوا ہے اور اس میں ۷۰ کے قریب غزلیں شامل ہیں۔
ڈاکٹر شبیب ؔرضوی اب ایک عرصہ سے کشمیر میں مستقل طور پر مقیم ہیں اور کشمیر کے ماحول و معاشرے کا ایک لاینفق حصہ بن چکے ہیں لگ بھگ گزشتہ نصف صدی سے ریاست جموں وکشمیر میں اردو زبان و ادب کے توسل سے ‘ ہونے والی ہر چھوٹی بڑی ادبی تقریب ‘ ڈاکٹر شبیب ؔرضوی کی شمولیت کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی ہے۔اور یہی حال ریڈیو ‘ دور درشن اور دیگر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے فروغ اردو کے ضمن میں ہونے والے اردو پروگراموں ‘مشاعروں اور مباحثوں وغیرہ کا ہے کہ شبیب ؔرضوی صاحب کی شرکت ضروری سمجھی جاتی ہے اور ہر منتظم انہیں اس لئے مدعو کرنے پر پیش پیش رہتا ہے کہ شبیبؔ صاحب طبیعتا بھی بہت نرم وملائم ا ور ملنسار و سادہ مزاج اور شریف النفس انسان ہیں۔
ڈاکٹر شبیب ؔرضوی کی شاعری پر مفصل بات کرنے کے لئے ایک کیا کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں اس مختصر سے تعارفی مضمون میں ان کی شاعری میں موجود چند نمایاں خصوصیات پر بات کرنا ہی ممکن ہے۔
ڈاکٹر شبیب ؔرضوی شعیہ مسلک کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔غالبا یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ اکثر اردو زبان کے قدیم وجدید شعراء کے کلام میں رثائی شاعری کے اشعار بھی کثرت سے ملتے ہیں ۔ان کی شاعری پر بھی وحید اختر‘افتخار عارف یا پھر دیگر شعراء کی طرح واقعہ کربلا کی چھاپ موجود ہے۔
میں اوپر عرض کرچکا ہوں کہ شبیب ؔرضوی کے رثائی ادب پر چار مختصر مجموعے چھپ چکے ہیں اور ابھی اس نوعیت کا کافی کلام زیورِ طبع سے آراستہ ہونا باقی ہے لیکن زیر نظر‘ بظاہر مجموعہ غرل’’لہو لہو غزل‘‘ میں بھی خاصی تعداد میں ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں واقعہ کربلاسے متعلق شمشیر‘نیزہ‘سر‘گردن‘علم‘تیروکمان‘محشر‘لہو وغیرہ جیسے لاتعدادالفاظ و استعارات استعمال ہوئے ہیں اور اسی مناسبت سے ہوئے ہیں کہ ان کو پڑھ کر ہی قاری اور سامع کا ذہن فورا سانحہ کربلا کی طرف خود بہ خود چلا جاتا ہے۔
واقعہ کربلا‘ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس نے پوری عالم انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔دنیا بھر کی ہر چھوٹی بڑی زبان کے ادب‘ خاص طور پر شاعری میں ‘اس واقعے کا تذکرہ مل ہی جاتا ہے اور مقامی یا علاقائی زبانوںکے علاووہ متمدن اور ترقی یافتہ بین الاقوامی زبانوں میں بھی بہترین رثائی شاعری موجود اور مقبولِ عام ہے اور ہر جگہ قد آور شاعر اس فن میں نام کما رہے ہیں اردو زبان کے توسل سے اس فن میں بڑے یکتائے روزگار شعراء جیسے مرزا دبیرؔاور میر انیسؔ کے علاوہ بھی لاتعداد شعراء اس فن میں اپنی خداداد صلاحیتوں سے نام کما چکے ہیں۔شعیہ مسلک کے اکثر شعراء کے کلام میں ‘ خواہ وہ غزل جیسی ’نیم وحشی‘ صنفِ سخن ہی کیوں نہ ہو‘واقعہ کربلا سے متعلق اشعار ملتے ہیں اور جا بجا ملتے ہیں۔دوسرے مسالک سے تعلق رکھنے والے شعراء بھی اس میں پیچھے نہیں ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ غیر مسلم رثائی شعراء کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے جنہوں نے رثائی اردو شاعری میں ‘ عمدہ مضامین باندھے ہیںاور رثائی شاعری میں قابلِ قدر اضافہ بھی کیا ہے۔
شبیبؔ رضوی کو بھی اس فن میں یدِطولی حا صل ہے رثائی شاعری نے افتخار عارفؔ اور اس قبیل کے دوسرے شعراء کی طرح ہی انہیں اس فن میں ہر دلعزیز اور معروف بنا دیا ہے اور انہیں مقبولیت و اعتباریت بخشی ہے۔ شبیبؔ رضوی کا اگر جملہ کلام دیکھا جائے تو اس میں رثائی اشعار جابجا اور کثرت سے ملتے ہیں خاص طور پر ان کے تازہ شعری مجموعہ ’’ لہو لہو غزل ‘‘ میں۔ اس میں بھی انہوں نے اپنی سابقہ روایت کو برقرار رکھا ہے بلکہ کہیں کہیں پر ‘اس پر غلبہ بھی حاصل کر لیا ہے ۔ مثلااس شعری مجموعہ میں صفحہ نمبر ۷۷پر پوری غزل کے اشعار کربلائی اشعار ہیں۔ ؎
یہاں سے گزرو تو نیزوں پہ سر اٹھا ئے رہو
اندھیرا صدیوں کا ہے مشعلیں جلائے رہو
ستم نے شام غریباں میں کردیا اندھیر
کرم کرو مرے اشکوں کی لو بڑ ھائے رہو
فرات ہو چکی پیاسوں کے واسطے زہراب
عبث ہے ہونٹوں پہ پہرے جو تم لگائے رہو
ابھی تک آ خری خیمہ ہمارا جلتا ہے
تم اپنے ذوق نظارہ کو جگمگائے رہو
کبھی دیا ہے کہ اب دشت پانی دے دے گا
عطش کی فصل مرے لب پہ تم اگائے رہو
تمہارا حکم کہ گردن جھکی رہے سب کی
مرے قبیلے کا قانوں سر اٹھائے رہو
یورش ہے ہم یہ کہ شانوں سے ہاتھ کٹ جائیں
ہمارے دل کا تقاضا علم اٹھائے رہو
واقعہ کربلا بظاہر لشکرِ یزید کے ہاتھوں بہتر اصحابؓ کی شہادت کی مختصر داستاں ہے لیکن اس واقعے کے در پردہ پرت در پرت اور تہہ در تہہ مضمرات کی ایک ایسی وسیع و بسیط داستانِ غم ہے جو اتنی صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی‘ قیامت کے دن تک تشنہ بیان اور باعث ماتم و حزن وملال و رنج و اندہ بنی رہیگی اور بلا امتیاز و مذہب و ملت‘ رنگ و نسل اور ذات و مسلک ‘ ادلاد ِ آدم کے لئے سوہانِ روح بنی رہیگی اور انہیں رلاتی رہیگی اور سینہ کوبی پر مجبور کرتی رہیگی۔ہر زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے رثائی شعراء اسے اپنے اپنے انداز سے اپنی منفرد و مخصوص خوبیوں کے ساتھ اپنے کلام میں اظہار کر رہے ہیں۔کمال یہ ہے کہ ہر ایک کا لب و لہجہ اور اسلوب و بیان ایک جیسا نہیںہے بلکہ مختلف و منفرد ہے۔ گوکہ ایک جیسے واقعات کو جامہ اظہار و ترسیل پہنانے میں کہیں کہیں مماثلت و یک رنگی بھی ہے لیکن ہر شاعر کا انداز سخن و اظہار الگ اور جداگانہ ہے۔دو ہمعصر شعراء مرزا دبیرؔ ومیر انیسؔ کا کلام اس ضمن میں ایک عمدہ مثال ہے۔
شبیبؔ رضوی کا بھی اپنا ایک الگ اور مخصوص و منفرد مزاج و رنگ ہے انہوں نے اپنی رثائی شاعری میں وہ وہ مضامین تلاش کئے ہیں کہ اس فن میں ان کی اسقدر دسترس پر رشک آتا ہے۔ اس ضمن میں اسی شعری مجموعے میں شامل ‘ دوسری غزلوں کے رثائی اشعار ملاحظ فرمائیے۔
عطش اب آخری منزل کو پہونچی
سوا خنجر کے پانی کون دے گا
زخم ِدل بھرنے لگے تھے‘ اس نے اچھا ہی کیا
گفتگو کا سلسلہ تیرو کماں لے گیا
یہ اب کی باتیں نہیں کہ پہلے سے طے ہوا ہے
جد انہ ہونگے مزاج خنجر سے سر کے رشتے
بات بونوں میں بھلا کیسے گنوائی جائے
بات اونچی ہو تو پھر نیزوں پہ سر بولتے ہیں
اب مروت یا حیا کی بات پوشیدہ نہ رکھ
آگ خیموں میں لگا سر سے ردا بھی چھین لے
کتنی بھوکی ہے کتنی پیاسی ہے
زندگی دشتِ کربلا سی ہے
حسینی مشاعروں کی بات تو الگ ہے عام شاعری میں بھی کربلائی اشعار کا وافر تعداد میں ملنا اور پھر اس واقعے یا سانحے کے حوالے سے ‘ استعاروں اور تلمیحات وغیرہ کو زندگی سے متعلق دیگر شعبہ جات سے مشابہت دینا یا ذریعہ اظہار بنانا واقعی ایک فن ہے جسمیں شبیبؔ رضوی کامل مہارت رکھتے ہیں۔
شبیب ؔرضوی نے رثائی شاعری کے علاوہ بھی جو شاعری کی ہے وہ بھی ہر لحاظ سے ایک قابل ِقدر شاعری ہے لگ بھگ پانچ دہائیوں پر محیط ان کے تجربات و مشاہدات اور وسیع و عریض مطالعہ و مشاہدہ نے ان کو ایک قادرالکلام شاعر بنایا ہے۔تقریبا تمام اصناف ِ سخن پر ان کواچھی خاصی گرفت بھی ہے اور ان کا ذخیرئہ الفاظ بھی لا محدود ہے۔
رثائی شاعری کو ان کے ہاں فوقیت ضرور حاصل ہے لیکن اگر ان کی پوری شاعری اور اس شاعری کے محرکات‘ جو ان کی شعر گوئی کا سبب بنتے ہیں ‘ کو دیکھا اور سمجھا جائے تو اس شاعری کا سبب اور موضوعات یا پھر نفسِ مضمون اچھی طرح سے سمجھ میں آجائے گا جو بحیثیت مجموعی ‘ غم ِ انسانیت ہے کہ ان کی شاعری کا موضوع انسان ہے۔
یہ غم ہر اس انسان کو ہے جسے ہم صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات یا پھر نائب خدا کہتے ہیں۔ چونکہ ہر شخص ‘اس کے اظہار کی قدرت نہیں رکھتا صرف مخصوص شاعر ہی اس وصف سے متوصف ہیں کہ وہ عالم انسانیت کی خوشی پر اظہارِمسرت کریں اور رنج و غم میں ماتم۔
اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو یہ عالم ِرنگ و بو بھی ایک میدانِ حشر سے کم نہیں ہے۔قدم قدم پر ‘ قریہ قریہ پر دوڑتے بھاگتے لمحات ‘ کسی نہ کسی کربلا کو جنم
دیتے ہیں اور عالم انسانیت کو کرب و بلا میں مبتلا کر کے گزر جاتے ہیں۔ ہر کربلا کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے۔مجبور و لاچار انسان خواستہ نا خواستہ‘ حزن و ملال میں محصور و مجبور ہو کر اس رزم گاہ حیات میں ظلم و بر بر یت کا شکار ہو جاتا ہے۔اور شہادتوں کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔
کوئی اس کا شریکِ کار بنے یا نہ بنے ‘ شاعر کے اندر کی باغی فطرت چیخ و پکار اور احتجاج کرتی ہے ۔ مظلوم انسانوں کے دل کی آواز بن جاتی ہے اور قلم کی تلوار لے کر میدانِ کارزار میں کود پڑتی ہے ۔قلم کی تلوار سے بنی نوع انسانی کی اصلاح ‘ تعمیر یا بیداری مقصود ہوتی ہے خدانخواستہ تخریب نہیں۔
شبیبؔ رضوی کے سینے کے اندر ایک ہمدرد دل دھڑکتا ہے جو ہر شخص کے کراہنے سے متاثر ہوتا ہے جس کا عکس فطری طور پر ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔اسلئے ان کی شاعری میں حزن و ملال ‘ رنج و الم اور غم و اندہ ہے۔ اپنے تخلیقی عمل کے دوران وہ جن کٹھن مراحل سے گزرتے ہیں اور جو چیز انہیں متاثر کرتی ہے یا جو کچھ انہیں اپنے آس پڑوس کے ماحول سے ملتا ہے اسے وہ ایمانداری کے ساتھ اپنے شعری کینوس پر لے آتے ہیں۔ حالات و حوادث کی جس جنگ سے وہ نبرد آزما ہیں اس کا بھر پور عکس ان کی شاعری میں جا بجا ملتا ہے۔
شبیب ؔرضوی کا کلام پڑھ کر اگرچہ تروتازگی کا احساس بھی ہوتا ہے اور فن شاعری پر ان کی کامل دسترس اور ان کی قادرالکلامی کا اندازہ ہو جاتا ہے وہاں ان کے اندرروح کی گہرائیوں میں رچے بسے کسی گہرے صدمے کا بھی پتہ چلتا ہے۔
شبیبؔ صاحب بھلے ہی تمام اصنافِ سخن میں شعر کہتے ہوں لیکن ان کی پسندیدہ صنف سخن غزل ہی ہے۔جس اعتماد اور عمدگی کے ساتھ وہ غزل کہتے ہیںوہ انہیں اس صنف کا ایک معتبر و منفرد شاعر بنا دیتا ہے۔ عصر حاضر کی غزل میں کئی معتبر شعراء نے دامن غزل کو کافی وسیع کردیا ہے اور معاصر غزل کو موزون و مناسب الفاظ و تراکیب‘استعارات وتلمیحات‘ زبان و اسلوب اور سب سے بڑھ کر نئے نئے اور اچھوتے موضوعات سے وسعت و تذئین بخشی ہے ۔شبیبؔ صاحب کی غزلوں میں وہ سب خوبیاں موجود ہیں جو اس دور کے مشاہیر غزل گو شعراء کی غزلوںمیں موجود ہ ہیںاور جو معاصر غزل کا خاصہ ہیں، جس کا اندازہ ’’لہو لہو غزل ‘‘ میں شامل ان اشعار سے کیا جا سکتا ہے۔
اتنی یکسانیت نہیں اچھی
کچھ نہ کچھ مجھ سے اختلاف بھی کر
زندگی کو گلے لگائے ہوں
یہ ذ را سی خطا معاف بھی کر
یہ آرزو کہ شعورِ روش ہو سب سے جدا
ہم اپنی راہ چلے کارواں کے ہوتے ہوئے
شبیبؔ طبعِ سخنور سے ہوک اٹھتی ہے
نہ قدرِ شعر ہو گر قدرداں کے ہوتے ہوئے
لمبی راتیں چھوٹے دن اب بیت گئے
اس کو گئے موسم کی خبر لکھ دیتا ہوں
تا کہ نہ بھٹکیں آنے والے بعد مرے
نقش قدم پر حالِ سفر لکھ دیتا ہوں
سر بلندی کا جسے حق ہو اٹھائے سر کو
ہاں مگر اتنا کہ دستار نہ گرنے پائے
اب سیاست میں یہی ٹھہری ہے رسمِ تہذیب
بات گر جائے پہ سر کار نہ گرنے پائے
کتابِ دل کا پہلا صفحہ اس کے نام کس کے نام؟
اسی میں عمر کٹ گئی کہ انتساب پھر کبھی
مری امید و شوق و عرض والتماس کا
فسانہ کچھ دراز ہے تو اے جناب پھر کبھی
کتنی بھوکی ہے کتنی پیاسی ہے
زندگی دشت کربلا سی ہے
اس نے کتنی لطیف بات کہی
خود شناسی خدا شناسی ہے
الغرض ڈاکٹر شبیبؔ رضوی کا ایک ایک شعر پڑھنے اور غور و فکر کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔افسوس شبیب ؔرضوی جیسے کہنہ مشق اور استادِ فن شاعر اور مجاہدِاردو کی طرف ریاستی‘ ملکی اور عالمی ناقدین ارود شاعری کی نظریں آج تک نہیں پڑیں ہیں اور نہ ہی ان کی خاطر خواہ پزیرائی اور عزت افزائی ہی کی گئی ہے،جس کے وہ ہر لحاظ سے مستحق ہیں، خاص طور پر اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لئے ‘ جس خندہ پیشانی اور انتھک کوششوں اور کاوشوں سے خدمت انجام دے رہے ہیں ریاست جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے ہرچھوٹے بڑے اردو داں کو اس کا بھرپوراحساس ہے۔
صدرہ بل‘حضرت بل سرینگر(کشمیر)
Mob:-9419017246 E.mail:- dr.ashraf.asari@gmail