’’بھارتیہ دانشوروں اور پالیسی سازو ں کی کشمیر کے مصائب اور سماجی ارتقاء کو سمجھنے میں عدم دلچسپی ہی جموں وکشمیر کے مسئلے کی بنیادی وجہ ہے‘‘۔یہ الفاظ کسی محقق یا مورخ کے نہیں بلکہ موجودہ مخلوط حکومت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب درابو کے ہیں جو انہوں نے پونا انٹرنیشنل سینٹر کے چھٹے یوم تاسیس پر کہے جہاں وہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو تھے ۔
ان کی یہ بات مسئلہ کشمیرسے متعلق ایک مختلف سوچ کی مظہر ہے۔ڈاکٹر درابو نے کشمیرکی بیگانگی کیلئے بھارت کی سول سوسائٹی کو ذمہ دار قرار دیکر بحث کا ایک نیادروازہ بھی کھول دیا ہے ۔اس سوچ کے ساتھ ضروری نہیں کہ سب اتفاق کریں لیکن اختلاف رکھنے والوں کیلئے بھی غور و فکر کی گنجائش موجود ہے کیونکہ اس کی تہہ میں کئی ایسے حقائق پوشیدہ ہیں جن کی کوکھ سے ایسے دلدل پھوٹ پڑے جنہوں نے کشمیر کو برصغیر کا دہکتا ہوا آتش فشاں بناڈالا ۔حیرت اس بات پر ہے کہ یہ سیدھی سی بات آج تک کسی کی زبان پر اتنے صاف اور واضح لفظوں کے ساتھ نہیں آئی اور جب آئی تو ایک ایسی مخلوط سرکار کے وزیر کی زبان پر آئی جسے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے قطبین کا اتحاد قرار دیا تھا ۔
ڈاکٹر درابو نے اپنے خیال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کو ہمیشہ سیکورٹی نکتہ نظر سے دیکھا گیا ہے اور اس بات پر کوئی آزادانہ سوچ نہیں ہے کہ کشمیری عوام کا ردعمل ایسا کیوں ہے ۔انہوںنے کہا کہ جموں وکشمیر میں سب سے جامع زرعی اصلاحات عمل میں لائے گئے جو کہ دنیا بھر میں کسی بھی غیر اشتراکی حکومت نے نہیں کئے ہوں گے، لیکن جموں و کشمیرمیں زرعی اصلاحات پر کسی بھی بھارتی سکالرنے کوئی کتاب نہیں لکھی ہے جبکہ کیرلا اور مغربی بنگا ل کے زرعی اصلاحات پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔انہوںنے کہا کہ ان زرعی اصلاحات کے سیاسی و سماجی اثرات کا تجزیہ کسی بھی بھارتی سکالر نے نہیں کیا ہے ۔کشمیری قالین اورکشمیر شال پر ایک امریکی اور ایک سوئزرلینڈ کے قلمکار نے بہترین کتابیں لکھی ہیں تاہم بھارتی دانشوروں نے اس ضمن میں بھی خاموشی ہی اختیار کی ۔
قومی میڈیا کی جانب سے کشمیر کے حالات کو منفی انداز میں پیش کرنے پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے درابونے کہا کہ علیحد گی کے کبھی کبھار لگائے گئے نعروں کو ملک بھر میں ٹیلی ویژن سکرینوں پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔اُنہوںنے کہا کہ دلی میں گزشتہ حکومتوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بھارت میں وفاقی ڈھانچے اور دیگر رجحانات میں واقع ہو رہی تبدیلیوں کو جموں و کشمیر کے ساتھ وابستہ نہ کرنا ہے ۔ بھارتی سول سوسائٹی کا ایک بہت بڑا رول ہے اور وہ عظیم تبدیلیاں لاسکتی ہے ۔کشمیر کو بھارتی ریاست کے ایک خود مختار یا بااختیار وفاقی اکائی کے تصور کے منحرف کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، تاہم اسے بھارتی وفاق کے ساتھ جوڑے رکھنا بھارت کی مخلوط ثقافت اور جمہوریت کی بقاء کے لئے لازمی ہے۔اس نقش راہ پر کوئی بھی تبدیلی اثر انگیز نہیں ہوئی ہے اور بھارتی دانشور جموں و کشمیر کو اسی نظرئیے سے دیکھتے آرہے ہیں۔
ڈاکٹر درابو کے یہ خیالات مسئلے کے صرف ایک پہلو کی نشاندہی نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ کئی الگ الگ پہلووں کو دریافت کرنے کی کوشش ہے جو ظاہر ہونے کے باوجود آج تک نظر انداز ہورہے تھے ۔مسئلہ کشمیر کے داخلی پہلوہونے کی حیثیت سے انہیں خارجی پہلو پر ترجیح تو نہیں دی جاسکتی ہے لیکن انہوں نے ہی وہ فضا تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے خارجی پہلو کی اہمیت مسلمہ ہوگئی ۔آج مرکزی حکومت مسئلہ کشمیر کے خارجی پہلو کی اہمیت کم یا ختم کرنے پر پوری قوت اور ساری توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے اورطے یہ ہوا ہے کہ کشمیر کی اندرونی صورتحال میں تبدیلی اس کا واحد علاج ہے ،لیکن صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے مرکزی اہمیت جس بات کو حاصل ہے وہ یہی ہے کہ ان عناصر کیخلاف ہر حربہ استعمال کیا جائے جو بے چینی اور تشدد پیدا کرنے میں پیش پیش ہیں ۔جنگجووں کیخلاف جارحانہ حکمت عملی ، سنگ بازوں اور احتجاجیوںکی گرفتاریاں ، این آئی اے کے چھاپے اور گرفتاریاں ، مزاحمتی قیادت کیخلاف سخت اقدامات اور ایسی ہی دوسری کاروائیاں اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں اور جب مسٹر درابو یہ بات کہتے ہیں کہ کشمیر کے معاملات کو صرف حفاظتی نکتہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو ان کا اشارہ اسی جانب ہے۔
یوں تو وزیر اعظم کی جانب سے یوم آزادی کے موقعے پر لال قلعے کی فصیل سے گولی اور گالی کے بجائے گلے لگانے کا پیغام ، من کی بات میں دلکش الفاظ کے ساتھ کشمیر اورکشمیر یوں کا تذکرہ اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش سیاسی اقدامات کا اضافہ ظاہر کررہے ہیں لیکن یہ اقدامات نئے نہیں ہیں ۔ ایسے اقدامات کا وسیع تجربہ ریاستی عوام کو بھی ہے اور مرکزی حکومت کو بھی اور یہ اقدامات ڈاکٹر درابو کی اس بات کا ثبوت فراہم کررہے ہیں کہ کشمیر کو بھارتی ریاست کے ایک خود مختار یا بااختیار وفاقی اکائی کے تصور کے منحرف کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔اور جب وہ کہتے ہیں کہ بھارت کو ایک قوم نہ کہ ایک ریاست کی طرح مداخلت کرکے فعال ہوکر مسائل کو حل کرنا ہوگا تو وہ ایک نئی سوچ ، ایک نئے اپروچ اورایک نئی حکمت عملی پر زور دے رہے ہیں ۔
اس المناک حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیںکہ پچھلے ستر سال کے طویل عرصے میں ریاست جموں و کشمیر کو ایک الگ زاویہ نگاہ سے دیکھا گیا جس کا لب لباب اٹوٹ انگ کا نظریہ تھا ،جس کی راہ میں مشروط الحاق،اقوام متحدہ کی قراردادیں ،پاکستان اورریاست کی خصوصی حیثیت کو حائل سمجھا گیا اور ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کو اس کے لئے ایک خطرہ تصور کیا گیا۔ ریاست کے تہذیبی ورثے اوران نظریاتی قدروںکو یکسر فراموش کیا گیا جن کی وجہ سے راشٹر پتا مہاتما گاندھی کو کشمیر میں روشنی کی کرن نظر آئی تھی ۔چنانچہ اٹوٹ انگ کا ہدف پورا کرنے کیلئے اس کی راہ میں حائل ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی حکمت عملی کو ہی روڑ میپ بنایاگیا ۔پہلے قدم کے طور پر ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کیلئے سیاسی حکمت عملی کے طور پر محاذ رائے شماری کے الیکشن بائیکاٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتخابی ہیر پھیر کے ذریعے غیر نمایندہ افراد کو حکمراں بنایا گیا اور ان کے ہاتھوں آئینی ترمیموں کی راہ ہموار کردی گئی ۔یہاں تک کہ دفعہ 370 محض ایک ڈھکوسلہ بن کر رہ گیا ۔
بین الاقوامی حیثیت کو ختم کرنے کا سنہری موقعہ اس وقت حاصل ہوا جب پاکستان کے دوٹکڑے ہوئے اور شملہ میں مسئلہ کشمیر کو عالمی فورموں کے بجائے آپسی مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کا معاہدہ ہوا ۔اور اٹوٹ انگ کا ہدف پورا کرنے کیلئے آخری معرکہ اس وقت سر کرلیا گیا جب اندرا عبداللہ اکارڈ روبہ عمل آیا اور شیخ محمد عبداللہ نے ریاست کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا جسے1953ء میں وزیر اعظم کی حیثیت سے برطرف کردیا گیا تھا ۔
اس سارے عمل کے دوران اس بات کو قطعی طور پر نظر انداز کردیا گیا کہ کشمیر کے اندر عوام کے دلوں اورذہنوں میں کس طرح کے اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔اسی عرصے میں ایلی نیشن یابیگانگی کا شگاف اتنا وسیع ہوگیا کہ نوے کی دہائی میں بندوق اُن ہاتھوں میں آگیا جو فطری اور نظریاتی طور پر عدم تشدد کے لامحالہ پرستار تھے ورنہ 1965ء میں بھی بندوق اٹھانے کا موقعہ تھا لیکن کشمیر نے اس وقت بندوق کو ردکردیا ۔اٹوٹ انگ کا ہدف حاصل کرنے کیلئے ایک طرف سیاسی سازشوں اور عوام کو سیاسی بے اختیاری کے عذاب سے دوچار کردیا گیا تو دوسری طرف ملک اور ریاست کے درمیان اجنبیت کی خلیج پیدا کردی گئی ۔
ہندوستان کی سول سوسائٹی ، صحافت ، دانش ، اپوزیشن اور سیاسی ادارے اس جارحانہ اپروچ کے معاون و مددگار رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اجنبیت کا احساس گہرا ہوکر آنے والی نسلوں میں منتقل ہوا، اس طرح کشمیر کا احساس پوری طرح سے چھلنی ہوکر رہ گیا اورایک دائمی اجنبیت نے خوفناک راہوں کا انتخاب کرنے کیلئے نئی نسل کو آمادہ کردیا ۔ افغانستان کی جنگ ، پاکستان اور بھارت کے ایٹمی قوتیں بن جانے جیسی عالمی تبدیلیوں نے بھی اس عمل میں اپنا کردار ادا کیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ اٹوٹ انگ کا ہدف پورا کرنے کی حکمت عملی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھانے ، بین الاقوامی تنازعے کی حیثیت پر ضرب لگانے اور اندرون ریاست آزاد سیاسی قوتوں کو ابھرنے کا موقع نہ دئیے جانے کے باوجود بھی مسئلہ کشمیر ایک درد سرکی طرح موجود ہے اور نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کیلئے خطرات کا پہاڑ بن کر کھڑا ہے ۔
پاکستان بھی عذاب جھیل رہا ہے ، ہندوستان بھی اور کشمیر بھی ۔ نہ بین الاقوامی سطح پر حل کی کوئی صورت نظر آرہی ہے اور نہ ہی اندرونی سطح پر امن اور سکون کا کوئی سرا مل رہا ہے ۔ڈاکٹر حسیب درابو نے جو باتیں پونا میں کہیں وہ اس صورتحال کے پیدا ہونے کے عوامل کا ایک نچوڑ ہے ۔کشمیر آج جہاں ہے وہاں اسے پہونچنے پر مجبور کردیا گیا ہے اور وہاں سے اسے واپس لانے کی اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے کہ ان غلطیوں کو محسوس کیا جائے جن کا ارتکاب مرکزی اقتدار نے، ہندوستان کی سول سوسائٹی نے ، پالیسی ساز اداروں نے ، اہل دانش نے ،اپوزیشن نے اور سیاسی ، سماجی واقتصادی اداروں نے کیا ہے۔ لیکن اس کے برعکس آج پہلے سے زیادہ دراز دستیوں ، بے عزتیوں اور جارحانہ اقدامات کا عمل جاری ہے ۔ سٹیٹ سبجیکٹ قانون ختم کرنے تک بات پہونچ چکی ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا کشمیر کو ایک دشمن سٹیٹ اور کشمیری باشندوں کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ ایک بھی آواز اب کشمیر کی ہمدردی میں نہیں اُٹھ رہی ہے اور اجنبیت کے احساس کو ختم کرنے کی باتیں ان حالات میں ایک مذاق کی طرح محسوس کی جارہی ہیں ۔
ڈاکٹر درابو اسی صورتحال کی عکاسی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کشمیر کو بھارتی ریاست کے ایک خود مختار یا بااختیار وفاقی اکائی کے تصور کے منحرف کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور وہ اس کا علاج یہ بتاتے ہیں کہ بھارت کو ایک قوم نہ کہ ایک ریاست کی طرح مداخلت کرکے فعال ہوکر مسائل کو حل کرنا ہوگا ۔لیکن زخم کافی گہرا ہے اور درد بہت زیادہ ہے اس لئے مختصر علاج بھی کارگر نہیں ہوسکتا ہے ۔بھارت کی سول سوسائٹی ، دانشور طبقے ، میڈیا ، سیاسی اداروں اور اقتصادی شعبوں کو مل کر کشمیر کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ وہ دشمن نہیں بلکہ ہندوستان کے معاشرے کا ایک عضو ہے جس کا درد ہندوستان کا درد ہے ۔بہ بات بالکل درست ہے کہ کشمیر کو بھارتی وفاق کے ساتھ جوڑے رکھنا بھارت کی مخلوط ثقافت اور جمہوریت کی بقاء کے لئے لازمی ہے۔بھارتی وفاق کے ساتھ کشمیر کی ذہنی اور جذباتی علیحدگی بھی کشمیر کا کم اور خود بھارت کا بہت بڑا نقصان ہے ۔ بھارتی معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ کو بچانے کا واحد ذریعہ کشمیر ہی ہوسکتا ہے ۔مرکز کو باتوں سے زیادہ عمل کیلئے ایک ٹھوس اور جامع نقش راہ ترتیب دینا ہوگا ،جس کی بنیاد حفاظتی مقامات نہیں بلکہ جذباتی رشتوں کا احیا ہونا چاہئے ۔ریاست کی وزیر اعلیٰ بھی اس بات کی قائل ہیں کہ مذاکرات کے دروازے متعلقین کیلئے جتنی جلد ممکن ہو کھول دینے چاہیے اور پاکستان کے ساتھ بھی بات چیت شروع کی جانی چاہئے لیکن اس سے پہلے کشمیر یوں کی بے گانگی دور کرنے کی تدبیریں ناگزیر ہیں۔
بشکریہ ہفت روزہ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر