کچھ عرصہ سے وادی ٔ کشمیر بچیوں اور خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے پُراسرار واقعات پے درپے رونما ہورہے ہیں ۔ یہ کون سی نئی آفت وبلا ہے ؟ا س کے پیچھے کون سے مکروہ عزائم کارفرما ہیں ؟ ان اوچھی حرکات کا ارتکاب تادم تحریر ہنگامہ خیز جنوبی کشمیر میں نسبتاً زیادہ کیوں ہورہاہے؟پولیس نے اس جرم میں ملوثین کو پکڑنے کے لئے تین لاکھ روپے انعام کا اعلان کیوں کیا ہے ؟ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے پولیس کو اس جرم کے مر تکبین کو جلدازجلد پکڑنے کی جوہدایت دی ہے،اس کا سیاسی مفہوم کیا ہے ؟ ان سوالوں کے جوابات مختلف لوگوں کے پاس مختلف فیہ ہیں ۔ البتہ ان واقعات کے چلتے عام لوگ سہمے ہوئے ہیں ، ڈرے ہوئے ہیں ، پریشان وہراساں ہیں۔ کشمیر میں پیش آمدہ ان دل خراش واقعات کے پس پردہ جو بھی بڑی کہانی اور چھوٹی کہانیاں ہوں، ان سے صرف نظر کرکے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کبھی کبھی اچانک رونما ہونے والی کوئی انہونی زندگی کی آنکھ میں خار بن کر چبھ جاتی ہے جس سے اذیتوں کی کرچیاں نازک احساس کو لامتناہی دردو کرب سے دوچار کر دیتی ہیں۔ انسان لاکھ کوشش کرے کہ ادھر ادھر کی چیزوں پر اپنی توجہ مرکوز کرے مگر قلب و نگاہ میں ٹھہری بے بسی کی تصویر ہر شے میں منعکس ہو کر ماحول کو اُداسی سے بھر دیتی ہے۔کشمیرمیں ایک کے بعدایک نئی خوفناک صورت حال منصہ ٔ شہود پر آکر ہمارے اجتماعی دُکھ اور غم کو دوچند کر تی جارہی ہے ، حالات کے تعلق سے اُداس سوچ کی پرواز دیوانگی کی دیواروں سے سر ٹکرا کر زخمی ہو جاتی ہے۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں ،کوئی ثانیہ ایسا نہیں جو حالات کے جبر وتشدد کا شکار نہ ہو تا ہو۔ تاریخ رقم کرنے والے مورخ کا قلم بھی لہو لہو ہے، شرمندگی کی سیاہی ورق ورق پھیلی ہوئی ہے، وہ کشمیر کے دردِ پنہاں کے بارے میں لکھے توکیا لکھے ؟ زبان تھرتھراتی ہے ، زبان لڑکھڑاتی ہے، ضمیر شرماتا ہے۔ اگر سچ لکھتا ہے تو خود کو جرم کے کٹہرے میں کھڑا پاتا ہے۔ اگر سچ نہیں لکھتا تو ذات کے آئینے کے ٹوٹ پھوٹ جانے کا خدشہ شب و روز کا چین چھین لیتا ہے۔
بچیوں اورخواتین کی چوٹیاں کاٹ ڈالناظلم اورہتھکنڈے کی یہ نرالی نوع کولگام سے شروع ہوئی اور اب اسلام آباد اور چاڈورہ ،وسطی کشمیراورشمالی کشمیرمیں بھی خواتین کی پراسرار طور پر چوٹیاں کاٹنے کے واقعات رونما ہوئے۔بدھ27ستمبر کو کولگام چاڑورہ اوراسلام آباد میں پراسرار طور پر 8خواتین کے بال کاٹے گئے ۔اس دوران کولگام کے دمحال ہانجی پورہ میں شدید مظاہرے ہوئے۔ معروفہ اختر دختر غلام احمد گنائی ساکن یمرچھ کولگام کے بال کاٹے گئے جس کے بعد مذکورہ لڑکی کو اسپتال منتقل کردیا گیا۔ژمر دمحال ہانجی پورہ کولگام نامی گائوں میں مزید دو واقعات پیش آئے ہیں،جہاں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔مقامی لوگوں کے مطابق صائمہ دختر محمد اقبال اور رینت اختر دختر نذیر احمد خان کے بال کاٹے گئے۔اس موقعہ پر مقامی لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے دو افراد کو پکڑ لیا لیکن فورسز نے ہوائی فائرنگ کر کے انہیں چھڑانے کا الزام لگایا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بعد میں ضلع انتظامیہ کے اعلی افسران یہاں پہنچ گئے اور صورت حال کا جائزہ لیا۔شام کے 8بجے ٹھوکر پورہ کیموہ میں جمیلہ بانو زوجہ منظور احمد بٹ دودھ لینے کیلئے گھر سے نکلی، اس دوران اس پر سپرے کیاگیا اور وہ بے ہوش ہوگئی۔ جب راہ چلتے لوگوں نے اسے اٹھایا تو اس کے بال کاٹے گئے تھے۔اُدھرمٹن کی رہنے والی ایک دسویں جماعت کی طالبہ سمیرا بانو اپنے گھر میں بیٹھی تھی تو اس دوران ایک شخص ان کے گھر میں داخل ہوا اور پانی کا ایک گلاس مانگا ۔لڑکی کے مطابق اس نے جیسے ہی اسے پانی پینے کیلئے دیا تو اس دوران اس پر سپرے پھینکی گئی اور پھر اس کے بال کاٹے گئے ۔ایساہی واقعہ کہری بل مٹن میں پیش آیا۔یہاںچھٹی جماعت کی لڑکی ہاجرہ دختر فیاض احمد بخشی کے بال کاٹے گئے ۔ادھر براکہ پورہ نوگام اسلام آباد میں بھی نامعلوم افراد نے پراسرار طور پر ایک لڑکی کی چوٹی کاٹ دی ۔شہزادہ اختر زوجہ خورشید احمد کے مطابق وہ پانی لانے گھر کے قریب ایک نل پر گئی ہوئی تھی تو اس دوران اس کے سامنے ایک نامعلوم شخص کھڑا ہو گیا جس نے اس پر کوئی سپرے پھینک دی جس کے نتیجے میں وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئی ۔لڑکی کے مطابق جب اسے ہوش آیا تو اس کے بال زمین پر پڑے تھے ۔دریں اثنا ہانجی گنڈ چاڑورہ میں بدھ کی شام ایک عمر رسیدہ خاتون زبیدہ بیگم کے بال کاٹے گئے۔
ادھر بونہ دیالگام اسلام آباد میں عشرت بانو زوجہ نثار احمد کے بال بھی کاٹے گئے۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ دو خواتین نے ان پر سپرے کیا جس سے وہ بے ہوش ہوئی اور اسے اسپتال میں داخل کیا گیا۔اسپتال پہنچ کر اس بات کا پتہ چلا کہ اس کے بال کاٹے گئے تھے۔ شوپیان کے ترکہ وانگام دراز پورہ علاقے میں بھی ایک خاتون کی چوٹی کاٹنے کی ناکام کوشش کی گئی۔یہ ضلع میں پیش آنے والا اس طرح کا پہلا واقعہ ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق نامعلوم افراد نے ایک خاتون کی چوٹی کاٹنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں خاتون صدمے کا شکار ہوکر بے ہوش ہوگئی اور اسے فوری طور اسپتال لے جایا گیا۔واقعہ کے بعد علاقے کے لوگوں نے آس پاس کے علاقوں کو چھان مارا لیکن کسی کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
وسطی ضلع بڈگام میں اس طرح کا پہلا واقعہ بدھ27ستمبر کی شب7بجے چاڈورہ کے ہانجی گنڈ نامی گائوں میں پیش آیا جہاں ایک55سالہ خاتون کو اس کے گھر کے اندر بے ہوشی کی حالت میں پایا گیا اور اس کی چوٹی کاٹی دی گئی تھی۔ جمعرات کی صبح8بجے اسی گائوں میں چوٹی کاٹنے کا دوسرا واقعہ پیش آیا۔30سالہ خاتون راجہ بیگم زوجہ محمد ایوب راتھر کو بھی اسی طرح گھر میں بے ہوشی کی حالت میں پایا گیا۔جس وقت مذکورہ خاتون کی پر اسرار طور چوٹی کاٹی گئی، اس وقت وہ گھر کے کچن میں تھی۔ اس دوران ضلع بانڈی پورہ کے ناتھ پورہ گائوں میں پانچویں جماعت کی طالبہ عفت فاروق اسکول سے گھر لوٹ رہی تھی کہ راستے میں سہ پہر 4بجے نامعلوم برقعہ پوش افراد نے اس کمسن طالبہ کو ایک سنسان جگہ پر روکا اور اس کی چوٹی کاٹ ڈالی ۔اسے بے ہوشی کی حالت میں گھر لایا گیا۔ یہ سارے دلدوز واقعات یہ سطور لکھنے تک رونام ہوئے تھے، کیا پتہ ابھی حوا کی کتنی بیٹیوں کو اس المیے کا منہ دیکھنا پڑے ؟؟؟
کشمیرکے المیوں اورستموں کی داستان بہت طویل ہے،رنگ اورنوعیت بدل بدل کرستم ڈھائے جارہے ہیں۔اسی شرمناک سلسلے کی یہ ایک کڑی ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے وادی کے مختلف علاقوں بالخصوص جنوبی کشمیر کے اضلاع کولگام اور اسلام آباد میں بچیوںاورخواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے واقعات رونما ہونے سے عوام الناس میں تشویش کی لہراور سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔اس طرح کی توہین اور غیر اخلاقی حرکت سے خواتین میں عدم تحفظ اور ہراسانی کا ماحول پایاجانا فطری بات ہے لیکن یہ بات بعید از امکان نہیں کہی جاسکتی ہے کہ یہ سارا سلسلہ جموںوکشمیر کے عوام کو اپنی منصفانہ اورحق پرمبنی سیاسی جدوجہد سے دلبرداشتہ ہو کر اس سے دستبردار ہو نے کی ایک منظم کوشش بھی ہوسکتی ہے ، کشمیری لوگ عرصہ ٔ درازسے اپنے سیاسی مقصد کے حصول کے ضمن میںہر سطح کی قربانیاںپیش کرتے جارہے ہیں ، فریق مخالف انہیں اپنے سیاسی موقف سے ہٹانے کے لئے تمام صدمہ خیز حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔ یہ کوئی کرشمہ ہی ہے کہ ا س سب کے باوجود کشمیری عوام کشمیر حل کی راہ میں جانیں نچھاور کر رہے ہیں ، تکلیفیں سہہ رہے ہیں ، مظالم کو برداشت کر رہے ہیں اوریہ پیچیدہ صورت حال صبر آزما بھی ہے اور حوصلہ شکن بھی ۔ اب خواتین ا ور بچیوں کی چوٹیاں کاٹنے کا یہ نیا اذیت ناک سلسلہ بھی اہل کشمیر کی غیرت وحمیت پر طمانچہ رسید کررہاہے اور ان کے لئے ہراسانی کا ایک بڑا وبال بن چکا ہے ۔ خد ارا خود سوچئے کہ جب عام لوگ خاص کر دیہات اور ہنگامہ خیز بستیوں میں شام ڈھلتے ہی اپنے گھروں سے باہرآنے سے کتراتے ہوں اورسناٹاچھاتے ہی کونوں کھدروں میں دُبک جاتے ہوں ، توایسے عالم میںیہ کون ہیں جوبچیوں اور دوشیزاؤںکی اس طرح کی توہین کامرتکب ہوسکتاہے ہیں اورکشمیر کے طول وعرض میں ایک نیاخوف برپاکررہاہے ؟
اس قسم کے جبرسے کشمیرایک بارپھرکئی دن سے سکتے کے عالم میں ہے۔دیگرمظالم اوراوچھے ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ والدین کے لئے بنات کشمیرکی چوٹیاںکاٹنے کے خوف ناک مناظر آنکھوں کو سمندر اور دل کو چھلنی کر دیتے ہیں۔ ظاہری طور پر آج کل شادی بیاہ کی تقاریب میں مست مطمئن نظر آنے والے مصنوعی مسکراہٹوںکے ساتھ زندہ ہونے کا ثبوت دیں تو دیں مگر ان کے باطن کا درد آنکھوں سے سمندر بن کر بہتا ہے ۔ شاید یہ کہنے کی ضروترت نہیں کہ کھوکھلی ہنسی سے کوئی ’’سب اچھا ‘‘کا پیغام بھی دے لیکن روح اس تکیہ کلام کا ساتھ نہیں اور دل پرپتھر تیز بارش کی طرح برستے ہیں۔وہ جب آئینے میں جھانکتے ہیں تو چاہے اپنے چہرے مہرے کوکھینچ تان کردرست بھی کریں مگر اس کے باوجودان کے چہرے اداس ہوتے ہیں ۔ ان کاوجود،ان کی ذات سوال کرتی ہے کہ اب کس قیمتی شئے کی قربانی دیناباقی ہے، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ان کے پاس موجود ہی نہیں۔ وہ کیا کریں؟ حیرانی و پریشانی کے عالم میں ہیں کیوں کہ معاشرے کا ہر فرد اجتماعی تظلم کاشکارہے۔ وہ جتناچیخیں ،چلائیں آہ وزاری کریں مگر ان کے خلاف درندہ صفت حالات کی خزاں آلودہ رُت بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اب اس نئے تازیانہ ٔ عبرت سے وہ سب کے سب اپنی اپنی چار دیواری تک حفاظتی قلعے بنا کر محصور ہو نے کے باوصف محفوظ نہیں ، جب کہ ان کے گھروں کے باہر دنیا نہیں بلکہ ان کے خلاف اذیت پسند سازشوںاور گندے منصو بوں کا ہرا بھراجنگل لہلارہا ہے۔ ذراسوچئے دنیا کاخوبصورت ترین علاقہ برسوںسے ایسا دہشت ناکیوں سے بنجر اور غیر آباد ہو گیا ہے کہ جہاں اخلاق دم توڑ چکے ہیں، انسانیت مر رہی ہے ، انصاف پامال ہورہاہے اور جن لوگوں کو اس انسانی بستی کی لرزتی چیخوں، سسکیوں اور آہوں کی لت پڑی ہے وہ احساسات سے عاری ہو کر نت نئے مذمو م حربے آزما رہے ہیں۔
فیس بک کھنگالئے توکشمیرسے متعلق ہر پوسٹ آپ کی ذہنی اذیت بڑھا کر دم لے گی ۔ زندگی سے بھرا، دوستوں میں گھرا، خوشیوں کے رنگوں میں رنگا ہوا خوبرو نوجوان جن کی آنکھیں بہت دور تک دیکھنے کی قدرت رکھتی تھیں، موج مستی کی عمر میں ان پر زندگی کی یہ تلخ وتند سچائیاں نازل ہو ں تو وہ کن نفسیاتی صدموں کی آغوش میں پلیں بڑھیں گے۔ کیا انہیں یہ واقعات قلب وذہن پر کچو کے نہیں ماریں گے کہ ان کی ماں بہن کی چوٹی کاٹ کر تذلیل و تحقیر کی گئی ؟
کشمیرکی وہ پود جس نے نوے سے آنکھ کھولی اور نامساعد حالات کے بھنورمیں پلی بڑھی، وہ آج کس طرح کی سوچ رکھتے ہیں ،اس کا اندازہ ہر سک وناکس کوہے ۔ آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دورمیں یہ بچے حالات کی کسک دیکھتے ہیں ، حالات پر سوچتے ہیں ، سوال اٹھاتے ہیں، استحصال اور بے انصافی کو قبول نہیں کرتے، ظلم کے آگے سرنگوں ہونے کو تیار نہیں ہوتے، حالات کے جبر سے سمجھوتہ کر کے خاموش رہنا ان کا وطیرہ نہیں ور نہ یہ اپنے گرد وپیش ظلم و جبر کی مہیب داستانوں کو تماشائی کی نظر سے دیکھ کر آگے بڑھنے کے روادار ہیں بلکہ یہ بے انصافی کرنے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حساب مانگنے کا فن جانتے ہیں، انہوں نے انسانی حقو ق کی پامالیوں کے درد انگیزیوں کا مشاہدہ کیا ہے کہ جب وقت کی چیخیں نکل گئیں ۔ کبھی ایسا بھی ہو اکہ جرم بے گناہی کی پاداش میں انہیں نہایت ہی بے دردی سے پیٹا گیا، گھسیٹا گیا، گیند کی طرح زمین پر پٹخا کیا گیا، ننگا کر کے بے عزت کیا گیا۔ یہ سارے خونین مناظر ان کے جذبات کو مجروح ہی نہیں کر گئے بلکہ ان کے رگ وپے میں انتقام کی آگ بھی بھر گئے جس کا کسی نہ کسی صورت نئی پود میں اظہار ہو رہاہے ۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ خطہ کشمیر کا چپہ چپہ پولیس، فوج اور دیگر ایجنسیوں کی تحویل میںہے ،ہر سو فوج ، پولیس اور سی آر پی ایف کے ناکے لگے ہیں۔دوردراز دیہات میں دن ڈھلے ہی لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ایسی نازک صورتحال میں کوئی جرائم پیشہ گروہ یاافراد اس قسم کی حرکات کا ارتکاب کس معجزہ نمائی سے کرسکتے ہیں، یہ ایک ملین ڈلر سوال ہے ؟ یہ ممکن ہی نہیں کہ جرم کے مرتکبین کو جب تک کسی قوت کی پشت پناہی حاصل نہ ہو، وہ یہ مذموم کام انجام نہیں دے سکتے۔دوسری بات یہ ہے اس قسم کاکوئی جرائم پیشہ شخص جب عوام کے ہتھے چڑ ھایاتوفورسز نے انہیں کیفر کردار تک کیوں نہ پہنچایا گیا تاکہ یہاں کے عوام بالخصوص خواتین اور بچیوں کو خوف و ہراسانی سے نجات مل جائے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کہیںاس تازہ دھماچوکڑی کے ڈانڈے نوے کی دہائی میں’’ بھوت آپریشن ‘‘نہیں ملتے جس کے ذریعے کشمیری عوام کے دلوں اور ذہنوں کے اندر خوف پیدا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ حربہ بہت جلد ہوا میں تحلیل ہوا ۔ اس لئے اغلب یہی ہے کہ ؓنف نازک کے بال کاٹنے کے نخوست آمیز حربہ بھی تاریخ کے کوڑ دان میں عنقریب چھپ جائے گا۔