حاجی جعفر خان 1831 ء میں سرینگر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد صاحب غلام خان پشاور کے جانے مانے تاجر تھے۔ وہ اپنے والد محمد خان کے ساتھ تجارت کے سلسلے میں کشمیر براستہ شاہراہ ابریشم آتے جاتے تھے۔ محمد خان کچھ عرصہ کشمیر میں رہے لیکن جعفر خان نے کشمیر میںہی سکونت اختیار کی ۔ انہوں نے کمانگر پورہ میں شادی کی اور اسی علا قے میں بس گئے۔ انہوں نے کئی حویلیاں بنوایں اور شہر کے طول و عر ض میں دوکانیں کھولیں۔ جلد ہی ان کا شمار کشمیر کے امیر ترین لوگوں میں ہونے لگا۔ انہوں نے شروع سے ہی تحریک کشمیر میں حصہ لیا۔ 1924ء جب وائس رائے کشمیر آئے تو جعفر صاحب ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اُسے ایک یاداشت پیش کی۔ ان کے ہمراہ میرواعظ مولوی احمداللہ ، میر واعظ ہمدانی، خواجہ سعدالدین شال، خواجہ نور شاہ جلالی، خواجہ حسن شاہ نقشبندی، آغا سید حسین جلالی اور سید حسین رضوی تھے۔جسٹس حکیم امتیاز حسین اپنی کتاب The Shi'as of Kashmir-II میں لکھتے ہیں کہ اس یاداشت میں انہوں نے مسلمانوںکے لئے سرکاری ملازمتیں، ضبط شدہ مساجد کی واپسی، زمین پر حق ملکیت وغیرہ کا مطالبہ کیا ۔ اس وقت ایسا مطالبہ کرنا گویا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ وائس رائے نے یاداشت مہاراجہ پرتاب سنگھ کے حوالے کی جو اسے دیکھ کر آگ بگولہ ہوا۔ اس کی پاداش میں خواجہ سعدالدین شال اور خواجہ نورشاہ نقشبندی کو جلاء وطن کیا گیا۔ اپنے ساتھیوں کی جلاء وطنی سے جعفر صاحب اور ان کے دیگر رفقاء ہراساں نہ ہوئے بلکہ ان کے ارادوں میں مزید پختگی آئی۔ اس کا ثبوت انہوں نے 11؍ ستمبر1929 ء کو اس وقت دیا جب انہوں بڑی بے باکی سے مہاراجہ ہری سنگھ کو کشمیری مسلمانوں کی حالت ِزار سے آگاہ کیا۔ ان کے ساتھ خواجہ محی الدین، میر واعظ ہمدانی اور سید حسن شاہ جلالی تھے۔ انہوں نے مہاراجہ سے کہا کہ روزگار کی تلاش میں غریب مسلمانوں کو مزدوری کے لئے پنجاب جانا پڑتا ہے۔ جسٹس امتیاز کے مطابق مہاراجہ نے ان تمام مشکلات کا ازالہ کرنے کا یقین دلایا۔ جعفر صاحب 1936ء میں عاشورہ کے دن انتقال کر گئے۔ انہیں بابا مزار، واقع زڑ ی بل شہر خاص میں سپرد خاک کیا گیا۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648