’’اگلے سال میں تمہاری شادی بڑے دھوم دھام سے کروں گا‘‘۔
جنید نے اپنی بہن شیما کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے یہ الفاظ کیا کہہ دیئے کہ شیما کی آنکھ بھر آئی۔
اُسے اپنے ابو زاہد حسین کی یاد آگئی۔
زاہد حُسین گورنمنٹ اسکول میں بحیثیت اُستاد کام کررتے تھے۔ ریٹائر ہونے میں ابھی تقریباً 3سال باقی تھے کہ کینسر کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی۔ زاہد حسین گھر کا خرچہ پانی چلانے کے علاوہ اپنے بچوں کو صحیح اور اچھی تعلیم دے رہے تھے۔ زیادہ آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے زاہد اپنا علاج کسی اچھے اور بڑے اسپتال میں نہیں کروا پائے، جسکا اُنکے گھر والوں کر بہت افسوس تھا۔
جُنید:’ارے بگلی… میں ہوں نا۔ میں تمہارا بھائی بھی ہوں اور ابو بھی…‘‘
سرپر تھپکیاں دیتے ہوئے جنید نے اپنی بہن کو اپنے بڑے اور ذمہ داربھائی ہونے کا احساس دلایا حالانکہ شیما جنید سے تین سال بڑی تھی۔
’’اچھا، تو میں چلتا ہوں‘‘۔ جنید نے اپنا بیگ اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ شیما نے بیگ اُٹھا کر اپنے کندھے پڑ لٹکایا اور بھائی کے پیچھے پیچھے چل دی۔
جنید کے اے ایس (KAS)کے سارے امتحان پاس کرچکا تھا اور آج اُسے انٹرویو کے لئے پھر سے سرینگر جانا تھا۔ کچھ دنوں سے وادی میں حالات ٹھیک نہیں تھے جس کی وجہ سے جنید کی ماں حلیمہ کو سخت فکر لاحق ہورہی تھی۔
’’شیما: لا بیگ دے‘‘ جنید نے گیٹ سے باہر نکلتے ہی بیگ لینے کے لئے بہن کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
’’نہیں بھیا، ہم باہر تک تمہارے ساتھ آئیں گے۔‘‘ شیما نے بیگ بغل میں دباتے ہوئے جنید کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔
سب لوگ، جنید کی ماں، شیما اور جنید کا چھوٹابھائی فرید گیٹ سے باہر تک جنید کو رخصت کرنے نکل پڑے۔
’’اچھا تو میں چلتا ہوں مما‘‘ سب کی طرف مسکراتے ہوئے آخر پر اپنی ماں سے گلے لگتے ہوئے جنید نے شیما سے اپنا بیگ لے لیا اور تیز قدموں سے مین روڑ کی اور چل دیا۔ فرید تو اندر چلا گیا لیکن حلیمہ اور شیما تب تک جنید کو دیکھتے رہے جب تک وہ کچی سڑک کے موڑ سے انکی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
’’جا بیٹا…اللہ تمہیں کامیابی عطا کرے‘‘۔ ایک لمبی سانس لے کر حلیمہ کے دل سے جنید کے لئے دعائیں نکل پڑیں۔
مایوس اور سُست قدموں کے ساتھ حلیمہ اور شیما اندر چلے آئے۔ کچھ ہی دیر میں شیما گھر کے کام میں مست ہوگئی لیکن حلیمہ کو اندر ہی اندر ایک بے چینی کھائے جارہی تھی۔ ایک طرف سے جنید کی کامیابی کی فکر اور دوسری طرف خراب حالات کی پریشانی۔ گھر میں ایک ہی تو موبائل تھا جو جنید اپنے ساتھ لے گیا تھا اور بتاکے گیا تھا کہ پڑوس والی عفیفہ آنٹی کے گھر فون کرکے اپنی خیرت بتا دے گا۔
دن کے اُجالے کچھ کم ہونے لگے۔ سورج اپنی روشنی سمیٹنے لگا۔ مغرب کا وقت نزدیک تھا کہ باہر سے کسی بچے نے آواز دی… ’’آنٹی …آنٹی… ‘‘عفیفہ آنٹی کے بیٹے مُنا کی آواز سنتے ہی حلیمہ تیز تیز قدموں سے باہر چلی آئی۔
’’آنٹی… جنید بھیا فون کررہے تھے بول رہے تھے میں ٹھیک طرح سے پہنچ گیا‘‘ کہہ کر مُنا گیٹ سے باہر بھاگ گیا۔
’’کون تھا؟ کیا کہہ رہا تھا‘‘۔ شیما گھبرائی ہوئی سوالیہ نظروں سے دروازے پر کھڑی اپنی ماں سے پوچھ رہی تھی۔
حلیمہ : ’’شکر ہے اللہ کا جنید شام ہونے سے پہلے ہی سرینگر پہنچ گیا‘‘۔
شیما: ’’کس نے کہا؟‘‘ شیما ابھی بھی فکر مند لگ رہی تھی۔
’’مُنا آیا تھا۔ شائد اُن کے ہاں فون کیا ہوگا‘‘ حلیمہ راحت کی سانس لیتے ہوئے اندر چلی گئی اور مغرب کی نماز کی تیاریوں میں لگ گئی۔
دوسرے دن صبح 10بجے کے قریب پڑوس والی عفیفہ آنٹی موبائل فون ہاتھ میں لئے حلیمہ کے گھر چلی آئی۔
’’جنید بیٹا فون کررہا تھا۔ میں نے دو چار منٹ بعد فون کرنے کو کہا۔ آپ کو بلانے کے بجائے میں نے سوچا کیوں نہ خود ہی آپکے پاس آئوں‘‘ سلام کے فوراً بعدعفیفہ آنٹی نے اپنے آنے کی وجہ بتا دی اور اتنے میں ہی موبائل کی رنگ بج اُٹھی۔
’’جنید ہے‘‘ عفیفہ آنٹی نے مسکراتے ہوئے اپنا موبائل حلیمہ کی اور بڑھایا۔ فون ہاتھ میں لیتے ہی حلیمہ کچن سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی اور شیما عفیفہ آنٹی کے لئے چائے لانے کے لئے اُٹھی۔ دراصل جنید انٹرویو کے لئے نکل پڑا تھا، اسی لئے ایک بار ماں سے بات کرکے اُس کی دعائیں لینا چاہتا تھا۔
’’انٹرویو کے فوراً بعد فون کرے گا‘‘۔ تھوڑی ہی دیر میں حلیمہ کچن میں آتے ہوئے عفیفہ سے کہنے لگی۔
دونوں عورتیں باتوں میں مت ہوگئیں۔ شیما چائے رکھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی اور کپڑوں پر استری پھیرنے لگی۔ اس کے دل میں جنید کو لے کر بڑے خوبصورت خیال آنے لگے کہ KASکا امتحان پاس کرکے جنید ڈھیر ساری خوشیاں سمیٹ کر گھر آئے گا۔ تقریباً ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا۔ شیما کپڑوں پر استری کرکے فارغ ہوئی اُدھر کچن میں دونوں عورتیں باتوں میں مست تھیں کہ اچانک موبائل بج اُٹھا۔
جنید پھر فون کررہا تھا۔
’’اسلام علیکم آنٹی…جی میں …جنید‘‘ جنید نے بڑے ادب کے ساتھ بات کی۔
’’وعلیکم اسلام…بیٹا تمہاری عفیفہ آنٹی تو ابھی تک یہاں ہی ہیں۔ میں تمہاری مما بول رہی ہوں‘‘۔
’’مما …میں… میرا انٹرویو‘‘ جنید خوشی سے کچھ بول بھی نہیں پا رہا تھا۔ اُس کی آواز اور انداز سے ہی لگ رہا تھا کہ اُس کا انٹرویو اچھا گیا ہے۔
’’’بیٹا بتا تو سہی کیسا رہا تمہارا انٹرویو‘‘ حلیمہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے خوشی کے انداز میں پوچھنے لگی۔
’’ماں ایک دم بڑھیا…پوچھو ہی مت…میں کل گھر آکے بتائوں گا۔ اس وقت میرے دوست انتظار کررہے ہیں۔ رکھتا ہوں…خدا حافظ‘‘ اپنی ماں کی بات کاٹتے ہوئے جنید نے کئی ایک باتیں بتا کر فون کاٹ دیا۔
فون کی آواز سنتے ہی شیما بھی دوڑی چلی آئی اور دروازے پر کھڑی سب سُن رہی تھی۔ اپنی ماں کے چہرے پر خوشی دیکھ کر شیما کو اندازہ ہوگیا کہ جنید کا انٹرویو اچھا ہوا ہے۔ عفیفہ آنٹی بھی مسکراتے ہوئے کھڑی ہوگئی اور جانے کی اجازت مانگنے لگی۔ گھر میں ایسا ماحول بن گیا جیسے جنید نے KASپاس کرلیا ہو۔ سب اُس کے آنے کا بے صبری سے انتظار کرنے لگے۔ باقی کا دن کیسے گذرا کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ شیما بار بار دروازے سے گیٹ کی طرف دیکھتی کہ کہیں آتو نہیں گیا جنید۔ فرید نے تو بس سٹاپ کے چکر لگا لگا کر خود کو تھکا دیا۔ بھائی بہن اسی فکر میں تھے کہ سب سے پہلے بھیا سے کون ملے گا۔
انتظار کی گھڑیاں لمبی ہوتی گئیں جنید ابھی تک نہیں آیا۔
’’جنیدکو تو اب تک آجانا چاہئے تھا۔ بڑی دیر لگادی اُس نے تو!‘‘ حلیمہ فکر مند ہوکر شیما سے کہنے لگی۔
آتے ہی ہونگے بھیا، تم فکر مت کرو‘‘۔ اپنی ماں کو دلاسا دیتے ہوئے اندر ہی اندر خود بھی پریشان ہوئی جارہی شیمانے ماں سے کہا۔
شام کے گھنے سائے بڑھنے لگے۔ باہر کے شور و غل کو رات کی سیاہ چادریں ڈھکنے لگیں۔ اب انتظار کا ایک ایک لمحہ دل پہ بوجھل لگ رہا تھا۔ فرید کو بیٹھے بیٹھے نیند آرہی تھی۔ شیما کوئی کتاب لیکر یوں ہی اُسکے ورق پلٹ رہی تھی اور حلیمہ… حلیمہ کی ممتا اُسے ایک جگہ اطمینان سے کہاں بیٹھنے دیتی۔ وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جاتی،کبھی شیشوں میں جھانکنے لگتی تو کبھی کمرے میں ٹہلنے لگتی۔
’’مما…‘‘ فرید نے کچن سے آواز دی تو حلیمہ کا دل زور زور دے دھڑکنے لگا۔ وہ تیز قدموں سے کچن میں چلی گئی۔
’’مما مجھے بھوک لگی ہے‘‘… فرید نے ادھ کھلی آنکھوں سے نیند کے انداز میں اپنی ماں سے کھانا مانگا۔ حلیمہ نے شیما اور فرید کے لئے کھانا لگایا۔
’’آپ…؟ آپ نہیں کھائیں گی؟‘‘ شیما نے کھانے کی پلیٹ فرید کے سامنے رکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں خاموشی توڑتے ہوئے ماں سے پوچھا۔
’’آپ کھالو… مجھے بھوک نہیں ہے‘‘ جگ سے گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے حلیمہ نے دبی دبی آواز میں جواب دیا۔
’’تو میں بھی نہیں کھائوں گی‘‘ شیما نے بھنویں سٹاتے ہوئے اپنی پلیٹ کو واپس ماں کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔
’’نابیٹا… سچ میں مجھے بھوک نہیں ہے…تم کھا لو‘‘ حلیمہ نے ممتا بھرے لہجے میں کہا اور شیما کی طرف اسکی پیلٹ بڑھا دی۔
’’مما تم بھی کھا لو نا تھوڑا سا…ایسے تو مزہ ہی نہیں آئے گا۔‘‘ شیما نے معصوم سے انداز میں اپنی گردن ایک طرف جھکاتے ہوئے اپنی ماں سے اِلتجا کی۔
ایک لمبی سانس بھر کے حلیمہ نے شیما کی بات رکھتے ہوئے اپنے لئے ایک پلیٹ میں تھوڑا سا کھانا ڈال دیا۔ سب لوگ کھانا کھانے لگی اور حلیمہ بھی بچوں کو احساس دلانے لگی کہ وہ بھی ٹھیک سے کھانا کھا رہی ہے۔ حقیقت میں تو اُسکے حلق سے ایک دانہ بھی نہیں اترتا تھا۔ ہاتھ کھانے کی پلیٹ میں رکھ کر وہ نہ جانے کن بُرے خیالوں میں غرق تھی۔ فرید کے سبزی مانگنے یا سالن سے وہ چونک سی جاتی اور اُس کے بُرے سپنوں کا سلسلہ ٹوٹ جاتا۔
شیما نے کھانا کھا کے بستر بچھایا اور وہ دونوں بھائی بہن سو گئے لیکن حلیمہ کو ذرا بھر بھی قرار نہ تھا۔ رات بھر جنید کی فکر اور بُرے خیالات نے اُسے سونے ہی نہیں دیا۔ کبھی اگر آنکھ لگ بھی جاتی تو بُرے سپنے اُسے پھر سے جگا دیتے۔ آخر وہ ایک ماں جو ٹھہری۔ کمرے میں لگی گھڑی کی ٹک ٹک نے تو اُسے اور بھی پریشان کر دیا ۔ اُسے ایسا لگ رہا تھا کہ وقت کی رفتار جیسے ٹوٹ گئی ہے۔ وہ رات حلیمہ کے لئے قیامت سے کچھ کم نہ تھی۔
صبح فجر کی نماز کے فوراً بعد کسی نے گیٹ سے آواز دی۔ حلیمہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ پریشان ہوگئی کہ اتنی صبح کون ہوسکتا ہے۔ ’’کہیں یہ جنید تو نہیں‘‘، ایک لمحے کے لئے اسکے دل میں یہ خیال آیا۔ وہ جلدی سے دروازے کی طرف بھاگی۔ آدھا دروازہ کھول کر اُس نے آواز لگائی۔ ’’کون ہے؟‘‘۔
’’میں عفیفہ‘‘ عفیفہ آنٹی نے گیٹ کے باہر سے اونچی آواز میں جواب دیا۔
حلیمہ:۔ ’’یا اللہ ۔۔۔ عفیفہ بہن! اتنی صبح! سب خیریت تو ہے؟‘‘ ایک ساتھ کئی سوال لے کر حلیمہ کچھ بڑ بڑانے لگی اور بنا چپل کے وہ گیٹ کی طرف دوڑی چلی گئی۔
عفیفہ:۔ ’’اسلام علیکم‘‘ اندر آتے ہی عفیفہ نے بڑے سنجیدہ موڈ میں سلام کیا۔
حلیمہ:۔ ’’وعلیکم سلام‘‘ خیریت تو ہے ۔ آپ اتنی صبح‘‘ سب ۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے نا؟‘‘ حیرانی اور پریشانی کے عالم میں حلیمہ کئی ایک سوال پوچھ بیٹھی۔
عفیفہ:۔ جی ۔ سب خیریت ہے۔ آپ اندر تو چلئے۔ اپنے چہرے پر جھوٹی تسکین لئے عفیفہ نے حلیمہ کو اپنے ساتھ اندر آنے کے لئے کہا۔
اندر آتے ہی کچن میں بیٹھ کر عفیفہ نے تسلی بخش انداز بناتے ہوئے اپنی بات شروع کرنی چاہی لیکن ٹھیک سے کر نہیں پاتی تھی۔
عفیفہ:۔ ’’جی ۔ وہ کل ۔۔۔ دراصل ۔۔۔ کل رات دیر گئے یہی کوئی ۔۔ لگ بھگ 12 بجے قریب۔۔ وہ ایک فون آیا۔ دراصل آپکے نمبر سے ۔۔۔ نہیں وہ جنید بیٹا کے۔۔۔
حلیمہ:۔ حلیمہ نے جلدی سے بات کاٹتے ہوئے پریشان کن لہجے میں پوچھا ’’کیا ہوا جنید کو؟‘‘ عفیفہ پھر بات سنبھالتے ہوئے بولی۔ ’’جنید ایک دم ٹھیک ہے۔ آں۔۔۔ دراصل وہ جنید نہیں کوئی اور تھا۔ میرا مطلب ہے کوئی انجان آواز تھی، جو اسکے نمبر سے بات کر رہا تھا۔
یہ سنتے ہی حلیمہ کے جیسے ہوش ہی اڑگئے، وہ پھر عفیفہ کی بات کاٹتے ہوئے پوچھنے لگی۔ کیا۔۔۔؟ جنید ۔۔۔ کیا ہوا میرے جنید کو۔۔۔؟۔
عفیفہ:۔ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جنید بیٹا بالکل ٹھیک ہے۔ عفیفہ نے حلیمہ کا ہاتھ پکڑ کر اُسے تسلی دینے کی کوشش کی۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عفیفہ کہنے لگی ’’دراصل کل سرینگر میں اچانک حالات خراب ہوئے ہیں۔ وہ آدمی کہہ رہا تھا کہ جنید کے سر میں پتھر لگنے کی وجہ سے تھوڑی سی چوٹ آئی ہے اس لئے اُسے وہاں۔۔۔
عفیفہ کی پوری بات سنے بغیر ہی حلیمہ زور زور سے رونے لگی۔ رونے کی آواز سنتے ہی شیما پاگلوں کی طرح بستر سے اٹھ کر کچن میں چلی آئی اور اپنی ماں کو سینے سے لگا کر عفیفہ آنٹی سے پوچھنے لگی۔ ’’کیا ہوا آنٹی؟‘‘۔
اس سے پہلے کہ عفیفہ آنٹی کچھ بولتی حلیمہ نے روتے روتے کہا’’شیما جنید کل زخمی ہوا ہے اسی لئے گھر نہیں آیا۔ مجھے کل سے کچھ گڑبڑ لگ رہی تھی۔‘‘
یہ سنتے ہی شیما کے حوش اڑگئے اور بے ساختہ اُسکے منہ سے ’’یا اللہ رحم‘‘ نکل گیااور وہ سسکیاں لیتے ہوئے رونے لگی۔ عفیفہ دونوں کو سنبھالنے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ اتنے میں عفیفہ کے خاوند راشد صاحب اندر چلے آئے۔ انکی آواز سنتے ہی دونوں ماں بیٹی نے اپنے آپ کو تھوڑاسا سنبھالا۔
راشد:۔ بھئی گبھرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ میرے ساتھ چلیں ہم سرینگر جائیں گے، راشد نے دلاسا دیتے ہوئے جیب سے موبائل نکالا اور شیما کو اُسکے ماموں جان ’’سجاد صاحب‘‘ کو فون لگانے کے لئے کہا۔ راشد نے سجاد کے ساتھ مختصر بات کی اور انہیں بھی تیار ہونے کے لئے کہا۔
سب لوگ تیار ہوکے سرینگر روانہ ہوئے۔ فرید کو اپنے ماموں کے گھر چھوڑ دیا گیا اور وہاں سے سجاد صاحب بھی انکے ہمراہ ہوئے۔ سرینگر کے بہت بڑے اسپتال پہنچ کر پتہ چلا کہ آج صبح قریب 09 بجے ہی جنید کو طبی خدمات کے اعلیٰ انسٹی چوٹ منتقل کیا گیا ہے۔ ایسا سنتے ہی حلیمہ اور شیما زورو قطار رونے لگیں۔ میڈیکل انسٹی چوٹ کے اسپتال پہنچ کر پتہ چلا کہ جنید کو ایمرجنسی آپریشن کے بعد ICU وارڈ میں رکھا گیا ہے اور اُسکی حالت ابھی بھی خراب ہے۔ یہ لمحے حلیمہ اور شیما کے لئے قیامت سے کم نہ تھے۔
وقت گزرتا گیا۔ جنید کی حالت کبھی سدھرتی تو کبھی پھر بگڑ جاتی ،ڈاکٹر کبھی جنید کے گھر والوں کو دلاسا دیتے تو کبھی کچھ کہنے سے ہی انکار کرتے۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آرہا تھا۔
چند دنوں کے بعد جیند کو ہوش آیا تو اُسکے گھر والوں کو ایک ایک کر کے اُس سے ملنے کی اجازت دی گئی۔ جنید نے سب کے ساتھ تھوڑی بہت بات بھی کی لیکن ڈاکٹروں نے کسی کو بھی اسکے پاس زیادہ دیر رکنے کی اجازات نہ دی۔ حلیمہ، شیما اور سجاد کی حالت خراب ہوگئی تھی۔ حلیمہ ایک بار بھی گھر نہیں گئی تھی بلکہ جب سے وہ اسپتال آئی تھی اُس نے تو باہر کی روشنی بھی نہیں دیکھی تھی۔ اُسے نہ رات کا پتہ چلتا تھا نہ دن کا ،وہ پوری دنیا سے جیسے بے خبر ہوگئی تھی۔ کبھی وہ ICU کے اندر جنید کے بیڈ کے پاس جاتی تو ڈاکٹر اُسے نکال دیتے تو کبھی وہیں ICU وارڈ کے دروازے پر پڑی رہتی۔ جنید کو آج اسی حالت میں پندرہ دن ہوگئے تھے۔ سجاد اور شیما اس سے پہلے بھی ایک بار گھر گئے تھے۔ سجاد کل دوسری مرتبہ گھر گیا تھا اور آج واپس آنے والا تھا۔ دوپہر کا وقت تھا، حلیمہ ICU کے دروازے پر ہر کسی آنے جانے والے کو دیکھ رہی تھی۔ آج اُسکا دل کچھ زیادہ ہی اُداس تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ کوئی آئے اور وہ اُس سے بات کرے تاکہ اُسکے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہو جائے۔ اُسے زاہد حسین کی بہت زیادہ کمی محسوس ہورہی تھی۔غموں سے ٹوٹ چُکی حلیمہ نہ جانے کن خیالوں میں گم تھی کہ کسی نے سلام کر کے اُسے ایک دم چونکا دیا۔
حلیمہ:۔ ’’سجاد! تم کب آئے‘‘ تھوڑی سی حیرانگی کے ساتھ حلیمہ خود کو سمبھالتے ہوئے دبی دبی آواز میں بولی۔
بھیگے بال، بھیگی قمیض ایک ہاتھ میں بیگ اور دوسرے ہاتھ میں بھیگا بھیگا اخبار لئے وہ سجاد ہی تو تھا۔ اُسے دیکھ کر حلیمہ کو پتہ چلا کہ باہر بارش ہو رہی ہے۔
سجاد:۔ ’’جی ابھی آیا اور پتہ ہے۔۔۔‘‘
حلیمہ:۔ کیسے ہو تم؟۔۔۔ سجاد کی بات کاٹتے ہوئے حلیمہ پوچھ بیٹھی۔
سجاد:۔ دیدی کیسے ویسے چھوڑدو، پہلے یہ بتائو جنید کیسا ہے؟۔ سجاد بہت زیادہ خوشی کے انداز میں پوچھ رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے جنید ٹھیک ہوگیا ہے اور سجاد اُسے گھر لینے کے لئے آیا ہے۔
حلیمہ:۔ (ایک گہری سانس لے کر)’’بس ویسا ہی ہے جیسے کل تم نے دیکھا تھا۔‘‘
سجاد:۔ کیا ہے اس اخبار میں۔ کچھ خاص ہے کیا؟ مرُجھائی ہوئی آواز میں حلیمہ نے پوچھا، ’’خاص نہیں دیدی خاص الخاص کہئے ، خاص الخاص‘‘ سجاد خوشی ظاہر کرتے ہوئے خود اخبار کھول کر حلیمہ کو دکھانے لگا۔
حلیمہ:۔ ’’کیا مطلب‘‘؟ سوالیہ نظریں اخبار کے اوراق پر دوڈاتے ہوئے حلیمہ پوچھنے لگی۔
سجاد :۔’’ یہ ۔۔۔ یہ والا صفحہ دیکھ لو دیدی‘‘۔حلیمہ کے ہاتھ میں اخبار تھماتے ہوئے۔
حلیمہ :۔ کیا ہے یہ؟‘‘
سجاد:۔ KAS امتحان کا رزلٹ ہے دیدی اور یہ ۔۔۔ یہ دیکھ لو!۔ ’’جنید کا نام پانچویں نمبر پر ہے۔‘‘
حلیمہ کی آنکھیں بھر آئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر پورے وارڈ میں اور سارے ڈاکٹروں میں پھیل گئی۔
ایک طرف سے حلیمہ کو پوری دنیا کی خوشیاں مل گئیں اور دوسرے طرف غموں کا پہاڑ اُسے دبوچے ہوئے تھا۔ حلیمہ نے اُداس آنکھوں سے سجاد کی اور دیکھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ پوچھ رہی ہو کہ کب میرا جنید ٹھیک ہوگا؟ کب وہ اپنے گھر واپس لوٹ آئے گا؟
سجاد نے ہلکی سی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر سجائی اور اپنی بہن کو اپنے سینے سے لگایا۔ پرُ نم آنکھوں سے سجاد اپنے بہن کو تسلی دینے لگا۔ دیدی سب ٹھیک ہوگا۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ سجاد کی بات سنتے ہی حلیمہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اُسے اندر ہی اندر یہ احساس کھائے جا رہا تھا کہ اس وقت زاہد حسین زندہ ہوتے تو شاید وہ اتنی زیادہ پریشان نہ ہوتی۔
کئی رشتہ دار، دوست و احباب اور خاص طور سے جنید کے دوست مبارکباد دینے وہیں اسپتال چلے آئے۔
سہ پہر قریب 4بجے کا وقت تھا۔ ڈاکٹر جنید کے وارڈ میں کچھ زیادہ ہی آنے جانے لگے۔ سجاد کو کچھ شک ہوا تو اُس نے جاکر دیکھنا چاہا لیکن ڈاکٹروں نے اُسے اندر آنے سے منع کیا۔ ایک ڈاکٹر، جس کے ساتھ سجاد کی کچھ تھوڑی جان پہچان بن گئی تھی، سے سجاد نے پوچھا کہ سب خیریت تو ہے؟۔ اُس نے بتایا کہ جنید کی حالت تھوڑی خراب ہوئی ہے اور اُسے وینٹلیٹر(Ventilator) پر رکھا گیا ہے۔ سب لوگ پریشان ہوئے اپنی نظریں ICUکے دروازے پر جمائے بیٹھے۔
شام 7 بجکر 20 منٹ پر جیند سب کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر ابدی نیند سوگیا۔
���
لولاب کپواڑہ: حال نٹی پورہ سرینگر
9622547772