سرینگر//’’میری زندگی غموں میں ڈوب گئی ہے مجھے کیا پوچھتے ہو میرے پاس کیا ہے ‘۔‘ چار جوان بچوں کو کھو کر بانڈی پورہ کی80سالہ حاجرہ آج بھی اُس انتظار میں ہے کہ کبھی نہ کبھی غم کے بادل چھٹ جائیں گے اور اُس کے 2لاپتہ بیٹے ماں پکارنے ضرور آئیں گے ۔ سرینگر کی پرتاب پارک میں اے پی ڈی پی کے اہتمام سے گمشدہ افراد کے لواحقین کے احتجاج کے دوران ونہ گام بانڈی پورہ کی 80سالہ حاجرہ کئی ماہ بعد احتجاج کرنے سرینگر پہنچتی تھی ،اُسے جو بھی صحافی دیکھتا تو اُن کا حال چال پوچھنے آجاتا ۔ پھر حاجرہ اُن کے ہاتھ پکڑ کر انہیں چومتی اور کہتی تھی کہ میری ساری زندگی غموں میں ڈوب گئی ہے مجھے کیا پوچھتے ہو میرے پاس اب کچھ بھی نہیں ہے ،وہ کہتی ہے کہ پچھلے 24برسوں سے وہ حکومت سے صرف اتنا سوال کرتی آئی ہے کہ اُس کے بچے کہاں ہیں لیکن نہ کوئی جواب ملتا ہے اور نہ انضاف ۔80سالہ حاجرہ زوجہ مرحوم غلام محمد صوفی ساکن ونگام بانڈی پورہ کے دو بیٹے 23سالہ شبیر احمد صوفی اور 20سالہ اعجاز احمد صوفی 1993میں لاپتہ ہو گے جبکہ دیگر 2 نذیر احمد صوفی اور محمد رفیق صوفی فورسز کے ہاتھوں جابحق ہوئے لیکن 24سال میں بھی حاجرہ کو انصاف نہیں ملا ۔آنکھوں میں آنسوں کے سیلاب لئے یہ خاتون کہتی ہے کہ میرے بیٹے مجھے سے کب جدا ہوئے مجھے اب تاریخ بھی یاد نہیں ہے ۔حاجرہ کہتی ہے کہ 90کی دہائی میں جب مسلح شورش شروع ہوئی تو میں نے اپنے چھ بیٹوں کو اپنی نان وائی کی دکان پر بھیجا تاکہ وہ پاب کا ہاتھ بٹا سکے، لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ دن میرے لئے کسی بڑی مصیبت سے کم نہیں ہو گا ۔ اُس دن14 آر آر نے علاقے کو محاصرے میں لیا اور میرے بیٹے شبیر احمد کو دکان سے گرفتار کر کے اپنے ساتھ لیا تب سے اُس کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ اسی طرح میرا دوسرا بیٹا اعجاز بھی لاپتہ ہوا ،دونوں کی تلاش ابھی جاری تھی کہ فوج نے اس کنبے پرظلم کرنے شروع کر دئے ہمارا مکان جلایا گیا ، کئی بار میرے خاوند کاانٹروگیشن کیا گیا انہیں مختلف کمپوں میں الگ الگ جگہوں پر بلا بلا کر ٹارچر کیا گیا اس ظلم وجبر کی وجہ سے میرے دو بیٹے نذیر احمد صوفی اور محمد رفیق بھی کئی ماہ تک گھر سے غائب رہے لیکن مجھے نہیں پتا کہ وہ کہاں تھے جب واپس آئے تو فوج کے ساتھ تصادم میں مارے گئے۔ خاوند کا سہارا تھا، لیکن وہ یکے بعد دیگرے بیٹوں کا جنازہ اْٹھاتے اْٹھاتے جان لیوا مرض میں مبتلا ہوگئے اور انتقال کرگئے۔گھر میں دو بیٹے فاروق اور فیاض ہیںدونوں کی شادی کر دی گئی ایک کے گھر میں پانچ بچیاں ہیں اور دوسرے کے گھر میں تین ایسے میں گھر کا گذارہ بھی بڑی مشکل سے چلتا ہے ۔ عمر یہ خاتون کہتی ہے کہ اُن کا مکان بھی فوج نے جلاڈالا جس کے بعد وہ سر چھپانے کیلئے در در بھٹکتی رہی اُس کے بعد ایک یک منزلہ عارضی مکان تعمیر کیا اب وہاں ہی گذارہ کر رہے ہیں ،وہ کہتی ہے کہ یہاں انصاف اُسے نہیں ملا لیکن کسی کے سامنے تو انہیں کو حساب دینا ہو گاجنہوں نے میرے دنیا اجاڑ دی ۔