سرینگر//فورسزکے ساتھ جھڑپ کے دوران3جنگجوئوں کے جاں بحق ہونے پرمنگل کو پلوامہ اورشوپیان اضلاع کے بیشتر علاقوں میںتعزیتی ہڑتال کی وجہ سے معمول کی زندگی تھم کررہ گئی ۔اس دوران تینوں جنگجوئوں کو ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں اپنے اپنے آبائی علاقوں میں سپرد لحد کردیا گیا اور ایک جنگجو کی تجہیز و تکفین کے موقعے پر اس کے ساتھیوں نے ہوائی فائرنگ کرکے اسے سلامی بھی دی ۔تفصیلات کے مطابق شوپیان کے گتی پورہ کیلرعلاقے میں پیر کو فورسز اور جنگجوئوں کے مابین تصدام آرائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔یہ جھڑپ اُس وقت شروع ہوئی جب فورسز نے جنگجوئوں کی موجودگی کے بارے میں مصدقہ اطلاع ملنے پر تلاشی کارروائی کا آغاز کیا۔جھڑپ کے دوران تین جنگجو از جان ہوئے جن میں زاہد احمد میر ساکن گنائو پورہ ، عرفان عبداللہ گنائی ہیف شوپیان اور آصف احمد پال ساکن کاٹھو ہالن شامل ہیں۔تینوں کا تعلق حزب المجاہدین کے ساتھ تھا جبکہ ایک اطلاع میں یہ بھی بتایا گیا کہ عرفان لشکر طیبہ کے ساتھ وابستہ تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ زاہد میر15جولائی2015، عرفان11مئی2016جبکہ آصف 4جولائی2017کو عسکری صفوں میں شامل ہوا تھا۔ نمائندے نے بتایا کہ تینوں مقامی جنگجوئوں کی میتیں سوموار کی رات ہی لواحقین کے سپرد کی گئی تھیں اور بعد میں ان کے آبائی علاقوں میں پہنچائی گئیں جہاں رات بھر غم و الم کے بیچ اسلام اور آزادی کے حق میں نعرے بازی کا سلسلہ جاری رہا۔منگل کی صبح تینوں جنگجوئوں کو ان کے آبائی علاقوں میںپر نم آنکھوں کے ساتھ سپرد لحد کیا گیا۔ان کی نماز جنازہ اور تجہیز و تکفین میںمزاحتمی لیڈران ، کارکنوں، خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں لوگ شریک ہوئے اور اس دوران اسلام و آزادی کے حق میں نعرے بلندکئے گئے ۔زاہد کی نماز جنازہ میں لوگوں کی بھاری شرکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی نماز جنازہ چار مرتبہ ادا کی گئی۔ آصف احمد ایک پہاڑی اور دورافتادہ گائوں سے تعلق رکھتا تھا لیکن اس کے باوجود اس کی تجہیز و تکفین کے موقعے پرلوگوں کا جم غفیر گائوں میں امڈ آیا۔عرفان احمد اپنے گائوں کا گیارہواں جنگجو تھا جو فورسز کے ساتھ جھڑپ میں جاں بحق ہوا۔ عرفان کی تجہیز و تکفین کے موقعے پر اس کے کئی مسلح ساتھی اچانک نمودار ہوئے اور ہوا میں گولیاں چلاکر سلامی پیش کی۔نمائندے نے بتایا کہ تینوں جنگجوئوںکی یاد میں پلوامہ اور شوپیان اضلاع کے پلوامہ،کاکہ پورہ، راجپورہ، کیلر، زینہ پورہ، شوپیان اورکیگام سمیت بیشتر علاقوں میںدکانیں ، کاروباری ادارے اورسرکاری و نجی دفاتر تالہ بند رہنے سے سڑکیں سنسان پڑی رہیں اور گاڑیاں بھی سڑکوں پرنظر نہیں آئیں ۔دونوں اضلاع میں تمام سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں درس و تدریس کا کام مکمل طور ٹھپ رہا۔دونوں اضلاع کے حساس علاقوں میں ممکنہ احتجاجی مظاہروں کو روکنے کیلئے سخت سیکورٹی بندوبست کے تحت متعدد مقامات پر پولیس اور نیم فوجی دستوں کی خاصی تعداد تعینات کی گئی تھی ، البتہ لوگوں کے چلنے پھرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں تھی۔اس دوران جاں بحق ہوئے جنگجوئوں کے لواحقین کے ساتھ تعزیت پرسی کیلئے آنے والے لوگوں کی آمد کا سلسلہ صبح سویرے ہی شروع ہوا اوردن بھر جاری رہا ۔